ہمیں ضرورت ہے کیا؟

شیریں حیدر  اتوار 4 اگست 2019
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میں پچھلے ساٹھ دن سے لگ بھگ ہر روز گھر سے باہر جاتی ہوں ، اسپتال یا پھر اسی سے منسلک کوئی ایسا کام۔ میرا واسطہ بھانت بھانت کے لوگوں اور طرح طرح کے حالات و مسائل سے پڑتا ہے ۔ نہ صرف لوگوں کودیکھتی ہوں بلکہ ان کے چہروں پر رقم وہ تحریریں بھی دکھائی دیتی ہیں جنھیں وہ الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتے۔

ان میں سے بیشتر جو کسی چھوٹے شہر یا گاؤں سے اپنے مریض کو لے کر آتے ہیں، انھیں اس سے قبل کبھی اپنے شہر سے باہر جانے کا اتفاق ہی نہیں ہوا ہوتا۔ ان کا وژن بڑا محدود سا ہوتا ہے اور بڑے شہروں میں چھوٹے چھوٹے مسائل، ان کے بڑے مسائل بن جاتے ہیں۔

والدہ دس جون سے راولپنڈی کے ایک اسپتال میں داخل ہیں اور اس عرصے میں لوگوں کے وہ مسائل نظر آئے ہیں جو کبھی کبھار اسپتال جانے یا گھر پر بیٹھے رہنے سے نظر نہیں آتے۔ نہ صرف اس ایک اسپتال کی، بلکہ ملک میں ہزاروں عمارتیں ایسی ہیں کہ جن کی تعمیر اورتزئین پر بے بہا پیسہ بہایا جاتا ہے مگر عملی طور پر جو عمارت استعمال ہوتی ہے اس کا حجم بہت کم ہے۔

اسپتال ہوں، ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے گیٹ، ڈاکخانے، میٹرو اسٹیشن، ائیر پورٹ، کالج ، اسکول، یونیورسٹیاں، عدالتیں ، سرکاری رہائش گاہیں یا سرکاری دیگر عمارتیں… ان سب میں جس چیز کو سب سے اول نمبر پر ملحوظ رکھا جانا چاہیے وہ ہے تعمیر کی جگہ کا عقلمندی سے استعمال، اس کے بعد عمارتوں میں سادگی ہونی چاہیے ۔ ان سب عمارتوں میں مغلیہ انداز کے داخلی گیٹ بنا کر ان پر کروڑوں روپے خرچ کر دینے کی بجائے اہم نہیں کہ اسی رقم کو بچا کر پارکنگ لاٹ، انتظار گاہیں، درخت، بنچ، پانی کے انتظامات، پنکھے ، سایہ دار اور لوگوں کے لیے آرام سے بیٹھنے کی جگہیں بنا دی جائیں ۔

بہت سی عمارتوں کے باہر میں نے طویل باؤنڈری والز پر بھی سجاوٹی پینٹنگ یا میورل دیکھے ہیں، ان کی کوئی تک بھی نظر نہیں آتی۔ اندرونی و بیرونی آرائش پر جو پتھر یا ٹائلیں استعمال کی جاتی ہیں ان کی بجائے اگر سادہ عمارت بنائی جائے تو وہی رقم اس عمارت کے اندر کسی اور مقصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ اگر اس کی بھی ضرورت نہ ہو تو اس ملک میں ابھی کئی گنا زیادہ اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے جسے کسی دور میں اہم نہیں سمجھا گیا۔

جب انگریز نے اس ملک پر حکومت کی اور اس وقت جو عمارتیں بنیں، وہ سادگی اور سہولت کا عملی نمونہ مگر پائیداری میں بے مثال ہیں، ان عمارتوں میں سے بیشتر عمارتیں ابھی تک زیر استعمال ہیں ۔ میں نے اس دور کی بنی ہوئی جن عمارتوں کو بھی دیکھا ہے انھیں ہر اس جگہ کے موسم کے موافق پایا ہے، ان میں کشادگی ہے، ہوا کا گزر ہر کمرے سے ہوتا ہے اور غیرضروری سجاوٹ نظر نہیں آتی ۔ حال میں بنائی گئی عمارات پر جتنی محنت کی جاتی ہے ، جتنا رقم کا زیاں ہے اور اسے سہولت سے زیادہ سجاوٹ کے نقطہء نظر سے بنایا جاتا ہے، اتنا ہی ان عمارتوں میں چند ہفتوں میں مسائل نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ خواہ وہ تعمیر میں موجود نقائص کے حوالے سے ہوں یا ضرورت پوری کرنے سے معذور عمارتیں۔ کہیں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے، کہیں بارشوں کا پانی عمارتوں کے تہہ خانوں میں بھر جاتا ہے۔

میںنے اس وقت جو شدید فقدان محسوس کیاہے، وہ نہ صرف اسپتالوں کا ہے بلکہ جو اسپتال موجود بھی ہیں ان میں ڈاکٹرز، نرسیں اور دیگر اسٹاف اور سہولیات کا بھی ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ دیگر مسائل جیسے بیڈ، وہیل چئیرز، اسٹریچر، بستر، ائیر بیڈ وغیرہ جو کہ اہم چیزیں ہیں اور واٹر کولر، فرج، مائیکرو ویو وغیرہ جو کہ مریضوں کے کھانے رکھنے یا گرم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں … وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، اگر ہیں تو کام نہیں کرتے ۔

میں نے مختلف جگہوں پر یہ بھی دیکھا کہ لوگ اپنے استعمال کے لیے یہ چیزیں اپنے گھر سے لائے اور جاتے ہوئے اسپتال کو وقف کر گئے۔ ان کے نام ان وقف شدہ اشیاء پر لکھے ہوئے ہیں لیکن اس کے بعد انھیں درست حالت میں رکھنے کی ذمے داری کوئی نہیں اٹھاتا تو ان کی نیکی گویا ضایع چلی گئی۔ سرکاری طور پر چلنے والے اسپتالوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے، ان میں جانے کا رسک تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں لیتا، ماسوائے اس کے کہ کسی کو کوئی حادثہ پیش آجائے اور قریب ترین سہولت سرکاری اسپتال کے علاوہ کوئی اور نہ ہو۔

سرکاری اسپتالوںمیں ایک ایک بیڈ پر ایک سے زائد مریض تو ہم سب دیکھتے اور جانتے ہیں ، میں نے کاریڈورز میں بھی مریضوں کو بغیر کسی گدے کے، زمین پر چادر ڈال کر پڑے ہوئے دیکھا ہے ۔ میں نے دل کے دورے والے مریضوں کو کرسیوں پر بیٹھ کر خود ہی منہ پر آکسیجن ماسک لگا کر ڈاکٹر کا انتظار کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔ کسی حکومتی رکن کو ملک کی طبی سہولیات دیکھنا ہوں تو اسے دور جانے کی ضرورت نہیں، صرف ایک دن اسپتال میں گزار کر دیکھ لیں۔

کتنی بد قسمتی ہے ہمارے ملک میں عام آدمی کی کہ بے چارہ بیمار بھی وہی زیادہ ہوتا ہے اور سب سے ناقص طبی سہولیات بھی اسے ہی ملتی ہیں جو اسے بالآخر موت کے منہ تک پہنچا دیتی ہیں ۔ اسے سکت ہی نہیں کہ وہ کسی نیم سرکاری یا نجی اسپتال میں علاج کرواسکے ، دل میں اس کی حسرت لیے ہی وہ دنیا سے چلا جاتا ہے۔ شہروں کے اسپتال، ان کی سہولیات ، اس کے لیے حیرت کدے ہیں۔ ان اسپتالوں میں علاج کے اخراجات وہ اپنی کھال بیچ کر بھی ادا نہیں کر سکتا ۔موجودہ حکومت کو بھی اس بات کو اہمیت اور اولین ترجیح دینا چاہیے کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے پیش نظر کہاں کہاں اسپتال بنوانا اہم ہے۔

ملک کے چندبڑے شہروں میں ایسے اسپتال موجود ہیں جو فوجی اسپتال ہیں یا پھر چند ایسے نجی اسپتال جن پر لوگوں کو اعتمادہے اور نہ صرف ان شہروں بلکہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ اپنے مریضوں کو بہتر علاج کے لیے وہیں لاتے ہیں۔ ان اسپتالوں میں مریضوں کا اتنا بوجھ ہے کہ ڈاکٹر بھی اپنے پیشے سے انصاف نہیں کر پاتے، جس توجہ کا ایک مریض مستحق ہوتا ہے وہ اسے نہیں مل پاتی اور جو ارتکاز ڈاکٹروں کو درکار ہوتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے ۔ ایک ایک دن میں ڈاکٹر درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں کے حساب سے مریض دیکھتے ہیں اور اس عمل میں وہ مریضوں کو اصل میں ’’ دیکھتے ‘‘ تک نہیں ۔

اسپتالوں میں داخل مریضو ں کے لواحقین کے حالات دیکھ دیکھ کر بھی ترس آتا ہے، گھاس کے قطعوں پر دن بھر دھوپ میں بیٹھ کر اور رات کو اسپتال کے احاطے میں کسی فٹ پاتھ یا سیڑھیوں پر بیٹھ کر رات گزاردیتے ہیں ۔ بھوک لگنے پر اسپتالوں کی کنٹین یا کیفے ٹیریا سے ہی جو کچھ تازہ یا باسی اور جن داموں بھی میسر ہو ، وہ لے کر پیٹ بھر لیتے ہیں ۔ ایسے ضرورت مندوں کے لیے قرب و جوار میںکوئی ہاسٹل، سستے موٹل وغیرہ سرکاری طور پر ہونے چاہئیں، جہاں وہ لوگ کم نرخوں پر رات گزار سکیں۔

ہمارے شاپنگ مالز اور ائیر پورٹ ہیں تو وہ بھی یوں ہیں جیسے ہم آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے سے نکل آئے ہوں ۔ ان سب عمارتوں میں جو قدر مشترک ہے وہ جگہ کا از حد زیاں اور شان و شوکت کا بے جا اظہار ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ائیر پورٹوں کے مقابلے پر ہم نے اپنے سارے بڑے ائیر پورٹ بنا لیے ہیں لیکن ان ملکوں میں دیکھیں کہ کتنی پروازیں ہر روز ہوتی ہیں اور ہمارے ہاں اکا دکا پروازوں کے لیے اتنے بڑے بڑے سجاوٹی ائیر پورٹ کھڑے کر دیے گئے ہیں اور بد قسمتی دیکھیں کہ ان میں سے کیا کیا کچھ گروی رکھا ہوا ہے، ہمیں اس کا بھی علم نہیں۔

اسپتال ، رہائشی عمارتیں اور تعلیمی ادارے اس ملک کی اہم ضرورت ہیں لیکن اگر ان کی تعمیر میں سادگی کا پہلو ملحوظ رکھا جائے تو یقینا اس بچائی گئی رقم سے ترقی کے کئی اور منصوبے پایہء تکمیل کو پہنچ سکتے ہیں ۔ ہم ترقی یافتہ ممالک سے صرف وہ چیزیں سیکھ کر اپنے ملک تک لاتے ہیں جو ہمیں بظاہر خوبصورت لگتی ہیں ۔ بیرون ممالک میں گھر ہوں یا سرکاری عمارتیں ، ان میں ایک ایک انچ جگہ کا استعمال ہوتا ہے۔

ہمیں اپنے ملک کے پالیسی میکرز کو اور ان لوگوں کو جو عمارتوں کے نقشے بناتے ہیں، تربیتی کورسز کروانے چاہئیں کہ جگہ کا مثبت استعمال کس طرح کیا جاتا ہے اور ایک ایک چپے کی اہمیت کو کس طرح ملحوظ رکھنا ہے ۔ اتنے بڑے بڑے کاریڈورز نہ بنوائیں کہ جیسے ان میںسے اونٹ اور ہاتھی گزرنے ہیں یا عمارتوں کے پورے پورے کمرے باہر نکالنا ہوتے ہیں ۔ شان و شوکت کا اظہار کئی اور طریقوں سے بھی ہو سکتاہے، آپ کے عوام بلک رہے ہوں اور عمارتیں اور سڑکیں بہترین ہو ں تو تف ہے ایسی ترقی پر!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔