دو نمبر قہقہے

طارق محمود میاں  بدھ 18 ستمبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

خیال تو میرا بھی یہی تھا لیکن میں نے سوچا کہ چلو کسی عقلمند آدمی سے بھی پوچھ لیتا ہوں۔ وہ ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ ملک میں پیسے کی اتنی ریل پیل کیوں ہے؟ غربت اتنی ہے کہ قصے سننے لگیں تو نوالہ حلق سے نیچے نہ اترے۔ صحرا میں کھڑے ہیں، شتر مرغ ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ گردن ریت سے باہر نکالیں تو چاروں طرف درد کی داستانیں بلکتی دکھائی دیں۔ دوبارہ ریت میں نہ گھسیں تو دل پھٹ جائے۔ مر جائیں۔ پھر بھی اس قدر پیسہ کہاں سے ہے اور کیوں ہے؟

عقل مند نے جواب دیا ’’تم قنوطی ہو۔ تمہیں معیشت کے دکھ درد اور سسکیاں تو معلوم ہیں لیکن اس کے قہقہے سنائی نہیں دیتے۔ یہ قہقہے اس معیشت سے برآمد ہوتے ہیں جو کاغذ پر دکھائی نہیں دیتی۔ ہماری اصلی ریڑھ کی ہڈی یہی ہے۔ سب اسے دو نمبر اکانومی کہتے ہیں لیکن تم نے دیکھا ہو گا کہ بدترین حالات میں بھی ہم سانس آرام سے لے رہے ہوتے ہیں۔ ہم قرض در قرض میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ٹیکس دینے کو کوئی تیار نہیں۔ حکومت کی لٹیا جب دیکھو ڈوبی ہوتی ہے لیکن 2008ء میں جب دبئی کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپ کے بھی پسینے چھوٹ رہے تھے ہم تخت پر سجے ہوئے مخملیں گاؤ تکیوں سے ٹیک لگا کے تِکے کباب کھا رہے تھے۔‘‘

وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ بین الاقوامی جائزے بھی کچھ ایسی ہی اطلاع دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم لوگ برے حالات میں بھی خوش رہنا جانتے ہیں۔ اعداد و شمار کے جھوٹ نے ہماری ’ٹور‘ بنائی ہوئی ہے جن لوگوں کے دانت باہر نکلے ہوئے ہیں اور چمک رہے ہیں ان کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں لیکن جیبیں بھری ہوئی ہیں۔ میں جب کبھی لاہور جاتا ہوں تو پرانے یار بیلی باری باری کھانا کھلانے لے جاتے ہیں۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ سیدھے کسی ریسٹورینٹ میں داخل ہوئے ہوں اور جا کے میز کے گرد بیٹھ گئے ہوں۔ باہر کھڑے ہو کے انتظار ہی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایک گھنٹے سے بھی زیادہ۔ اندر کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے اور باہر ہمارے جیسے درجنوں لوگ منتظر۔ اب کراچی میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ خصوصاً ساحل سمندر پر بنے ہوئے نعمت کدے۔ وہاں باری کے منتظر خاندانوں کی مسرتوں کو دیکھ کے کون کہہ سکتا ہے کہ اسی شہر کے کچھ دوسرے حصوں میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔

یہی صورتحال شاپنگ کی ہے۔ یہاں ان دیکھی مسرت نے اور مال و دولت نے ایک نیا جنم لیا ہے۔ اب وہ بازاروں میں اور گرمی میں پھرتے پھرتے ایئرکنڈیشنڈ مالز میں چڑھ گئی ہے۔ پہلے شہر میں بس دو تین شاپنگ مالز تھے لیکن اب ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چھوٹے موٹے مالز تو اور بھی ہیں لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کراچی میں ان کی بھرپور کامیابی کا آغاز کلفٹن والے ’’دی فورم‘‘ سے ہوا تھا۔ یہ مشہور آرکیٹکٹ حبیب فدا علی کا تصور تھا۔ اس کے بعد کلفٹن میں ہی ’’پارک ٹاور‘‘ قائم ہو گیا اور اس کی دھوم مچ گئی کیونکہ تمام تفریحی ٹی وی چینلز کا رخ اس کی طرف ہو گیا اور ہر ڈراما وہاں فلمایا جانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی طارق روڈ پر ’’ڈالمین‘‘ اور گلشن اقبال میں ’’صائمہ‘‘ اور ’’ملینیم‘‘ اور دیگر مالز بھی کھل گئے۔ ان میں تمام مشہور برانڈز کی دکانیں بھی ہوتی ہیں اور ریستوران بھی۔ یہ سینٹرلی ایئرکنڈیشنڈ ہوتے ہیں۔ لوگ آتے ہیں تو گھنٹوں یہاں گزار کے جاتے ہیں۔

اب ان میں ایک اور چیز کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ سینما ہالز کا۔ صدر میں ’’ایٹریم‘‘ بنا تو اس میں چھوٹے سینما گھر بھی بنائے گئے جو بہت کامیاب ہوئے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ تب سے فلم بینی کے ایک نئے دور کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ اب شہر میں بہت سے نئے شاپنگ مالز تیزی سے بن رہے ہیں۔ دو کا کچھ ہی عرصہ قبل آغاز ہو گیا ہے۔ ساحل سمندر پر ’’ڈالمین‘‘ اور کلفٹن میں دو تلوار کے پاس ’’اوشین مال‘‘۔ کلفٹن میں اور مالز بھی بنا رہے ہیں۔ شاید سال ڈیڑھ سال میں ان کا آغاز بھی ہو جائے۔ ان میں سے ایک تو آپ نے دیکھا ہی ہو گا۔ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے پاس جو ایک دیوہیکل عمارت سر اٹھا رہی ہے اس کا نام “BT ICON” ہے۔ یہ بحریہ ٹاؤن گروپ کا پروجیکٹ ہے۔ تھوڑی ہی دور اے کے ڈی گروپ کا ایک مال بھی زیر تعمیر ہے۔ اس کے بعد تو شاید یہی ہو گا کہ کلفٹن کی بیشتر آبادی وہاں کے مالز میں ہی کھپ جائے گی۔

ہاں! ادھر ایک اور علاقے میں ان سے بھی ایک بڑی چیز زیر تعمیر ہے۔ اس کا نام ’’لکی ون‘‘ ہے۔ یہ سہراب گوٹھ سے ذرا ادھر راشد منہاس روڈ پر ہے۔ سنا ہے کہ اس میں شاپنگ کے ساتھ ساتھ کئی طرح کی تفریحات مہیا کی جائیں گی۔ سات آٹھ سینما ہالز بھی ہوں گے اور کئی فلورز پارکنگ کے لیے مختص کیے جائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔

اب آپ کو اندازہ ہو رہا ہو گا کہ ہم کتنی خوش باش اور کتنی ’’خوش حال‘‘ قوم ہیں۔ میری بات میں ایک لطیف سا طنز بھی شامل ہے لیکن دو نمبر اکانومی کی طاقت تو ایک حقیقت ہے۔ اسی لیے ہماری معیشت کی ایک خوبی یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ بہت ’’لچکدار‘‘ ہے۔ بحرانی کیفیتوں میں بڑے بڑے ممالک کی معیشت چٹخ جاتی ہے لیکن ہماری ’’لچک‘‘ ہمیں بچائے رکھتی ہے۔ یوں ہماری جی ڈی پی کی شرح جو کہ 3.59 بتائی جاتی ہے، اس کی حقیقت کون جانے کہ کیا ہے۔ بڑے بڑے مال جس طرح سر اٹھا رہے ہیں وہ تو یہی خبر دیتے ہیں کہ ہم مالا مال ہیں۔ مرے گلستان کو دیکھ کے میری بہار کا انداز کر لیں۔

’’قیاس کن ز گلستان من بہار مرا‘‘

یہ ایک عیش کرتی ہوئی، دھن لٹاتی ہوئی، جی کھول کے قہقہے لگاتی ہوئی اور مہنگے مہنگے یخ ریستورانوں کے باہر قطار بنا کے کھڑے ہوئے لوگوں کی دنیا ہے۔ ایک طلسماتی دنیا۔ اس دو نمبر دنیا سے باہر قدم رکھیں تو یوں لگے گا کہ جیسے خواب ٹوٹ گیا ہے۔ خواب سے باہر کی دنیا ایک برباد دنیا ہے۔ اس پر کڑھنے اور اداس ہونے کی ضرورت نہیں۔ سنسناتی ہوئی گولیوں میں لوگوں کو روز کے کام کرتے ہوئے دیکھیں۔ یہ اداسی کا بہت آسان علاج ہے۔ کچھ مال خرچ نہیں ہوتا۔ تو پھر آئیے جو میں کروں وہ آپ بھی کرتے جائیں۔ میری طرح آپ بھی گردن جھکائیں اور ریت میں سر دے دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔