طالبان جنگجویانہ طرز عمل ترک کریں

ایڈیٹوریل  بدھ 18 ستمبر 2013
خودکش بمباروں کی فوج ظفر موج نے ملک کی ترقی کا پہیہ جام کر دیا ہے۔فوٹو:فائل

خودکش بمباروں کی فوج ظفر موج نے ملک کی ترقی کا پہیہ جام کر دیا ہے۔فوٹو:فائل

گزشتہ بارہ برس سے ملک میں آگ و بارود کا سفاکانہ کھیل جاری ہے، وحشت اور دہشت کے ماحول میں ایک نسل پروان چڑھ چکی ہے، بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرنے سے کتراتے ہیں، خودکش بمباروں کی فوج ظفر موج نے ملک کی ترقی کا پہیہ جام کر دیا ہے، دہشت گردی اور بم دھماکوں کے نتیجے میں چالیس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ زندہ بچ جانے والے ایک لاکھ سے زائد افراد معذور و مجبور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ نو منتخب حکومت ملک میں جاری دہشتگردی کا خاتمہ چاہتی ہے، اسی حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے متفقہ طور پر ایک لائحہ عمل بھی مرتب کیا گیا، قوم کو امید ہو چلی تھی کہ شاید امن مذاکرات کی جانب مثبت پیش رفت ہو، لیکن اس جارحانہ سوچ کا کیا کیا جائے جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اپنا رکھی ہے۔

جنھوں نے ہمیں پاک فوج کے ایک بہترین میجر جنرل سمیت متعدد پاسبان وطن سپاہیوں سے محروم کر دیا، اس پرطالبان کا یہ اصرارکہ وہ اب بھی سرکاری فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں اور فوج پر حملے کا موقع کبھی ضایع نہیںکریں گے، اگر حکومت یہ جنگ ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے سیز فائر کا اعلان کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں پاک فوج کے سربراہ جنرل پرویزکیانی کا یہ کہنا انتہائی صائب ہے کہ دہشت گردوںکی مانیں گے نہ ایجنڈا مسلط کرنے دیں گے۔ طالبان کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ وہ ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں اگر حکومت ان کو مذاکرات کا سنہری موقع دے رہی ہے، تو انھیں اس سیاسی رعایت سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

پاک فوج کے ساتھ اس ملک کی حکومت اور عوام شانہ بشانہ کھڑے ہیں جو آخری دہشتگرد کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں، شکست تو طالبان کا مقدر ہے، تو پھر اگرخیبر پختون خوا کی حکومت تین مراحل میں فوج واپس بھیجنے کا عجلت پسندانہ فیصلہ کرنے چلی ہے جس پر پشاور ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت کو مالاکنڈ ڈویژن سے فوج کے انخلاء سے قبل وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کے ساتھ ملکر مناسب قانون سازی کرنے کے احکامات جاری کرنے کا حکم دیا ہے تا کہ کوئی آئینی و قانونی بحران پیدا نہ ہو۔ کے پی کے کی صوبائی حکومت کے اس بچگانہ طرز سیاست سے دہشتگردوں کے حوصلے اور بڑھیں گے، کیونکہ امریکا جیسی سپر پاور افغانستان اور عراق سے انخلا کے سلسلے میں تذبذب و مشکلات کا شکار ہے۔

امریکی فوج کے بعد ان ممالک کا عسکری و پولیس کا نظام کیا مقامی انتظامیہ کے اہلکار سنبھال پائیں گے بعینہ یہی سوال خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ سوات اور مالاکنڈ سے پاک فوج کے انخلا  کے بعد کیا پولیس امن و امان کو قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا پھر دہشت گرد پر امن علاقوں پر آناً فاناً قابض ہو جائیں گے۔ سازشوں کا ایک جال ہے جو پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر بنا جا چکا ہے، یہ اب ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کے تدبر اور فہم و فراست کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح پاکستان کو عالمی سازش سے بچاتے ہیں ورنہ حالات کی ابتری کا اندازہ و گمان تو سب کو ہی ہے، خدانخواستہ اگر پاکستان کو کوئی نقصان اندرونی حالات کی بنا پر پہنچا تو اس کے ذمے دار ہم سب ہونگے، طالبان کو بھی جنگجوئی کی آڑ میں دشمن ممالک کے ہاتھوں میںکھیلنے کے عمل کو ترک کرنا ہو گا، ورنہ وہ اس ملک کے دشمن ہی گردانے جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔