- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
فورسز کو دہشت گردوں پر گولی چلانے کا اختیار دینے کا فیصلہ
اسلام آ باد: روز نامہ ایکسپریس کو حاصل ہونیوالے انسداددہشت گردی ایکٹ1997ء میں مجوزہ ترامیم کے مسودے کے مطابق حکومت نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کوبااختیار بنانیکافیصلہ کیا ہے۔
ماضی میں جہاںسیکیورٹی اداروں کو صرف اس صورت میں گولی چلانے کی اجازت تھی جب ان پرگولی چلائی جائے تاہم مجوزہ مسودے کے تحت سیکورٹی اہلکارکواسکے برعکس صورتحال میں بھی دہشتگردی میں ملوث شخص پرگولی چلانے کا اختیار حاصل ہو جائیگا، مجوزہ مسودے کے تحت تحقیقاتی ادارے تفتیش کیلیے ملزمان کو 30کے بجائے 90روزتک حراست میں رکھ سکیں گے جبکہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مسلح افواج، سول فورسز، خفیہ اداروں اور ایس پی عہدے کے پولیس افسرپر مشتمل ہو گی، تحقیقاتی ٹیم ایف آئی آر کے اندراج کے 30 روزکے اندرٹرائل کورٹ میں مقدمہ پیش کریگی،اس مدت میں انکوائری مکمل نہ ہونے پر متعلقہ انکوائری افسر عبوری رپورٹ عدالت میں پیش کرنیکاپابندہوگااورعدالت عبوری رپورٹ کی بنیاد پر مقدمہ کا ٹرائل شروع کریے گی یا پھرمعلومات کو ناکافی سمجھتے ہوئے ردکرسکے گی۔
مجوزہ ترامیم کے تحت مسلح افواج یا سول فورسزگرفتار ملزم کومتعلقہ تھانے یاصوبائی حکومت کے مقرر کردہ تحقیقاتی افسر کے حوالہ کرینگی، انسداد دہشتگردی کی عدالت 30 روز میں کیس کا فیصلہ کرنیکی پابند ہوگی، 30 روزبعدعدالت معاملہ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے نوٹس میں لائیگی جس پرمتعلقہ چیف جسٹس مناسب حکم جاری کرینگے، مجوزہ ترامیم کے تحت انسداد دہشتگردی کے مقدمے کی سماعت دو سے زائدبارملتوی نہیں کرائی جا سکے گی، ججوں، گواہوں اور پراسیکیوٹرز کے تحفظ کیلیے حفاظتی اسکرین نصب کی جائیگی اور دہشتگردی کا مقدمہ جیل میں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی چلایا جا سکے گا۔
صوبائی حکومت ملزم کو موبائل فون تک رسائی نہ ملنے کو یقینی بنائے گی، ترامیم کے تحت نامناسب انکوائری پر جہاں تفتیشی کو سزا ملے گی وہیں بہترین انکوائری پر افسر انعام کا حقدار بھی ہو گا، الیکٹرانک اور فرانزک شواہد کو بھی حتمی ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا، مجوزہ ترامیم کے تحت انسداد دہشتگردی کامقدمہ یاتحقیقات کسی اور علاقے یاصوبے میں بھی منتقل کی جا سکیں گی جس کیلیے متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے کیس منتقل کرنے کیلئے رضامندی لی جائیگی،مقدمے کی تحقیقات منتقل ہونیکی صورت میں نیا انکوائری افسر اس مقدمے کی وہیں سے تحقیقات شروع کریگا، ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترامیم کی کابینہ سے منظوری کے بعد اسے پارلیمنٹ سے قانونی شکل دلوائی جائیگی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔