کاٹیں گے بھی ہم ہی

جاوید چوہدری  بدھ 18 ستمبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

بیگم نجمہ حمید پرانی مسلم لیگی ہیں‘ یہ پنجاب کی سیٹ پر 2009ء میں سینیٹ میں پہنچیں‘ ان کے ایک عزیز اسلام آباد میں کاروبار کرتے ہیں‘ عزیز کو چند ماہ قبل بھتے کی کال موصول ہوئی‘ فون کال افغانستان سے آئی تھی‘ پولیس سے رابطہ کیا گیا مگر پولیس انھیں تحفظ فراہم نہ کر سکی چنانچہ وہ بے چارے دبئی چلے گئے‘ دبئی میں ان کی جان تو بچ گئی مگر ان کا کاروبار‘ ان کے عزیز رشتے دار‘ دوست اور زندگی کی کھٹی میٹھی یادیں پاکستان میں رہ گئیں اور یہ اثاثے کتنے بڑے ہوتے ہیں یہ صرف وہی جان سکتا ہے جس نے جلاوطنی کا عذاب سہا ہو‘ ان صاحب کی جان تو بچ گئی مگر وہ ملک اور اپنے آبائی معاشرے سے دوری کی نفسیاتی تکلیف میں مبتلا ہو گئے‘ یہ دکھ موت کے خوف سے زیادہ تکلیف دہ تھا چنانچہ یہ بھتے کے تین کروڑ روپے ادا کرنے کے لیے رضامند ہوگئے مگر ان کا خیال تھا یہ کیونکہ ایک بار بھتہ دینے سے انکار کر چکے ہیں لہٰذا یہ لوگ بھتہ وصول کرنے کے باوجود ان سے رعایت نہیں کریں گے‘ یہ قتل کر دیے جائیں گے یا پھر انھیں بھتے کے ساتھ ساتھ بغاوت کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی۔

عزیز نے بیگم نجمہ حمید سے رابطہ کیا اور ان سے عرض کیا ‘میں رقم دینے کے لیے تیار ہوں آپ مجھے زندگی کی ضمانت لے دیں‘ بیگم نجمہ حمید یہ معاملہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں لے گئیں‘ سینیٹر طلحہ محمود اس کمیٹی کے سربراہ ہیں جب کہ وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید اور سینیٹر شاہی سید سمیت 13 سینیٹرز اس کے رکن ہیں‘ منگل 17 ستمبر کو کمیٹی کا اجلاس ہوا‘ کمیٹی نے آئی جی اسلام آباد سکندر حیات کو بھی طلب کر رکھا تھا‘ اجلاس کے دوران نجمہ حمید نے آئی جی سے مطالبہ کیا ’’میرے عزیز بھتے کے تین کروڑ دینے کے لیے تیار ہیں‘ کیا پولیس اس ادائیگی کے بعد انھیں تحفظ دے گی‘‘ یہ ایک عجیب مطالبہ تھا‘ آئی جی نے جواب دیا ’’ یہ کالز کیونکہ افغانستان سے آتی ہیں لہٰذا ہم کچھ نہیں کر سکتے‘‘ یہ جواب سن کر نجمہ حمید روتی ہوئی اجلاس سے واک آئوٹ کر گئیں جب کہ شاہی سید نے وہاں ایک تاریخی فقرہ بولا‘ انھوں نے کہا ’’کیا ہم بھتے کو قانونی شکل دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں‘‘۔

ہم اگر چند لمحوں کے لیے جذباتیت کو ایک طرف رکھ دیں تو ہمیں بیگم نجمہ حمید اور آئی جی سکندر حیات دونوں کی باتیں درست محسوس ہوں گی‘ ریاست کی رٹ کی حالت یہ ہے بھتہ خور وفاقی دارالحکومت میں تاجروں‘ صنعت کاروں اور سرکاری اہلکاروں کو براہ راست ٹیلی فون کرتے ہیں‘ یہ ان کے گھر خط اور رقعے دے جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے لوگ بھجوا دیتے ہیں‘ تاجر‘ صنعت کار اور سرکاری اہلکار تھانے میں شکایت کرتے ہیں مگر پولیس درخواست جمع کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتی‘ حالت یہ ہے اکوڑہ خٹک میں  ایک غیر ملکی کمپنی کو سال بھر سے ٹیلی فون کالز آ رہی ہیں‘ یہ کالز باقاعدہ ریکارڈ کی گئیں‘ کمپنی کے غیر ملکی سربراہ یہ کالز لے کر وزارت داخلہ کے پاس بھی گئے مگر کچھ نہ ہو سکا‘ فوج نے البتہ سنجیدگی دکھائی‘ بریگیڈیئر صاحب ان کے دفتر جاتے رہے مگر ایک خاص حد کے بعد یہ سرگرمی بھی آگے نہیں بڑھ سکی‘ فیکٹری پر دو بار میزائل بھی داغے گئے اور ان کے دو اہلکار اغواء بھی ہوئے اور یہ باقاعدہ تاوان ادا کر کے رہا ہوئے‘ کمپنی اب صرف سیکیورٹی پر سالانہ 28 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے ہم اکیاسی فیصد ٹیکس دیتے ہیں اور اس کے بعد 28 کروڑ روپے سیکیورٹی اور 30 کروڑ روپے سالانہ جنریٹرز پر خرچ کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ دھمکیاں اور میزائل حملے بھی برداشت کرتے ہیں‘ ہم اب پاکستان میں کام کیسے کریں گے۔آپ اسلام آباد کے پہلے ملٹی اسٹوری مال کی مثال بھی لیجیے‘ یہ مال سعودی عرب کے ایک دوسرے بڑے گروپ  نے بنوایا اور یہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا کمپلیکس تھا‘ کمپنی ملک کی معاشی صورتحال کی وجہ سے چھ سال میں صرف آدھا منصوبہ مکمل کر سکی‘ مال مکمل ہو گیا اور کھل بھی گیا مگر مال کے پاکستانی پارٹنر کو فون آگیا‘ یہ پریشان ہو گئے‘ بھتے کی رقم کے بارے میں متنازعہ خبریں مشہور ہیں‘ بعض لوگ یہ رقم ایک ارب بتاتے ہیں‘ بعض پچاس کروڑ اور بعض 12 کروڑ۔ یہ افواہ بھی گردش کر رہی ہے یہ صاحب دس کروڑ روپے ادا کر چکے ہیں۔

یہ خبریں یہ باتیںابھی تک غیر مصدقہ ہیں لیکن اس کے باوجود یہ صورتحال انتہائی الارمنگ ہے‘ اسلام آباد کی سبزی منڈی اور پیرودہائی میں بھتہ نیم قانونی شکل اختیار کر چکا ہے‘ ایک سید بادشاہ سبزی منڈی کی ہر ریڑھی سے تیس سے سو روپے روزانہ وصول کرتے ہیں‘ سبزی منڈی میں دو ہزار ریڑھیاں ہیں‘ آپ روزانہ کے بھتے کا اندازہ لگا لیجیے‘ پیرودہائی اڈے کی تمام ریڑھیوں‘ دکانوں اور بسوں سے بھی بھتہ لیا جاتا ہے اور یہ بھتہ باقاعدہ اوپر تک تقسیم ہوتا ہے اور کوئی اس بھتہ مافیا کا ہاتھ نہیں روک سکتا‘ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایکشن کے بعد ایس ایس پی اسلام آباد ڈاکٹر رضوان نے سبزی منڈی میں دیانت دار پولیس اہلکار تعینات کر دیے ہیں‘ نوجوان پولیس آفیسر اے ایس پی شاکر بڑی حد تک صورتحال کنٹرول کرچکے ہیں مگر جب تک بڑے مجرم گرفتار نہیں ہوںگے یہ معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔

راولپنڈی کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ ابتر ہے‘ 18 ماہ کے دوران بھتے کے 45 بڑے واقعات رپورٹ ہوئے‘ ان واقعات میں تاجروں نے 65 کروڑ روپے ادا کیے جب کہ اربوں روپے کے واقعات ابھی تک رپورٹ ہی نہیں ہوئے‘ چار تاجر بھتہ نہ دینے کے جرم میں جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔یہ وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کی صورتحال ہے‘ آپ اس صورتحال سے چھوٹے شہروں کے حالات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں‘ چھوٹے قصبوں اور شہروں میں بھی سیکڑوں گروپ بن چکے ہیں‘ یہ لوگ طالبان کے ظہور سے قبل جگا ٹیکس لیتے تھے لیکن طالبان کے آنے کے بعد ان لوگوں نے داڑھیاں رکھ لی ہیں اور یہ اب مختلف مذہبی تنظیموں کی آڑ میں لوگوں سے لاکھوں کروڑوں روپے وصول کر رہے ہیں اور ریاست ان کا ہاتھ نہیں روک پا رہی‘ ملک کے حالات جب یہ ہوں تو بیگم نجمہ حمید کو یقینا اپنے عزیز کی جان بخشی کے لیے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ  کے سامنے واویلا کرنا پڑے گا۔

آپ اب پولیس کے موقف کی طرف آئیے‘ قوم کو سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں آئی جی اسلام آباد کا بیان برا محسوس ہوا لیکن یہ بیان تلخ ہونے کے باوجود حقیقت پر مبنی ہے‘ ملک کی صورتحال انتہائی گنجلک اور پیچیدہ ہو چکی ہے‘ پولیس کی حالت یہ ہے اس کے پاس کال ٹریس کرنے کے آلات موجود نہیں ہیں‘ یہ سہولت صرف آئی ایس آئی اور آئی بی کے پاس ہے اور پولیس اگر کالز کا ڈیٹا حاصل کرنا چاہے تو یہ ان اداروں کو تحریری خط لکھتی ہے‘ یہ ادارے تحریری درخواست پر دفتری کارروائی مکمل کرتے ہیں اور یوں پولیس کی پندرہ دن بعد ڈیٹا تک رسائی ہوتی ہے اور اس وقت تک مغوی اور اغواء کار بہت دور جا چکے ہوتے ہیں‘ پولیس میں بھتہ اغواء اور اغواء برائے تاوان سے نبٹنے کے لیے کوئی خصوصی یونٹ موجود نہیں‘ پولیس سارا دن ناکوں پر کھڑی رہتی ہے‘ یہ گاڑیوں کی تلاشی لیتی رہتی ہے‘ ان سے سیاہ کاغذ اتارتی ہے‘ خاندانی اور عائلی جھگڑے نبٹاتی ہے‘ چوروں اور ڈاکوئوں کا پیچھا کرتی ہے‘ وی آئی پی کو سیکیورٹی دیتی ہے‘ جلسے اور جلوس روکتی ہے۔

طاقتوروں کے تھپڑ کھاتی ہے اور آخر میں جب سونے کا وقت آتا ہے تو انھیں بھتہ کنٹرول کرنے اور تاجروں کو تحفظ دینے کی ذمے داری سونپ دی جاتی ہے اور یہ ذمے داری سونپنے کے بعد انھیں پیدل تاجر کے گھر روانہ کر دیا جاتا ہے‘ پولیس رائفل اٹھائے تو رائفل کا دستہ غائب ہوتا ہے‘گولی چلانے لگے تو گولی سے بارود نہیں نکلتا اور یہ مجرموں کا پیچھا کرنے لگے تو اس کی غیر سرکاری گاڑی کا پٹرول ختم ہو جاتا ہے اور آپ ساتھ ہی اس سے توقع کرتے ہیں یہ افغانستان سے آنے والی بھتے کی ٹیلی فون کالز بھی ٹریس کرے گی اور یہ دنیا کے جدید ترین اسلحہ سے لیس اور گاڑیوں پر خود کش بمبار بٹھا کر پھرنے والے لوگوں سے نبٹے گی؟ کیا یہ ممکن ہے؟

ہمیں تسلیم کرنا ہو گا ہماری اسٹیٹ کمزور ہو چکی ہے اور جو شخص یہ کمزوری بھانپ جاتا ہے وہ ہاتھ میں ڈنڈا اٹھاتا ہے اور پوری ریاست چپ چاپ اس کے آگے چل پڑتی ہے اور بیگم نجمہ حمید اس ملک میں اپنے عزیز کے لیے تحفظ مانگ رہی ہیں جس میں طالبان جی ایچ کیو‘ پی ایس مہران اور کامرہ ائیر بیس پر حملہ کر دیتے ہیں اور ریاست کے لیے عزت بچانا مشکل ہو جاتاہے‘ ریاست ایک خط اور ایک ٹیلی فون کال پر سزائے موت پر عملدرآمد روک دیتی ہے۔

وزیراعظم قوم سے خطاب میں طالبان کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں مگر طالبان اس دعوت پر کسی قسم کی گرمجوشی کا اظہار نہیں کرتے اور ملک کی بارہ بڑی سیاسی جماعتیں مل کر متحارب گروپوں سے مذاکرات کا فیصلہ کرتی ہیں مگر چھ دن بعد نہ صرف سوات کے جی او سی میجر جنرل ثناء اللہ نیازی‘ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان ستار کو راستے میں مائینز بچھا کر اڑا دیا جاتا ہے بلکہ تحریک طالبان پاکستان اس کی ذمے داری بھی قبول کر لیتی ہے اور اس کے بعد طالبان یہ بیان جاری کرتے ہیں’’ مذاکرات ابھی شروع نہیں ہوئے‘ ہم فوج پر حملے جاری رکھیں گے‘‘ ملک کے حالات یہ ہوں اور ہم توقع کریں پولیس کے بے بس جوان کسی تاجر کو تحفظ دیں گے‘کیا یہ مطالبہ بے وقوفوں کے اجتماع میں فاش قہقہہ محسوس نہیں ہوتا‘ ہم سڑے ہوئے گندے خربوزوں کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں اور ہم بدبو کا شکوہ بھی کر رہے ہیں‘ ہم کس قدر بے وقوف ہیں اور کیا ہم جیسے بے وقوفوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہونا چاہیے؟ پانی ہمیشہ پہاڑ کی چوٹی سے نیچے آتا ہے‘ ہم جانتے تھے لیکن ہم نے اس کے باوجود اپنی عمر بھر کی چنی ہوئی کپاس پہاڑ کے دامن میں رکھ دی‘ پانی اب نیچے آ رہا ہے مگر ہم اسے قبول نہیں کر رہے؟ ہم اپنی بے وقوفیوں کی فصل کاٹنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں‘ اگر فصل ہم نے بوئی تھی تو کاٹیں گے بھی ہم ہی‘ اس کے نتائج بھی ہم ہی بھگتیں گے مگر شاید ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔