خاموش، خاموش

شبیر احمد ارمان  بدھ 18 ستمبر 2013
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

خاموش۔۔۔۔ خاموش۔۔۔۔! مہربان، قدردان، بھائی جان، روشن دان، بوستان، گلستان، اچھا بھلا خاندان۔ میں یہ سمجھتا ہوں اور آپ لوگ بھی اتنے بڑے پاگل کے پتر نہیں کہ یہ نہیں جانتے ہوں کہ یہ عوامی دور ہے، عوامی حکومت ہے۔ یہاں جو چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے، شور مچا سکتا ہے، چلّا سکتا ہے، چیخ سکتا ہے، رولا پا سکتا ہے۔ لہٰذا بھائیو! مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میں آپ لوگوں کو خاموش کرواؤں۔

اسمگلرو، چورو، ڈاکوؤ و رشوت خورو ذرا میری بات غور سے سنو۔ آپ لوگ جانتے ہیں اس دنیا میں کمزور قوموں کو زندہ رہنے کا حق نہ مشرق دیتا ہے، نہ مغرب نہ جنوب نہ شمال، ہر قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے، محنت کرنا پڑتی ہے، اسٹرگل کرنا پڑتی ہے، رونا پڑتا ہے۔ جیسا کہ طاقتور قوموں نے امن کے نام پر، صلح صفائی کے نام پر، اپنے ڈیفنس اور دوسروں کا بیڑہ غرق کرنے کے نام پر ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، چھولے کے تیزاب، آلو کے تیزاب جیسے غم ان ہی ملکوں کے سنگدل سائنس دانوں کو للکارنے کے لیے یہ گناہ گار بندہ میدان میں نکلا ہے۔

ہاں تو بھائیو! اس بندۂ گناہ گار نے آپ کی اندھیری راتوں میں جگنو بلانے کے لیے، روشنی کرنے کے لیے، اجالا کرنے کے لیے، دھماکا کرنے کے لیے اپنی چھنگڑھ محلے کے لیبارٹری میں جہاں واپڈا کی مہربانی سے ہر دو گھنٹے کے بعد اندھیرا بیٹھتا ہے وہاں میں نے اپنا دل جلا کر، تن من جلا کر، موم بتیاں جلا کر، لالٹینیں جلا کر، گیس جلا کر آپ لوگوں کے لیے روشنی ’’اس روشنی کا نام‘‘ بھائیو! اس روشنی کا نام۔ حضرات جن کے دل کمزور ہیں وہ دلوں پر ہاتھ رکھ کر چلے جائیں، صرف مایوس حضرات یہیں کھڑے ہو جائیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا اس روشنی کا نام۔۔۔۔ ہائیڈروجن پلز۔۔۔۔ (ٹنگو کو آگے کرتے ہوئے) جس کے بنیان پر مذکورہ عبارت تحریر تھی۔ لہٰذا یہ 30 گولیوں سے بھرپور شاہکار دھماکے دار ڈبیا کی قیمت ہے صرف 6 روپے، صرف 6 روپے۔ (درمیان میں ایک لڑکا آتا ہے اور روپے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے) ایک ڈبیا مجھے دے دو ڈاکٹر۔ (روپیہ واپس کرتے ہوئے جواب ملتا ہے کہ) یہ لو بیٹے! ان پیسوں کا جا کر دودھ پی لو۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہماری آیندہ نسل نہ کمزور ہو گی نہ مایوس، چل وے دودھ پی لے۔

یہ پاکستانی فلم چکرباز کے ڈائیلاگ ہیں جو مرحوم منور ظریف نے ادا کیے ہیں، اپنے مخصوص انداز میں۔ یہ فلم 1970ء کی دہائی میں ریلیز ہوئی تھی۔ جسے میں بچپن میں پی ٹی وی پر دیکھ چکا تھا اور گزشتہ دنوں کمپیوٹر پر بذریعہ سی ڈی دیکھ رہا تھا کہ مذکورہ بالا منظر کے ڈائیلاگ سن کر حیران رہ گیا کہ 1970ء میں کہی گئی باتیں آج بھی حرف بہ حرف تازہ ہیں جو ہماری معاشرتی، قومی اور عالمی مسائل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ مثلاً آج بھی ہمارے درمیان اسمگلرز، ڈاکو اور رشوت خور پائے جاتے ہیں بلکہ اب تو معاشرے میں معتبر مقام پاتے ہیں یعنی ان پر قابو پایا نہیں جا سکا ہے۔ آج بھی عوامی دور حکومت ہے، آج بھی لوگ چلا رہے ہیں، چیخ رہے ہیں، شور مچا رہے ہیں اور رولا پا رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس زمانے میں عوام کی چیخ و پکار سے حکومتیں تبدیل ہو جایا کرتی تھیں اب جب کہ عوام کی شنوائی کہیں نہیں ہوتی لے دے کے سپریم کورٹ ہے اس کا حکم نامہ بھی حکمرانوں کے لیے معمول بن گیا ہے۔ آج بھی کمزور قومیں زندہ رہنے کے لیے اسٹرگل کر رہی ہیں۔

آج بھی مشرق، مغرب، جنوب اور شمال کمزور اقوام پر غالب ہیں۔ آج بھی طاقت ور قومیں امن کے نام پر، صلح صفائی کے نام پر اپنے دفاع و تحفظ کے نام پر کمزور قوموں کا بیڑا غرق کر رہی ہیں۔ تازہ ترین صورت حال شام کی ہے، مصر کی ہے، عراق کی ہے، افغانستان کی ہے، کشمیریوں کی ہے جہاں انسانیت سسک رہی ہے۔ ان ملکوں کے سنگدل سائنس دانوں کو ہمارے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے للکارا تو ان کے من پسند حکمرانوں نے اسے لائن حاضر کر کے متنازع بنانے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ آج بھی ملک میں بجلی کا بحران ہے، آج بھی ہر ایک دو گھنٹے بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے، آج بھی میری طرح دوسرے لکھاری اپنا دل جلا کر، تن من جلا کر، موم بتیاں جلا کر، لالٹینیں جلا کر، گیس جلا کر اپنے خون جگر سے ملک و قوم کے لیے روشنی پھیلانے کے لیے لکھتے جا رہے ہیں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی یہی عالم ہے۔

آج بھی کمزور دل والے غربت سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اور مایوس لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کڑوی گولی نگل جانے سے شاید قسمت بدل جائے۔ آج بھی ڈبیا کی گولی سے آبادی میں اضافہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلے ان چیزوں کو نو عمر لڑکوں سے دور کیا جاتا تھا جب کہ آج کل ایسی بے ہودہ چیزیں سر راہ فروخت کی جا رہی ہیں اور ان کا خریدار نوجوان طبقہ ہی ہے۔ کوئی بھی انھیں ان چیزوں سے دور رہنے کی تلقین نہیں کرتا۔ کوئی انھیں دودھ پینے کا مشورہ نہیں دیتا بلکہ ان کے لیے ہر طرح کا نشہ سستا کر دیا گیا ہے۔ آج بھی ہماری نوجوان نسل کمزور اور مایوس ہے، انھیں بے روزگاری کی راہ پر دھکیل کر اندھیر کھائی کی نذر کر دیا گیا ہے، ان میں اتنی بھی قوت نہیں رہی کہ وہ استحصال کرنے والوں کا گریبان چاک کر سکیں۔

اسی فلم چکر باز میں ایک گانا منور ظریف پر فلمایا گیا تھا، مرحوم مسعود رانا کی آواز میں اس کا ایک بول تھا جو آج بھی سچ ثابت ہو رہا ہے۔ گانے کے بول تھے ’’میں نے پوچھا اک لڑکی سے کہاں گیا تیرا پردہ‘ ہنس کے بولی لڑکی مردوں کے عقل پر پڑگیا پردہ‘‘ اب ایسی معاشرتی سبق آموز معیاری فلمیں کہاں۔ اب تو ہر فلم میں ہیروئن کو بطور ’شو پیس ‘ پیش کیا جا رہا ہے اور گانے بیہودگی اور ذومعنویت کا مربہ۔ پھر بھی ہمیں گلہ ہے کہ بھارتی فلموں نے پاک فلم انڈسٹری کو تباہ کر دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے فلم میڈیم کو برباد اور معاشرے کو وہ راستہ دکھا دیا ہے جو دشمن کے کرنے کا کام تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔