فورسز کو دہشت گردوں پر گولی چلانے کا اختیار دینے کا فیصلہ

محمد بلال  جمعرات 19 ستمبر 2013
انسداددہشت گردی عدالت 30 روزمیں فیصلے کی پابندہوگی، وڈیو لنک کے ذریعے مقدمہ چلایا جاسکے گا، نئے قوانین کا مسودہ تیار  فوٹو: فائل

انسداددہشت گردی عدالت 30 روزمیں فیصلے کی پابندہوگی، وڈیو لنک کے ذریعے مقدمہ چلایا جاسکے گا، نئے قوانین کا مسودہ تیار فوٹو: فائل

اسلام آ باد:  روز نامہ ایکسپریس کو حاصل ہونیوالے انسداددہشت گردی ایکٹ1997ء میں مجوزہ ترامیم کے مسودے کے مطابق حکومت نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کوبااختیار بنانیکافیصلہ کیا ہے۔

ماضی میں جہاںسیکیورٹی اداروں کو صرف اس صورت میں گولی چلانے کی اجازت تھی جب ان پرگولی چلائی جائے تاہم مجوزہ مسودے کے تحت سیکورٹی اہلکارکواسکے برعکس صورتحال میں بھی دہشتگردی میں ملوث شخص پرگولی چلانے کا اختیار حاصل ہو جائیگا، مجوزہ مسودے کے تحت تحقیقاتی ادارے تفتیش کیلیے ملزمان کو 30کے بجائے 90روزتک حراست میں رکھ سکیں گے جبکہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مسلح افواج، سول فورسز، خفیہ اداروں اور ایس پی عہدے کے پولیس افسرپر مشتمل ہو گی، تحقیقاتی ٹیم ایف آئی آر کے اندراج کے 30 روزکے اندرٹرائل کورٹ میں مقدمہ پیش کریگی،اس مدت میں انکوائری مکمل نہ ہونے پر متعلقہ انکوائری افسر عبوری رپورٹ عدالت میں پیش کرنیکاپابندہوگااورعدالت عبوری رپورٹ کی بنیاد پر مقدمہ کا ٹرائل شروع کریے گی یا پھرمعلومات کو ناکافی سمجھتے ہوئے ردکرسکے گی۔

مجوزہ ترامیم کے تحت مسلح افواج یا سول فورسزگرفتار ملزم کومتعلقہ تھانے یاصوبائی حکومت کے مقرر کردہ تحقیقاتی افسر کے حوالہ کرینگی، انسداد دہشتگردی کی عدالت 30 روز میں کیس کا فیصلہ کرنیکی پابند ہوگی، 30 روزبعدعدالت معاملہ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے نوٹس میں لائیگی جس پرمتعلقہ چیف جسٹس مناسب حکم جاری کرینگے، مجوزہ ترامیم کے تحت انسداد دہشتگردی کے مقدمے کی سماعت دو سے زائدبارملتوی نہیں کرائی جا سکے گی، ججوں، گواہوں اور پراسیکیوٹرز کے تحفظ کیلیے حفاظتی اسکرین نصب کی جائیگی اور دہشتگردی کا مقدمہ جیل میں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی چلایا جا سکے گا۔

صوبائی حکومت ملزم کو موبائل فون تک رسائی نہ ملنے کو یقینی بنائے گی، ترامیم کے تحت نامناسب انکوائری پر جہاں تفتیشی کو سزا ملے گی وہیں بہترین انکوائری پر افسر انعام کا حقدار بھی ہو گا، الیکٹرانک اور فرانزک شواہد کو بھی حتمی ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا، مجوزہ ترامیم کے تحت انسداد دہشتگردی کامقدمہ یاتحقیقات کسی اور علاقے یاصوبے میں بھی منتقل کی جا سکیں گی جس کیلیے متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے کیس منتقل کرنے کیلئے رضامندی لی جائیگی،مقدمے کی تحقیقات منتقل ہونیکی صورت میں نیا انکوائری افسر اس مقدمے کی وہیں سے تحقیقات شروع کریگا، ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترامیم کی کابینہ سے منظوری کے بعد اسے پارلیمنٹ سے قانونی شکل دلوائی جائیگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔