غیر ملکی دورے اور صحافیوں کی ذمے داری

نصرت جاوید  بدھ 18 ستمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اس کالم کے آغاز ہی میں مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ میں 1993ء سے کسی صدر یا وزیر اعظم کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر جانے سے پرہیز کرتا رہا ہوں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو تو میری اس عادت کی وجہ سے پورے دو سال اپنے دوسرے دورِ حکومت میں مجھ سے ناراض رہیں۔ بالآخر ان کے ساتھ OICکی ایک کانفرنس کے لیے مراکش جانا پڑا اور ان کے آخری دورہ جاپان میں بھی ساتھ رہا۔ نواز شریف جب ان کے بعد وزیر اعظم بنے تو مشاہد حسین ان کے وزیر اطلاعات تھے۔ وہ کسی زمانے میں میرے بڑے مہربان ایڈیٹر رہے تھے۔ انھوں نے اصرار کرکے ایک مرتبہ اپنے وزیر اعظم کے ساتھ اقوام متحدہ کے اجلاس کے لیے بھیجا اور پھر ایران کے اس دورے پر بھی جو OICکے ضمن میں تھا۔ جنرل مشرف کے آجانے کے بعد مجھے اس عذاب سے بھی نجات مل گئی اور میں اس کے بعد سے آج تک کسی سرکاری دورے پر حکمرانوں کے ساتھ نہیں گیا اور نہ جانے کی کوئی خواہش ہے۔

اس تمہید کے بعد میں پورے خلوص سے یہ چاہتا ہوں کہ نواز شریف صاحب ہمت پکڑیں اور اپنے غیر ملکی دوروں پر صحافیوں کا ہجوم نہیں مگر خارجہ امور وغیرہ پر باقاعدگی کے ساتھ رپورٹنگ کرنے والے چیدہ چیدہ نوجوانوں کو اپنے ہمراہ ضرور لے کر جایا کریں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ٹی وی کی وجہ سے میرے چند بلکہ معدودے چند دوستوں پر اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم فرمایا۔ وہ لاکھوں میں تنخواہ لیتے ہیں اور جس ملک بھی جانا چاہیں اپنے پلے سے ٹکٹ خرید کر جاسکتے ہیں۔ اللہ ان کے رزق میں مزید برکت ڈالے۔ مگر اپنی اس ذاتی خوش حالی کی بنیاد پر انھیں ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وزیر اعظم کے ہمراہ جانے والے صحافیوں کی فہرستیں دکھا دکھا کر انھیں ’’ریاستی وسائل پر عیاشیاں کرنے والے‘‘ کرداروں کی صورت میں بدنام کریں۔ خواب دیکھنا اچھی بات ہے۔ مگر کچھ زمینی حقائق بڑے تلخ ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کا احساس کرنا چاہیے۔ لوگوں کی مجبوریوں کو کٹھ ملائیت کے انداز میں اُچھالنے سے پرہیز بھی ضروری ہے۔

1975ء سے سوائے صحافت کے میں نے کچھ اور نہیں کیا۔ مجھے یہ جاننے کے لیے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں کہ ہمارے اداروں کے مالکان ہرگز یہ تردد نہیں کریں گے کہ اپنے کسی رپورٹر پر کم از کم 3سے 5لاکھ روپے صرف اس وجہ سے خرچ کر ڈالیں کہ وہ وزیر اعظم کے مثال کے طورپر ترکی کے حالیہ چار روزہ دورے کے بارے میں کچھ خبریں بھجوائے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں آپ نواز شریف کی ترکی میں ساری مصروفیات کو اپنے کمپیوٹر کا ایک بٹن دباکر جان سکتے ہیں۔ سرکاری دوروں میں ’’اندر کی باتیں‘‘ویسے بھی Breaking Newsکی صورت میں لوگوں کے سامنے نہیں لائی جاتیں۔ ان ہی باتوں کو ذرا جمع تفریق کے بعد بیان کردیا جاتا ہے جو میزبان اور مہمان ملک کے سربراہان اپنی تقریروں، مشترکہ پریس کانفرنسوں یا اعلامیوں کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔

امریکی صدر کی بات رہی ایک طرف وہاں کا وزیر خارجہ ہی نہیں بلکہ سی آئی اے کے سربراہ بھی جب کسی غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں تو صحافیوں کا ایک خاصا بڑا گروہ ان کے ہمراہ ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ان صحافیوں کے ادارے ان کے جہاز کے ٹکٹ اور ہوٹل کا کرایہ ادا کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ مثال کے طورپر ایک صحافی کے لیے جان کیری کے جہاز میں ایک نشست حاصل کرنے کی قیمت دُنیا کی سستی ترین ایئر لائن کی ٹکٹ سے بھی کہیں کم ہوتی ہے۔ ہوٹل جب وزارتِ خارجہ جیسے ادارے بک کریں تو کمروں کے نرخ بھی Corporate Ratesکی صورت میں کافی مناسب نظر آتے ہیں۔

صحافت میں فوری خبر کی اہمیت اپنی جگہ مگر ایک چیز Deep Backgroundہوتی ہے۔ اس کے بغیر کسی رپورٹر کو پیچیدہ بین الاقوامی مسائل کی ہرگز سمجھ نہیں آتی۔ یہ بیک گرائونڈ آپ زیادہ تر ان لوگوں سے حاصل کرتے ہیں جو کسی صدر یا وزیر اعظم کے ہمراہ جہاز میں بیٹھے ہوتے ہیں اور غیر ملکی حکام کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات میں شریک ہوتے ہیں۔ آج کل میرے جو دوست اپنے اداروں کے خرچ پر ترکی میں موجود ہیں وہ گھنٹوں کے سفر کے بعد اپنے اپنے طورپر اس ملک پہنچے۔ ان کا قیام ان ہوٹلوں میں ہے جو وزیر اعظم اور ان کے وفد کی قیام گاہوں سے بہت فاصلوں پر ہیں۔ ان حقیقتوں کی روشنی میں وہ صحافی نواز شریف صاحب کی ترکی میں موجودگی اور مصروفیات کے بارے میں اتنے ہی لاعلم رہیں گے جتنے میں اور آپ اس ملک میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے ہیں۔

اس سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم اور ان کا وفد ان صحافیوں کو اپنے ہمراہ جہاز میں بٹھالیتا۔ ترکی تک سفر کے دوران نواز شریف صاحب ان صحافیوں کو بلاکر خاصی تفصیل سے سمجھا سکتے تھے کہ وہ اس ملک میں چار دن کس مقصد کے تحت صرف کرنے جارہے ہیں۔ واپسی پر ان سے اور ان کے ہمراہ جانے والے وزراء اور دیگر سرکاری افسران سے رپورٹر یہ جاننے کی تگ ودو کرتے رہتے کہ اپنے قیام کے دوران وزیر اعظم نے اپنے دورہ ترکی کے لیے طے کردہ کون سے اہداف حاصل کیے اور وہ کیا رکاوٹیں ہیں جو بہت سارے دیگر امور کو آگے بڑھنے نہیں دے رہیں۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ رپورٹر اس سفر میں جو کچھ جانے فوری طور پر اپنی تحریروں یا پروگراموں میں بیان کردے۔ ترکی جیسے ملکوں کے ساتھ ہمارے رشتے بڑے دیرپا ہیں۔ ان میں اُتار چڑھائو آتے رہیں گے۔ مگر ہمارے صحافی ان کے بارے میں کوئی Deep Backgroundعلم نہ رکھنے کی وجہ سے بے خبر رہتے ہوئے محض قیاس آرائیاں کرتے رہیں گے۔

ترکی کے فوراً  بعد نواز شریف صاحب نے امریکا جانا ہے۔ مقصد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا ہے۔ مگر اس سے زیادہ اہم ان کی وہاں امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم سے ملاقاتیں ہیں۔ ان ملاقاتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ اپنے طورپر نیویارک پہنچ کر کسی سستے ہوٹل میں Bed & Breakfastوالا کمرہ لے کر کوئی صحافی ان ملاقاتوں کی باریکیوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا اگر وہ وزیر اعظم کے ساتھ امریکا جاتے اور وہاں سے لوٹتے ہوئے جہاز کے نسبتاً  غیر رسمی ماحول میں کوئی گپ شپ نہیں کرتا۔ سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے ایک رپورٹر کو کسی نہ کسی طور ’’سرکاری‘‘ حیثیت میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر تک رسائی بھی درکار ہے اور ان ہوٹلوں تک بھی جہاں مختلف ممالک کے سرکاری وفود قیام پذیر ہوں گے۔ غریب رپورٹروں کو اہم معاملات تک رسائی حاصل کرنے دیں۔ انھیں ’’پارسائی‘‘ کی موت نہ ماریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔