عزت نفس بھی ہوتی ہے بڑی چیز اگر

شاہد سردار  اتوار 4 اگست 2019

یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ جب انصاف اور احتساب کے اخلاقی جواز پر اور اداروں کے غیر جانبدارانہ کردار پر سوال اٹھ کھڑے ہوں تو مملکت اپنا نیوٹرل کردارکھوکر پارٹی بن جاتی ہے جس سے شہری اور ریاست کے مابین عمرانی معاہدہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

اور اس بات سے بھی انکارممکن نہیں ہے کہ ہمارا رب ہر بشرکے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہے وگرنہ معاشرے میں کوئی بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ بھٹکا ہوا انسان اگر سیدھی راہ پر آجائے اور توبہ کر لے تو رب اس کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے، لیکن اگر بندہ توبہ کے در سے دور ہوتا چلا جائے اورگناہوں میں ڈوبتا چلا جائے تو پھر اس کی دراز ہوئی رسی ایک دن کھینچ لی جاتی ہے۔ پھر وہ حشر ہوتا ہے جو آج کل ہمارے سامنے ’’ عبرت کدہ ‘‘ بنا ہوا ہے۔کل کا ایک معزز اور باوقار جج چند لمحوں میں نہ صرف عزت و وقارگنوا بیٹھا بلکہ عوامی نگاہوں میں بھی قابل رحم اور مشکوک حیثیت اختیار کرگیا۔

یہ محض ایک کردار کی کہانی نہیں، اس طرح کے ان گنت کردار ہمارے نظام میں موجود ہیں جن پر پردہ پڑا ہوا ہے ، الا ماشا اللہ ہماری قوم میں ایسے ایسے کاریگر اور فنکار لوگ بھی موجود ہیں جو بلیک میلنگ یا انسانی کردارکشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ عیاشی اور نشے کی لت ہمیشہ انسان کا خانہ خراب کرتی اور ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے لیکن اس کے باوجود اس میں اس قدرکشش، رغبت اور طاقت ہوتی ہے کہ جو ایک بار اس کا اسیر ہوجائے وہ شاید کبھی بھی اس سے رہائی نہیں پاسکتا۔

بہرکیف سر دست احتساب کی یک طرفہ غضب ناک کہانی کا پول کھل گیا ہے۔ اس وقت اس حمام کا ابھی ایک مہرہ سامنے آیا ہے، باقی مہرے بھی سامنے آسکتے ہیں اور ریاست کو بچانے کے لیے اگر مہرے ریاست سے اہم نہیں ہوگئے تو ایک نہیں کئی مہرے قربان کیے جاسکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا شاذ ہی ہوا ہے۔ جنرل ایوب خان گئے تو اپنے ساتھ سب کچھ لے گئے، جنرل یحییٰ خان نے تو آدھا ملک ہی گنوا دیا لیکن پھر بھی اقتدار میں رہنے پر بھی مصر رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی وردی بچاتے بچاتے پوری عدلیہ ہی فارغ کردی۔ زیرعتاب آئے بھی تو عوام کے منتخب کردہ وزرائے اعظم اور ناحق سولیوں پر چڑھا دیے گئے۔ نہ جانے کب تک یہ طاغوتی کھیل مادر وطن کے سینے کو چھلنی کرنے کے لیے کھیلا جاتا رہے گا۔

معاملہ فقط نواز شریف کا نہیں، پورے نظام کی اخلاقی بنیاد کا ہے جس کی ابھی تو صرف ایک اینٹ ہلی ہے، پوری عمارت ہی اگر منہدم ہوگئی تو پھر کیا ہوگا ؟ دیکھنا ہے کہ کرپٹ احتساب کی غضب ناک کہانی یہیں ختم ہوتی ہے یا پھر اس کی بہیمانہ غضب ناکیوں کا سلسلہ بڑے طوفان کا باعث بنتا ہے؟

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری حکومتوں کی عاقبت نااندیشی اور ذمے دار حکام کی نااہلی نے ملکی مفاد کوکتنا اورکس قدر نقصان پہنچایا اس کی ایک نظر ’’ریکوڈک کیس‘‘ میں بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل کی جانب سے پاکستان پر 6 ارب ڈالر یعنی تقریباً ساڑھے 9 کھرب روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پاکستان پر نہ صرف اتنا بڑا جرمانہ ہوا بلکہ ٹریبونل میں پیش ہونے والے غیر ملکی وکلا کو بھاری فیسیں بھی ادا کی گئیں جو کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے بجائے درمیان میں ہی علیحدگی اختیارکرتے رہے۔اس ضمن میں ایک خاتون وکیل کو جو سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئرکی اہلیہ بھی ہیں انھیں مبینہ طور پر ایک ارب روپے فیس کی مد میں دیے گئے۔

وطن عزیز میں قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والے ’’معززین‘‘ کی تاریخ بھی پاکستان کی تاریخ ہی کی طرح خاصی پرانی ہے۔ اوپر سے نیچے تک ہمارے ملک کا حال برا ہے اور اس لوٹ مار یا کرپشن سے سب سے زیادہ نقصان ملک، اس کی سیاست اور جمہوریت کو ہوا ہے، اس لیے کہ ہر سیاست دان نے سیاست کو کاروبار بنالیا۔ اس بدعت کا خاتمہ مضبوط ارادے اور طاقتور اداروں کے ذریعے ہی ممکن ہے اور ان سب کا تدارک ممکن ہے سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل سے۔ کیونکہ ناانصافیاں عدم برداشت کو جنم دیتی ہیں اور لوگ تشدد کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ مہذب دنیا میں افراد کی نجی زندگیوں کا تحفظ شہری آزادیوں کے تصورکی بنیاد ہے اور کسی کوکسی کے نجی معاملات میں نقب لگانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لیکن چونکہ ہم نے اپنے معاشرے کی بنیاد جھوٹی اقدار اور جعلی پارسائی پر استوارکی ہے، اس لیے جب کسی کا کوئی ہاتھ لگتا ہے تو سب اسے گردن زدنی قرار دیتے ہوئے سنگسارکرنے پر تیار ہوجاتے ہیں اورکوئی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا کہ اس کا شیشے کا گھر بھی سنگ باری کی زد میں آسکتا ہے۔

دنیا بھر میں عدلیہ سے وابستہ افراد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ سماجی سرگرمیوں اور میل جول سے وہ گریزکریں۔ ایسے میں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ کیا متنازعہ اور مشکوک قسم کے کردار کے حامل شخص کو منصف کی کرسی پر بٹھایا جاسکتا ہے؟ ایسے میں آکاش علی فرتاش کا یہ شعر بہت موزوں اور اہمیت کا حامل ہمیں لگتا ہے کہ:

عزت نفس بھی ہوتی ہے بڑی چیز اگر

آدمی آدمی ہو رونقِ بازار نہ ہو

مختصر اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ وزارت قانون، عدلیہ اور قانون و انصاف کے رکھوالوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ ججوں کے طریقہ انتخاب پر غورکریں۔ طریقہ انتخاب میں دراڑیں ہیں یا جان بوجھ کر ایسے کمزور کرداروں کو منتخب کیا جاتا ہے جن سے بعد ازاں ضرورت پڑنے پر مرضی کے فیصلے لیے جاتے ہیں اور یہ فیصلے تاریخ کا حصہ بن کر عدلیہ کے کردار پر ایک داغ کی طرح ثبت ہوجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔