امید پر دنیا قائم ہے

عبدالقادر حسن  ہفتہ 3 اگست 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

اپوزیشن اور حکومت کے درمیان سیاست کا میدان گرم ہے دونوں پارٹیاں اپنے اپنے مورچوں میں مضبوطی کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہیں اپوزیشن کی جانب سے بات لفظی گولی باری سے آگے نکل کر چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد تک پہنچ گئی ۔ جس کا انجام ہم سب نے دیکھ لیا۔ اپوزیشن عددی اکثریت کے باوجود ناکام ہو گئی جس کا مطلب آج کی رائج سیاست میں یہی لیا جاسکتا ہے کہ ضمیر جاگنے کے بجائے ضمیر بک گیا اور حکومت کو کامیاب کر گیا۔

اپوزیشن کی جانب سے یہ پہلا باقاعدہ حملہ تھا جس کا حکومت نے بھر پورجواب دیا۔ اپوزیشن نے اپنی اکثریت کے باعث سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانا آسان ہدف سمجھتے ہوئے حکومت پر وار کیا جس کو اپوزیشن کے اپنے ہی اراکین نے ناکام بنا دیا اور یوں اپوزیشن کی ایک یقینی کامیابی ناکامی میں بدل گئی۔اگر اپوزیشن حکومت پر اس پہلے حملے میں کامیاب ہو جاتی تو اس کا دوسرا وار پنجاب کی حکومت پر تیار تھا اور یہ وار انتہائی مہلک ہونا تھا جس نے حکومت کی جڑیں اکھیڑ دینی تھیں لیکن اس کی کامیابی کا تمام تر دارومدار سینیٹ کی کامیابی سے مشروط تھا حکومت نے اس پہلے حملے کی شدت کو محسوس کر لیا تھا۔

اس لیے جناب عمران خان کی حکومت نے اپنے اصولوں سے ہٹتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کو بچا لیا حالانکہ جناب عمران خان ہمیشہ پارلیمان کی بالا دستی اور خفیہ ووٹنگ کے طریقہ کار کے سخت ناقد رہے ہیں لیکن جب معاملہ اپنی حکومت کی سبکی کا آیا تو انھوں نے وہی کیا جو ان کے پیشرو کرتے آئے تھے ۔وہ ملکی سیاست کے رنگوں میں اپنے آپ کو رنگ رہے ہیں جو ان کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوگا۔ جس نظریے پر انھوں نے عوام سے ووٹ لیے تھے ان کو اس نظریہ سے کوسوں دور لے جایا جا رہا ہے دوسرے لفظوں میں ان کی جداگانہ سیاسی شناخت کو ختم کیا جارہا ہے اور ملک کے جماندرو سیاستدانوں کے ساتھ ملایا جا رہا ہے تا کہ بوقت ضرورت ان کو سیاستدانوں کے اسی ریوڑ میں شامل کیا جا سکے جن پر وہ تنقیدکے نشتر چلاتے آئے ہیں۔

حکومت کے سینیٹ میں طرز عمل نے ماضی کی یاد دلا دی جب میاں نواز شریف اپنی کامیابی کے لیے صوبائی اسمبلی کے اراکین کو چھانگا مانگا لے گئے تھے اور محترمہ بینظیر شہید کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا تھا تو وہ بھی ’معزز‘ اسمبلی اراکین کو مری لے گئیں۔ہماری سیاست کا یہی انداز رہا ہے اور اس کو فروغ بھی ہماری سابقہ حکمران جماعتوں نے دیا ۔

یہی وہ سیاسی بازی گری ہے کہ آج جب ضرورت پڑی تو ہماری تحریک انصاف نے بھی بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود وہی طریقہ استعمال کیا جو رائج زمانہ رہا ہے پارٹی سے الگ ہو کر ووٹ دینے کے خلاف قانون بھی موجود تھا اس لیے جب تحریک عدم اعتماد کے حق میںہاتھ کھڑے کرکے اپنی رضامندی ظاہر کرنے کا وقت تھا تو اپوزیشن کی اکثریتی تعداد واضح تھی لیکن جیسے ہی ووٹنگ کے بعد نتیجہ آیا تو وہ اس کے برعکس تھا مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک کی ناکامی کے بعد اپوزیشن کے اجلاس میں اراکین کی تعداداپوزیشن کے ڈبے سے نکلنے والے ووٹوں کی تعداد سے زیادہ تھی اور اس اجلاس میں وہ ارکان بھی موجود تھے جنہوں نے اپنی پارٹی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے حکومت کے حق میں ووٹ دیا لیکن ان کی نشاندہی ابھی تک نہیں ہو سکی۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لڑائی سیاست کا حسن ہے اور اس حسن کو اپوزیشن برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے جب کہ حکومت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپوزیشن تو موجود رہے لیکن اس کا حسن لشکارے نہ مارے ۔ ہمارے جمہوری ملک میں حکومت مخالف تحریکوں کی کامیابی کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس میں ہمارے سسٹم کا نقص ہے، کہنے کو تو ہمارے ہاں جمہوری نظام ہے مگر دیکھا جائے تو ہمارے سیاستدانوں کی سیاسی تربیت جمہوریت کی روح کے مطابق نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے جمہوری عمل میں مسلسل رکاوٹیں پیش آتی رہیں اور ان رکاوٹوں کا باعث جمہوریت کی حقیقی روح سے نابلد سیاستدان بنتے رہے اوراب تو یہ بات پختہ ہو گئی ہے کہ جمہوری ملک میں سیاستدانوں کو جمہوریت چھو کر بھی نہیں گزری ان کے رویے اس بات کے گواہ ہیں اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک کے دوران انھوں نے اس گواہی پر مہر ثبت کر دی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہ کھیل جاری رہے گا لیکن یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ ہمارے منتخب نمایندے آج بھی نظریہ ضرورت کی سیاست کر رہے ہیں ان کا سیاسی طرز عمل اس بات کی گواہی دے رہاہے۔میں اکثر یہ بات کرتا ہوںکہ ہماری قوم جلد بھول جانے کی عادی ہے ابھی کل کی بات ہے جب محترم سنجرانی صاحب کو چیئرمین منتخب کرانے میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان ایک خاموش اتحاد تھا جس نے مل کر سنجرانی صاحب کو منتخب کیا تھا اور اسی ایوان میں ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے گونج رہے تھے جن کی آوازیں ایوان کے در و دیوار سے ٹکرا کر ارکان کے کانوں میں رس گھولتی رہیں لیکن اب کی بار یہ آوازیں مفقود تھیں اور جمہوریت کو حسن قرار دینے والوں کے ہاتھوں ہی جمہوریت کو گھن لگ چکا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی لفظ حرف آخر نہیں ہوتا چونکہ اب وقت بدل چکا ہے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں زخم خوردہ ہیں اس لیے قدرتی بات ہے کہ ان میں قربتیں بڑھ رہی ہیں کل کے حریف آج کے حلیف بن کر سامنے آئے ہیں ۔

جس کی ایک ہی وجہ ہے کہ جناب زرداری کو یہ یقین تھا کہ عمران خان کی حکومت ان کو نہیں چھیڑے گی اور اس کا سارا زور شریف خاندان پر رہے گا لیکن زیر عتاب آتے ہی دونوں جماعتوں نے اپنے ماضی کو بھلا کر حکومت کے خلاف اتحادکر لیا ہے چونکہ دونوں پارٹیوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ کسی طرح موجودہ حکومت کے شکنجے سے نکل کر اپنا مال بچا لیا جائے ان کایہ مال بچاؤ ایجنڈا کتنا کامیاب ہوتا ہے اس کا اندازہ انھیں موجودہ حالات سے ہو جانا چاہیے لیکن امید پر دنیا قائم ہے اور اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اس لیے ہمارے دونوں سابقہ رہنماؤں نے ابھی تک امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور وہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔