دو کشتیوں کی سواری: بربادی کا سفر

ڈاکٹر میشال نذیر  پير 5 اگست 2019
دو کشتیوں پر سواری صرف بربادی ہی لاسکتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دو کشتیوں پر سواری صرف بربادی ہی لاسکتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کچھ عرصہ پہلے ہم چار لوگ ایک یونیورسٹی میں چھ مہینے کی ٹریننگ کےلیے گئے۔ میں جس لیب میں گئی وہاں پر علی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک اچھے انسان تھے، ان کا پی ایچ ڈی اختتامی مراحل میں تھا۔ ان سے بہت اچھی بات چیت ہوگئی۔ وہ اپنی فیملی کے بارے میں اکثر کئی باتیں شیئر کرنے لگے۔ ایک دن اچانک لیب میں آئے، اور کہا کہ وہ کل گاؤں جارہے ہیں، کچھ ضروری کام ہے۔ ان کی واپسی کوئی دو مہینے بعد ہوئی، بہت پریشان سے نظر آئے۔ پوچھنے پر کوئی خاص جواب نہیں دیا۔ میں نے مزید پوچھنا مناسب نہیں سمجھا، لیکن کچھ دن بعد خود ہی کہنے لگے کہ ایک بات کے حوالے سے آپ سے مشورہ کرنا ہے۔ کچھ خاموشی کے بعد کہا کہ پھر بتاؤں گا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئی بہت سیریس معاملہ ہے، تو میں نے ان کو خود سے بتانے کا وقت دیا۔

ایک ہفتے بعد وہ دوبارہ آئے، اور اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا۔ ان کی آنکھیں سرخ تھیں، لگ رہا تھا کافی راتوں سے سوئے نہیں ہیں۔ اسی غصے میں وہ اپنا موبائل بھی توڑ چکے تھے۔

کہانی یہ ہے کہ گاؤں میں وہ کسی لڑکی سے محبت کرتے تھے، لڑکی والے حیثیت میں زیادہ تھے اور کاسٹ بھی الگ تھی۔ ان کے بھائی نے کسی کے ذریعے سے لڑکی والوں سے رشتے کی بات کروائی۔ لڑکی والوں نے واضح منع کردیا کہ وہ صرف خاندان میں شادی کرتے ہیں۔ اب اس لڑکی کی شادی چچا کے بیٹے سے ہوگئی۔

وہ گاؤں میں اس لیے گئے تھے کہ شاید یہ شادی وہ روک پائیں یا کوئی اور حل نکل سکے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ان کی فیملی نے اب ان کو سختی سے منع کیا ہے کہ لڑکی کو بھول جائیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ لڑکی ان سے رابطے میں ہے کہ وہ ان ہی سے پیار کرتی ہے، کرتی رہے گی، اور یہ شادی زبردستی ہوئی ہے، وہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔

ان کا سوال مجھ سے یہ تھا کہ وہ اب کیا کریں؟ میں بھی سوچ میں پڑگئی۔ عجیب سی کہانی تھی۔ وہ مجھ سے بڑے بھی تھے اور مجھ سے مشورہ چاہ رہے تھے۔ حدیث میں ہے کہ جب کوئی آپ سے مشورہ مانگے تو اپنی سمجھ کے حساب سے بہترین جواب دیں۔

میں نے پوچھا کہ وہ لڑکی اپنے شوہر سے طلاق لینے کےلیے تیار ہے، یا آپ کے ساتھ بھاگنے کےلیے تیار ہے؟ ان کا جواب تھا کہ ’’نہیں، ایسا کرنے سے گاؤں میں دشمنی ہوجائے گی، اور یہ دشمنیاں قتل و غارت کی شکل میں نسل در نسل چلتی ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو لگتا ہے ایسے بات کرنا مناسب ہے؟ ان کا جواب پھر ’’نہیں‘‘ میں تھا۔ میں نے کہا کہ پھر آپ کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے، وہ اب شادی شدہ ہے، آپ اپنا نمبر بدل لیں۔

اب کی بار بھی ان کا جواب بڑا عجیب تھا ’’ہمارا وعدہ ہے ایک دوسرے سے کہ ہم کسی بھی حالت میں اپنا نمبر نہیں بدلیں گے، اس لیے میں نمبر بند نہیں کرسکتا‘‘۔

میرا اگلا سوال تھا کہ ایسا کب تک چلے گا؟ کہنے لگے نہیں پتہ، اس لیے تو آپ سے شیئر کیا۔

اس گفتگو کے دوران ان کی آنکھوں میں نمی تھی۔ میرے سامنے ایک پڑھا لکھا بندہ نم آنکھوں سے ایک لڑکی کےلیے بے بس دکھائی دیا۔ وہ لڑکی اپنے شوہر سے چھپ کر ان سے رابطے میں ہے، جو بالکل غلط ہے۔ میں نے یہی کہا کہ یہ غلط ہے، جتنی جلدی ہوسکے اس معاملے سے نکل جائیں، یہ دونوں کےلیے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ چلے گئے تو میں سوچنے لگی کہ یہ سب کب تک چل پائے گا؟ علی کی شادی کے بعد یا اس لڑکی کے بچے ہونے کے بعد یہ سب رک جائے گا؟ لیکن اگر ایسا نہیں ہوپایا تو اس کہانی کا انجام کیا ہوگا؟

محبت ایک ایسا جذبہ ہے، جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس میں ایک شخص کو اپنی زندگی ایک خاص شخص کے ساتھ منسلک نظر آتی ہے، اور پھر اس کے بغیر زندگی ادھوری لگتی ہے۔ شادی کےلیے معاشرتی اقدار کے اندر رہتے ہوئے کوشش کرنا محبت کا تقاضا ہے۔ کیونکہ اگر آپ سچے ہیں تو آپ کو اپنی محبت پانے کےلیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوسکا تو پھر یہ عقل کا تقاضا ہے کہ اب دنیاوی لحاظ سے رابطے ختم کردیے جائیں۔ موبائل، انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا کی وجہ سے جہاں زندگیوں میں آسانیاں ہوئیں، وہیں ایسے معاشرتی معاملات میں یہ زہر قاتل ثابت ہورہے ہیں۔

اگر رابطے میں ہی رہے تو یقین جانیے دو کشتیوں کی سواری تو صرف بربادی دے سکتی ہے۔ وہ لڑکی اپنی شادی والی کشتی سنبھالنے کے بجائے، اپنے گزرے پیار کی کشتی میں بھی سواری رکھنا چاہتی ہے، جو کہ ناممکن ہے۔ منزل ایک کشتی کی سواری سے ہی ممکن ہے۔ دو کشتیوں پر سواری صرف بربادی ہی لاسکتی ہے۔ پہلے دو زندگیاں داؤ پر تھیں، اب تو دو خاندان اس میں شامل ہیں، بہت زندگیاں داؤ پر آگئی ہیں۔

آج یہ چیزیں ہمارے معاشرے میں بہت خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہیں۔ شادی کے بعد اپنے پارٹنر (مرد ہو یا عورت) کے ساتھ بے وفائی کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا۔ اسلام میں زنا کرنے کی سزا بہت سخت ہے، مگر اس میں شادی شدہ مرد یا عورت کی سزا، کنوارے مرد یا عورت کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کی وجہ وہ وفاداری ہے جو نکاح کا سب سے اہم اصول ہے، جس سے روگردانی ایک بہت بڑا گناہ ہے۔

پاکستان میں بدقسمتی سے طلاق کا تناسب بڑھتا جارہا ہے، اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرضی کے بغیر شادی کر دی جاتی ہے۔ پسند کہیں اور ہوتی ہے۔ اور پھر شادی کے بعد بھی یہ سب جاری رہتا ہے، جو کہ صرف طوفان لاتا ہے۔ اس حوالے سے میں طلاق کے موضوع پر دو حصے لکھ چکی ہوں، جس میں خواتین اپنے ہی شوہر کے قتل میں شامل ہوگئیں، کیونکہ وہ کسی اور کے پیار میں تھیں۔ جب طلاق یا خلع کا راستہ نہیں ملا تو قتل تک جیسا قبیح گناہ کر ڈالا۔

ایسے معاملات میں عقل سے کام لیں، خود کی اور دوسرے کی زندگی کو اذیت میں مبتلا نہ کریں، ورنہ دوسری صورت میں شیطان آپ سے گناہ کروا کر اپنے راستے، اور آپ کے پاس صرف پچھتاوا رہ جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر میشال نذیر

ڈاکٹر میشال نذیر

بلاگر حیاتی کیمیا (بایو کیمسٹری) میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلام اور سائنس کے موضوع سے خصوصی شغف رکھتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہورہا ہے، اس سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر، معاشرے کی وہ تصویر ہے جس میں دھنک کے سارے رنگ ہیں؛ اور جسے دیکھنے کےلیے خوبصورت آنکھ چاہیے، جو ہر رنگ میں چھپی خاموشی، شور، سکون، خوشی، غم، خیال، تصور، غرض کہ ہر معاشرتی احساس کو دیکھ، سن، سمجھ اور برداشت کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔