کرکٹ کمیٹی کے بوتل سے کون سا جن نکلے گا؟

عباس رضا  اتوار 4 اگست 2019
شائقین کو مستقبل کے اہم فیصلوں کا انتظار 

شائقین کو مستقبل کے اہم فیصلوں کا انتظار 

عالمی سطح پر کرکٹ کے انتظامی امور کا بے پناہ تجربہ رکھنے والے احسان مانی نے پی سی بی کی کمان سنبھالی تو توقع کی جا رہی تھی کہ ایک عرصہ سے بگڑے پاکستان کرکٹ کے معاملات میں تیزی سے سدھار آئے گا۔ ان کی بطور آئی سی سی چیف کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے امید پیدا ہوئی کہ وہ یہاں بھی انقلابی اقدامات کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن فی الحال کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی، ابھی تک ان کی زیادہ تر توجہ اور توانائی صرف اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ وزیراعظم اور بورڈ کے پیٹرن انچیف عمران خان کے ویڑن کے مطابق ڈومیسٹک کرکٹ سٹرکچر میں تبدیلی لاتے ہوئے ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم کر دیا جائے، پاکستان کی کلچر اور کھلاڑیوں کی معاشی مجبوریوں کو نظر انداز کر کے تشکیل دیا جانے والا یہ منصوبہ کس حد تک کامیاب ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کرکٹ کے بہتر مستقبل کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں حکومتی تبدیلی کے بعد سیاسی حمایت سے ہی اس کرسی پر براجمان ہونے والے احسان مانی ذاتی طور پر اچھی سوچ رکھنے کے باوجود پی سی بی میں ایسے سخت فیصلے نہیں کر پا رہے جو وقت کی ضرورت ہیں، نجم سیٹھی دورسمیت ایک عرصہ سے بورڈ کے ساتھ چمٹے رہنے والے عہدیداروں کی اکثریت ابھی تک اختیارات کے مزے لوٹ رہی ہے، ماضی میں کئی ناکام منصوبوں سے فائلوں کا پیٹ بھرنے والے یہی عہدیدار ماضی میں شہریار خان اور نجم سیٹھی کا دم بھرتے تھے، اب عمران خان کے ویژن کے مطابق کام کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ کا قبلہ درست کرنے کے دعوے کر رہے ہیں، مختلف لابیز اپنے اپنے من پسند افراد کو سسٹم کا حصہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں اور ایمانداری سے کام کرنے کی اہلیت رکھنے والوں کو کوئی گھاس ڈالنے کو تیار نہیں۔

کرکٹ کمیٹی کی تشکیل ہوئی تو محسن خان کی سربراہی میں وسیم اکرم، مصباح الحق اور عروج ممتاز سے بڑی سفارشات اور بہتر رہنمائی کی توقعات وابستہ تھیں،اس وقت بھی پی سی بی کا یہ غیر روایتی فیصلہ سراہا گیا کہ بورڈ عہدیداروں کے بجائے آزادانہ حیثیت میں کام کرنے والے یہ افراد شاید پاکستان کرکٹ کے درست ٹریک پر لانے میں کوئی کردار ادا کر سکیں،سابق کرکٹرز اور کھلاڑیوں کے تحفظات کے باوجود ڈومیسٹک کرکٹ سے ڈیپارٹمنٹس کو ختم کرنے کے ظالمانہ اقدام کے لیے پیش رفت کا آغاز ہوا تو کرکٹ کمیٹی سے کسی نے رائے لینا بھی ضروری نہیں سمجھا،اس دوران کئی اور اہم موڑ آئے اور گزر بھی گئے لیکن مشاورت کا کوئی عمل نہیں ہوا، 8ماہ تک صرف کاغذوں میں زندہ رہنے والی کرکٹ کمیٹی بالآخر محسن خان کی سربراہی سے بھی محروم ہوگئی اور نام نہاد غیر جانبدار باڈی کی کمان بھی پہلے سے ہی پے پناہ اختیارات کے مالک منیجنگ ڈائریکٹر وسیم خان نے سنبھال لی، ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ ذاکر خان، ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ ہارون رشید اور ڈائریکٹر کرکٹ اکیڈمیز مدثر نذر کو بھی کمیٹی میں بٹھالیا گیا، اصولی طور پر کرکٹ کمیٹی کو تھنک ٹینک کی حیثیت حاصل اور کسی بھی دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے لیکن اب اس کی حیثیت پی سی بی کی اپنی ہی ذیلی کمیٹی کی رہ گئی۔

ہر ورلڈکپ کے بعد اکھاڑ پچھاڑ پاکستان کرکٹ کی روایت رہی ہے،اس بار بھی کہانی مختلف نہیں، پہلے یہ ہوتا تھا کہ چیئرمین ہی اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چند بکروں کی قربانی دے کر خود سرخرو ہوجاتا، اگلے میگا ایونٹ سے قبل تمام مسائل کا حل تلاش کرتے ہوئے مضبوط ٹیم میدان میں اتارنے کے دعوے کئے جاتے۔ اس بار انداز تھوڑا مختلف ہے، فوری طور پر بڑے فیصلوں کا اعلان کرنے کے بجائے بندوق کرکٹ کمیٹی کے کندھوں پر رکھ کر چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے،جمعہ کو کمیٹی کا اجلاس ہوا تو تمام ارکان موجود تھے، کینیڈا میں موجود وسیم اکرم کو ویڈیو لنک کے ذریعے ساتھ رکھا گیا،ہیڈکوچ مکی آرتھر، کپتان سرفراز احمد اور سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق سے الگ الگ بات کرتے ہوئے ورلڈکپ سمیت گزشتہ 3 سال میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کرنے کی کوشش کی گئی.

حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی اپنی کسی غلطی کا اعتراف نہیں کیا، سب نے اپنی اور ٹیم کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا، اگر عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں ساتویں اور ون ڈے میں چھٹی پوزیشن پاکستان کے شایان شان ہے تو پھر واقعی کارکردگی تسلی بخش کہی جاسکتی ہے۔ مسائل ہیں تو ان پر غور کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی،انضمام الحق تو چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑ چکے اور کسی متبال نوکری کی تلاش میں ہیں، اجلاس میں آمد پر نہ زیادہ خوش تھے اور نہ پریشان نظر آئے۔ مکی آرتھر کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو آئندہ سال آسٹریلیا میں شیڈول ورلڈ ٹی ٹوئنٹی تک ہیڈ کوچ برقرار رہنے کی امید ہے۔

کمیٹی کے ایک رکن وسیم اکرم بھی ان کی خدمات برقرار رکھنے کے حق میں ہیں، اگر سرفراز احمد کو ٹیسٹ کرکٹ کے بوجھ سے نجات دلانے کا فیصلہ کیا گیا تو مصباح الحق بھی اظہرعلی کا نام دیں گے،اسد شفیق اور اظہر علی کے سوا کوئی طویل فارمیٹ کا تجربہ بھی نہیں رکھتا،اس لئے ان دونوں میں سے ہی کسی ایک کو کپتان بنایا جائے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں سینئرز کی کارکردگی میں بھی تسلسل کا فقدان ہے،شام 5 بجے شروع ہونے والا کرکٹ کمیٹی کا اجلاس رات 10بجے ختم ہوگیا، تاہم 12بجے تک یہی بتایا جاتا رہا کہ ابھی کارروائی چل رہی ہے، شاید اس کی وجہ یہ تھی بورڈ نہیں چاہتا تھا کہ میڈیا کے افراد تفصیلات جاننے کے لیے اراکین سے رابطے یا قیاس آرائیاں کریں، بعد ازاں بتایا گیا کہ کمیٹی کی سفارشات کو فی الحال حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ ارکان کی آئندہ مشاورت منگل کو ہوگی، اس کے بعد سفارشات چیئرمین پی سی بی کے حوالے کردی جائیں گی، کرکٹ کمیٹی کے بوتل سے کون سا جن نکلے گا کوئی نہیں جانتا لیکن شائقین کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل آئے۔

کھیل میں کوئی منزل آخری نہیں ہوتی،ایک کامیابی کو دوسری کی سیڑھی بنایا جائے تو ورلڈکپ جیسے میگا ٹائٹل حاصل کئے جاسکتے ہیں،پاکستان نے نوجوان کرکٹرز کی عمدہ کارکردگی اور فائٹنگ سپرٹ کی بدولت چیمپئنز ٹرافی جیتی، اس فتح کے سفر میں فیلڈنگ میں خامیاں نظر آئیں،بیٹنگ میں بھی مسائل تھے، ان پر توجہ دی جاتی تو ورلڈکپ میں پریشانی نہ اٹھانا پڑتی۔ ذرائع کے مطابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے بھی کرکٹ کمیٹی سے بات کرتے ہوئے اہم مواقع پر فیلڈرز کی غفلت کو کارکردگی میں عدم تسلسل کی وجہ قرار دیا ہے۔

یہ صرف ایک شعبے کی بات نہیں، ہر شعبے میں درست سمت میں کام کرنے کی ضرورت ہے،پاکستان کی چیمپئنز ٹرافی فتح میں اہم کردار ادا کرنے والے فخرزمان کی تکنیکی خامیوں کو بولرز بھانب چکے، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور نے اس پر کوئی کام نہیںکیا، اگر رہنمائی کے باوجود اوپنر اپنے مسائل کا حل تلاش نہیں کر پائے تو ان کا ناکام تجربہ بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں تھی،اسی طرح کے مسائل شاداب خان کو بھی پیش آئے،ان کی گگلی کو بھی بیٹسمین سمجھ چکے اور اب آسانی سے کھیلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کسی ایک یا دو فتوحات کو کافی سمجھ لینے والی ٹیمیں اور کھلاڑی کسی بڑے پلیٹ فارم پر کھیلتے ہوئے دباؤ کا شکار ہوجاتی ہیں، ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کے ساتھ یہی کچھ ہوا،جب تک گرین شرٹس کو اپنے مسائل کی سمجھ آئی، کمبی نیشن بھی قدرے بہتر کیا۔

بہت دیر ہوچکی تھی۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز تجربات کے لیے کافی تھی لیکن پاکستان نے یہ سلسلہ ورلڈکپ میں بھی جاری رکھا، سچن ٹنڈولکر بہت بھاری بیٹ سے کھیلتے تھے، عمر کے ایک حصے میں ان کی ڈرائیو کرنے میں خوبی ہی خامی بن گئی، چند اننگز میں مسلسل ناکامیوں کے بعد انہوں نے اپنے سکول کوچز سے رجوع کیا اور بالآخر اندازہ کیا کہ کلائیوں میں وہ طاقت نہیں جو نوعمری میں ہوتی تھی،اس لئے کم وزن کا بیٹ منتخب کرنا ہوگا، عظیم بیٹسمین نے بیٹ تبدیل کیا اور مسلسل پریکٹس سے وہ سٹروکس بھی چیک کئے جن پر وہ مسلسل آؤٹ رہے تھے، اس کے بعد فارم میں واپس آئے اور 10سال تک رنز کے انبار لگاتے ہوئے کئی ریکارڈز بھی پاش پاش کر دیئے، پاکستان ٹیم کو غیرملکی کوچز کے بجائے کھلاڑیوں کا کلچر اور مسائل سمجھ کر رہنمائی کرنے والے افراد کی ضرورت ہے، ہائی پروفائل نام تلاش کرنے بجائے دانشمندی سے کام کرنے والے عہدیداروں کا انتخاب کیا جائے تو گراس روٹ سطح سے اوپر تک پاکستان کرکٹ کے مسائل بتدریج حل کئے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔