جس کے ہجے غلط ہوں…

جبار جعفر  جمعرات 19 ستمبر 2013

خط مستقیم کی تعریف یہ ہے کہ دو نقطوں کو ملانے والا وہ خط جو سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی خط ہوں گے وہ ٹیڑھے اور طویل ہوں گے۔ دوسرے معنوں میں ہر مسئلے کا صرف ایک ہی صحیح حل ہو گا جو سادا، سیدھا اور صحیح ہو گا۔

مجید لاہوری فرماتے تھے سندھ کی سیاست، معشوق کا مزاج، کراچی کا موسم انتہائی ناقابل قیاس، گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ ہوتا ہے۔

A: نواز شریف وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی چین سے کئی جناتی منصوبوں (میگا پروجیکٹ) کے معاہدے کر آئے۔ جواباً چین نے صرف ایک شرط رکھی کہ چینی باشندوں کی جان کی حفاظت کی ذمے داری حکومت پاکستان کی ذمے داری ہو گی۔ جس کو حکومت پاکستان نے قبول کیا ’’قبول کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔B: امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ کے مطابق کراچی دنیا کا خطرناک ترین میگا سٹی بن چکا ہے۔ جہاں دنیا کے دوسرے بدترین شہروں کی بہ نسبت 25 فیصد زیادہ قتل ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی ڈرگ اور اسلحے کی اسمگلنگ اور فروخت کی جنت بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی عسکری ونگ، بھتہ، قبضہ مافیا اور طالبان بھی قبضہ جما چکے ہیں۔ C:سندھ میں دیہی شہری تقسیم گہری ہو گئی ہے اور کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے مسئلے پر پی پی پی /قوم پرستوں اور ایم کیو ایم میں دراڑ پڑ چکی ہے جس کو پاٹنے کی فی الحال کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ مستقبل کا حال خدا جانے۔

ایسے میں کراچی کے تاجر بھتہ خوروں کے ہاتھوں مرنے کے بجائے اپنے کاروبار پر لعنت بھیج کر سڑکوں پر آ گئے۔ آثار ایسے تھے کہ وہ ایم کیو ایم کی بھی نہیں سنیں گے۔ ایسے میں الطاف حسین نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ داغ دیا۔ حالات سے تنگ، حکومت کی بے حسی سے بے

زار کراچی کے عوام نے اس مطالبے کی حمایت کر دی۔ وفاقی حکومت نے بڑے غور و خوض کے بعد پہلے مرحلے میں تیسرا راستہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ نواز شریف نے یہ راستہ نکالا کہ اگر رینجرز کو مکمل فری ہینڈ دیا جائے، صوبائی پولیس اس کے ماتحت ہو، صوبائی اور وفاقی خفیہ ایجنسیاں اس ٹارگیٹڈ آپریشن کی معاونت کریں، صوبائی اور وفاقی حکومتیں ان کی پشت پناہ ہوں، ٹارگیٹڈ آپریشن کی قیادت صوبائی وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کریں تو رینجرز متوقع نتائج دے سکتی ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پہلے عسکری قیادت کو اعتماد میں لیا اس کے بعد تابڑ توڑ میٹنگوں، اجلاسوں، ملاقاتوں سے کام لے کر تمام کو کوآرڈینیٹ کیا۔ اس وقت کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ایک نکاتی ایجنڈے (کراچی میں امن) کی خاطر سب کے سب ایک ہی سمت میں جدوجہد کریں تو کامیابی قدم نہ چومے۔

ایک شخص جب گھر داخل ہوا تو دیکھا کہ اس کا بڑا بھائی الماری کو اوپر کی منزل پر لے جانے کی جدوجہد میں آدھی سیڑھیوں پر پھنسا کھڑا ہے، پسینے میں شرابور ہے الماری ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ وہ دوڑ کر اپنے بڑے بھائی کی مدد کو پہنچا دونوں آدھے گھنٹے تک زور لگاتے رہے لیکن بے سود۔ بڑے بھائی نے ہانپتے ہوئے کہا ’’پہلے میری مدد کو چوکیدار آیا۔ آدھے گھنٹے بعد تھک ہار کر چلا گیا۔ اس کے بعد فضلو بابا آئے، پانچ منٹ بعد ہانپتے کانپتے چلے گئے حالانکہ جب اوپر سے میں نے الماری کو ذرا سا سرکایا تو ایک سیکنڈ میں پھسلتی ہوئی آدھی سیڑھیوں تک آ گئی۔ اس کے بعد ایک سیڑھی بھی نیچے نہیں سرکی۔ چھوٹا بھائی اچھل پڑا اور بولا ’’کیا الماری نیچے لے جانی ہے؟ میں تو اوپر زور لگا رہا تھا۔‘‘

سوال یہ ہے کہ آخر کب روشنیوں کے شہر کے ہجے غلط کیے گئے جو آج اس کا تلفظ لاشوں کا شہر ہو گیا ہے؟ کسی بھی ملک کی معاشی خوشحالی اور بقا کا دارومدار اس کے معاشی استحکام پر ہے۔ معاشی پہیہ اس وقت تک رواں دواں رہتا ہے جب تک کہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور امن کا بول بالا ہوتا ہے اور امن قائم کرنے کی ذمے داری پولیس فورس کی ہوتی ہے پولیس کا ایک نہتا سپاہی بھی مجرموں کے لیے دہشت کی علامت ہوتا ہے کیونکہ وہ ’’وردی‘‘ میں پوری پولیس فورس کی ’’اکائی‘‘ ہوتا ہے۔

بین الاقوامی مافیاز بھی اپنے کارندوں کو پہلا سبق یہی دیتے ہیں کہ ’’پولیس سے دور رہو‘‘ کیونکہ پولیس سے ٹکر لینے کا مطلب پولیس فورس کو پیچھے لگانا ہوتا ہے۔ یہی ’’وردی‘‘ کی حرمت ہے جو صرف ’’کرپشن‘‘ سے داغ دار ہوتی ہے۔ اگر پولیس میں بھرتی لسانی، سیاسی اور فسادی بنیاد پر ہو، مقامی افراد اور میرٹ کو نظرانداز کر دیا جائے تو پھر قانون کی حکمرانی، امن و امان کی بحالی کے ہجے ہی غلط ہو جاتے ہیں۔ اور تلفظ ویسا ہی نکلتا ہے جیسا کہ آج کل نکل رہا ہے۔

گھگی بندھی ہوئی ہے دل نامراد کی

ٹی وی کے ایک پروگرام ’’ففٹی ففٹی‘‘ میں ’’میرٹ کلنگ‘‘ پر ایک طنزیہ خاکہ آیا تھا جو کچھ یوں ہے۔ ماجد جہانگیر اور اسمٰعیل تارا سرجن کے یونی فارم میں ٹوپی پہنے ماسک لگائے آپریشن روم سے باہر آتے ہیں۔ مریض کے لواحقین تیزی سے ان کی طرف بڑھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں ’’اپنڈکس کا آپریشن ہو گیا؟ کامیاب رہا؟‘‘ یہ سن کر اسمعیل تارا گھبرا جاتا ہے ، ماجد جہانگیر کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا کہتا ہے ’’جلدی سے بھاگ چلو ورنہ ہماری خیر نہیں ہے۔‘‘ ماجد جہانگیر پوچھتا ہے ’’کیا ہم نے اپنڈکس کا آپریشن نہیں کیا، بھاگیں کیوں؟‘‘ اسمٰعیل تارا سمجھاتا ہے ’’ احمق! ہم نے جو کیا وہ پوسٹ مارٹم کہلاتا ہے۔ جس کو میں مردہ سمجھا تھا وہ بے ہوش تھا۔‘‘

پولیس فورس لازماً علاقائی اس لیے ہونی چاہیے کہ جب پولیس کے سپاہی کے بال بچے، خاندان، عزیز رشتے دار، دوست احباب، برادری (آبا و اجداد کے وقتوں سے) اسی علاقے کے رہائشی ہوں گے تو جتنی امن و امان کی ضرورت عوام کو ہو گی اتنی ہی ضرورت پولیس کے سپاہی کو بھی ہو گی یوں عوام اور پولیس کا مفاد ایک ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک قدرتی لگام کرپشن کو بھی لگ جاتی ہے کیونکہ پولیس کا سپاہی رشوت لینے سے پہلے دس مرتبہ سوچے گا کہ کہیں برادری میں ناک نہ کٹ جائے۔ غریب کے پاس یہی تو ایک قیمتی چیز بچی ہے جس پر وہ ناز کرتا ہے۔ امیر کا کیا گیا ہے ایک فالتو ناک ہمیشہ جیب میں پڑی رہتی ہے۔ مقامی پولیس کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ وہ اپنے علاقے کے گلی کوچوں کا جغرافیہ اور عوام کی تاریخ سے واقف ہوتا ہے۔ جو غیر مقامی فورسز کو حاصل نہیں ہوتی۔ مثلاً پچھلے دنوں رینجرز نے مخبری کی بنیاد پر ایک بڑے مطلوبہ ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے لیاری کو گھیر لیا۔ اور گھر گھر تلاشی لینے لگے۔ جب کہ مطلوبہ ملزم بھی آس پاس کی گلیوں سے یہ نظارہ دیکھ کر محظوظ ہوتا رہا۔

کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریشن شروع ہو چکا۔ اب صبر سکون کے ساتھ اس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے دیں۔ پہلی مرتبہ امن و امان کے مسئلے پر دہشت گردوں کے خلاف ملک کی سیاسی، عسکری، مذہبی، معاشرتی، کاروباری ادارے اور شخصیات کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں سب کی سمت ایک ہے۔ دشمن واضح ہے۔ ایجنڈا واحد ہے، کراچی میں ہر قیمت پر امن۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔