پاکستانی ذرایع ابلاغ کی مختصر تاریخ

مقتدا منصور  بدھ 18 ستمبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان میں ذرایع ابلاغ کے بارے میں بیشمار کتابیں لکھی گئیں۔ مگر ضمیر نیازی مرحوم کی کتابوں کو جو مقام حاصل ہوا وہ دوسری کتب کو نہ ہوسکا۔ان کی کتابوں میں پاکستان میں صحافت کی تاریخ کے علاوہ ذرایع ابلاغ کودرپیش مسائل کی معروضی اندازمیں نشاندہی بھی تھی۔ضمیر نیازی صاحب نے تمام عمر چونکہ کوچہ صحافت میںقلم کی مزدوری کرتے اور اس شعبے کے وقار میں اضافے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گذاری تھی،اس لیے وہ اس کی رگ وپے سے واقف تھے۔ بقول شخصے وہ اس شعبے کے ماہرکے نباض تھے اور اس کی ہر کیفیت  اور حکمرانوں کی روش و رویوںسے بخوبی آگاہ تھے۔مگر حال ہی میںاس موضوع پر ایک نئی کتا ب سامنے آئی ہے، جس کا نام Strangling Liberty-Media in Distress in Pakistan ہے۔یہ کتاب شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (SZABIST) میںڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسزڈاکٹر ریاض احمد شیخ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب موصوف عمرانیات کے استاد ہیں۔ طلبہ سیاست سے حاصل تربیت، سیاسی عمل کا قریب سے مشاہدہ اورسیاسی وسماجی علوم کے عمیق مطالعے نے ان کی قوت مشاہدہ اورسوچ میں گراں قدر اضافہ کیا ہے،جس کے جابجا مظاہر اس کتاب میں نظر آتے ہیں۔وہ اس سے قبل بھی کئی معرکۃ الآرا کتابیں تحریر کرچکے ہیں، جن کے موضوعات میں پاکستان کا سیاسی منظرنامہ، خطے کی تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال اورپاک بھارت تعلقات شامل ہیں۔ان کتابوں کے مطالعے سے ان کی سیاسی وسماجی صورتحال پر گہری نظر اور وسیع مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔

زیر تذکرہ کتاب ایک طرح سے برصغیر میں ذرایع ابلاغ کی ایک مختصر تاریخ ہے،جس میں پاکستانی صحافت کے ارتقائی عمل کا مکمل طور پر احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔کتاب میں کل 12ابواب ہیں،جن میں برٹش انڈیا میں صحافت کی مختصر تاریخ،نئے ملک میں صحافت کے مواقعے اور حکومتی ردعمل،سقوط ڈھاکا کے بعد جمہوریت کی جانب نیا سفر،پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین دن، جمہوری دہائی کے دوران صحافت کا نیا سفر،ذرایع ابلاغ اور سیاسی جماعتیں،الیکٹرونک میڈیا،پاکستان میں ذرایع ابلاغ کے قوانین،ذرایع ابلاغ کے رجحانات ایک نئی بحث،پاکستان صحافیوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک،معاشرے میں بنیادی پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان اور متوازی ذرایع ابلاغ کا ظہور اور ویج بورڈ کے لیے جدوجہد جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔

اس کتاب کے ہر باب میں ہر موضوع پرگفتگوگوکہ مختصرہے مگر بحث سیر حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں صحافت کی تاریخ کے مختلف ادوار اور اسے  درپیش مشکلات کو سمجھنامزید آسان ہوگیاہے۔یہ تمام موضوعات صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی دلچسپی کا باعث ہیں۔خاص طورپر وہ عالمی اور مقامی حلقے جو پاکستان میں آزادیِ اظہار اور صحافتی شعبے کو درپیش مشکلات کے بارے میں آگہی حاصل کرنا چاہتے ہیں،اس کتاب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کتاب میں گراں قدرعلمی حوالہ جات کے ساتھ فاضل مصنف نے اپنے مشاہدات کو بھی شامل کیا ہے۔گویا انھوں نے صرف اپنے مطالعے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ جو کچھ کھلی آنکھوں دیکھا اور محسوس کیا،اسے بحیثیت سیاسیات کے ایک طالب علم اور صحافتی شعبے کے ناقد سینہ قرطاس پر منتقل کردیا۔

ڈاکٹر صاحب موصوف زمانہ طالب علمی میں ترقی پسندطلبہ تنظیم NSFسے وابستہ رہے، جس نے ان کی فکری تربیت میں نمایاں کردار اداکیا۔ اس کے بعد وہ بائیں بازو کی سیاست سے کسی نہ کسی شکل میں منسلک بھی رہے،یوں ان کی سیاسی سوچ میں پختگی آتی چلی گئی۔ عمرانیات میں Ph.Dنے ان کے ذہن کی وسعتوں میں مزید اضافہ کیا۔حمزہ علوی مرحوم اور ڈاکٹر مبارک علی جیسے سماجی مدبرین اور تجزیاتی تاریخ دانوں سے قربت نے ان کی فکری صلاحیتوں کو مزید مہمیز لگائی۔یہی سبب ہے کہ ان تحریروں میں فکری پختگی اور معروضیت پائی جاتی ہے۔وہ کبھی صحافت سے وابستہ نہیں رہے،لیکن ایک سیاسی دانشور کے طور پر ان کا صحافت اور صحافیوں کے قبیلے سے گہرا تعلق رہا ہے۔ پھر ان کے مطالعے اور مشاہدے نے انھیں شعبہ صحافت کے معاملات کوسمجھنے کا فہم وادراک بخشا،جس کے نتیجے میں یہ کتاب منظر عام پر آئی۔

صحافت کے بارے میں گفتگوکرتے ہوئے ہمیںیہ بات ذہن میں رکھناہوگی کہ سیاست اور صحافت کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہاہے۔تاریخ کامطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا کے کئی معروف سیاست دانوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور صحافی کیا۔اسی طرح کئی سیاستدانوں نے جب میدانِ صحافت میںقدم رکھاتو انھوں نے اس شعبے میں بھی خوب نام کمایا۔جب کہ برصغیرکی آزادی کی جدوجہد میں سیاست میں صحافت کا بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ اہم ترین سیاسی مدبرین اورسرگرم کارکنوں کی اکثریت کسی نہ کسی طور صحافت سے وابستہ رہی ۔بلکہ بعض شخصیات کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ وہ صحافی زیادہ اچھے تھے یا سیاستدان۔ اگرکانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ان رہنمائوں کی فہرست تیار کی جائے جو سیاست کے ساتھ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ تھے، تو یہ ایک طویل فہرست ہوگی۔جس میں کئی نابغہ روزگار سیاسی مدبرین کا نام بھی شامل ہوگا،جیسے مولاناابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور مولاناحسرت موہانی سمیت دیگر ان گنت قابل احترام شخصیات وغیرہ۔

دراصل ایک سیاسی کارکن اس لیے اچھا رپورٹر یا تجزیہ نگار ثابت ہوتا ہے،کیونکہ وہ سیاست کی نزاکتوں سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔اس کے تجزیے یا رپورٹ میں معروضیت کے عنصر کی موجودگی کا سبب سیاسی عمل کا باریک بینی کے ساتھ مشاہدہ ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں صحافت کے رویوں میں فرق کا بھی ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ بھارت کے صحافیوں نے صرف آزادی سے قبل آزادیِ اظہار کے لیے جدوجہد کی تھی، جب کہ پاکستان کے صحافیوں کو قیام پاکستان کے بعد بھی طویل عرصہ تک یہ جنگ لڑنا پڑی۔ خاص طورپر جنرل ضیاء الحق کے سیاہ دور میں صحافیوں کو قید وبند کے علاوہ کوڑوں کی سزائیں تک بھگتنا پڑی تھیں۔یہی سبب ہے پاکستانی صحافت میں بھارت کے مقابلے میں عصبیت کا عنصر خاصی حد تک کم اور معروضیت زیادہ ہوتی ہے۔جب کہ بھارت میں خارجہ اموربالخصوص پاکستان اور چین کے حوالے سے صحافی اپناآزادانہ نقطہ نظرپیش کرنے کے بجائے اپنی وزارت خارجہ کے نقطہ نظر کو مشتہر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں سوائے چند صحافیوں کو چھوڑ کر اکثریت اپنے ضمیر کی آواز پرآزادانہ رپورٹنگ اور تجزیہ نگاری کررہی ہے۔ یہی وہ فرق ہے، جو پاکستانی صحافت کو بھارتی صحافت سے ممتاز کرتاہے۔

اب جہاں تک صحافت کو درپیش خطرات کا تعلق ہے، تو پاکستان دنیا کے ان چند خطرناک ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، جہاں صحافت کو ریاست سے زیادہ غیر ریاستی عناصر سے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی ومذہبی جماعتیں اور مختلف سماجی گروہ بھی صحافت اور صحافیوں کے لیے معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں صحافیوں کے قتل کیے جانے کی شرح خطرناک حد تک بہت زیادہ ہوچکی ہے۔ پاکستان میں فکری کثرتیت چونکہ شجرممنوعہ بنادی گئی ہے،اس لیے آزادیِ اظہارپر مختلف حلقوں کے مفادات کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔جوآزادانہ رپورٹنگ اورمعروضیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔یہی سبب ہے کہ پاکستانی صحافی کئی دہائیوں سے سیاسی ومذہبی جماعتوں کی سرگرمیوں اور ان کے اجتماعات کے بارے میں اپنی رپورٹس پیش کرنے کے بجائے ان جماعتوں کی جاری کردہ پریس ریلز شایع کرکے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیونکہ یہ بھی خدشہ ہوتاہے کہ رپورٹ پسند نہ آنے کی صورت میں وہ جماعت یاگروہ اس رپورٹر اور اس کے اخبارات کے خلاف پرتشدد کارروائی کرسکتا ہے۔ دوسری طرف تجزیہ نگار بھی مسلسل دبائومیں رہتے ہیں۔وہ ان موضوعات اور ان تنظیموں پر قلم اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں، جنھیں بعض حلقوں نے اپنے مخصوص مفادات میں خواہ مخواہ حساس بنادیا ہے۔ پاکستان میں صحافت کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہاں تفتیشی رپورٹنگ نہ ہونے کے برابرہے۔اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔اول، اخباری مالکان تفتیشی رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے،کیونکہ اس عمل میں بڑے پیمانے پر رقم خرچ ہونے کے علاوہ مختلف حفاظتی اقدامات بھی کرنا پڑتے ہیں۔دوئم،جب کوئی صحافی پیشہ ورانہ جنون میں اپنے وسائل کو بروئے کارلاتے ہوئے تفتیشی رپورٹنگ کرنابھی چاہے،تو غیر ریاستی عناصر اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزادانہ تفتیشی رپورٹنگ کی صورت میں ان عناصر کی سرگرمیوں کے بارے میں اصل حقائق عوام تک پہنچنے کاامکان ہوتا ہے،جو ان کی عوامی قبولیت کو گہنانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

بہر حال ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کی کتاب پاکستان میں صحافت کی مختصر تاریخ کے علاوہ مختلف ادوار میں ہونے والے واقعات کا بھی احاطہ کرتی ہے۔یہ کتاب صرف شعبہ ابلاغ عامہ کے طلبہ وطالبات کے علاوہ ان تمام قارئین کے لیے انتہائی سود مند ہے، جو پاکستان میں صحافت کے ارتقاء کے بارے میں آگہی چاہتے ہیں۔ ہم فاضل مصنف سے درخواست کریں گے کہ وہ اس کتاب کا اردو ترجمہ کرائیں تاکہ ایک وسیع حلقے تک یہ کتاب پہنچ سکے دوسرے اس کی قیمت 2,000روپے ہے، جو خاصی زیادہ ہے۔اگر اس کتاب کے سستے ایڈیشن شایع کیے جائیں تو معاشرے کا ہر طبقہ ان سے مستفیض ہوسکتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔