دورہ امریکا کے حاصلات

جمیل مرغز  پير 5 اگست 2019

وزیر اعظم کے دورہ امریکا کے بارے میں حکومتی حلقوں اور تحریک انصاف کے لوگوں کا بغلیں بجانے اور ڈھول پیٹنے کا جہاں تک سوال ہے تو وہ بے چارے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ بڑی مشکلوں سے امریکی چنگل سے نکلنے کے بعد پاکستان کو ایک دفعہ پھر اس چنگل میں پھنسا دیا گیا ہے۔ کیا موجودہ دورہ امریکا سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات اس حد تک پہنچ گئے ہیں جب کہ 1979میں افغانستان میں سوویت فوج داخل ہوئی تھی؟

حالات سے تو معلوم یہی ہوتا ہے کیونکہ امریکا کی عنایات مفت نہیں ہوتیں‘ ’’فری لنچ‘‘ کا ان کے ہاں کوئی رواج نہیں۔ افغانستان اور ایران کے بارے میں جو بھی فیصلے ہوئے ہیں ان سے امریکا بہت خوش ہے‘ ان باتوں کو خفیہ رکھنے کے لیے صدر ٹرمپ کے کشمیر کے بارے میں ثالثی کے بیان کو بڑھا چڑھاکر پیش کیا جا رہا ہے‘حالانکہ تنازعہ کشمیر پر ثالثی کی آفر دنیا کے ہر بڑے لیڈر نے کی ہے‘ امریکی صدور بھی کئی دفعہ یہ تنازعہ حل کرنے کی آفر کر چکے ہیں لیکن ہندوستان کا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ دوطرفہ مسئلہ ہے اور اس کو دونوں ممالک شملہ معاہدے کے تحت باہمی طور پر حل کرنے کے پابند ہیں‘اب بھی ان کا یہ موقف ہے‘حکومت اور تحریک انصاف اس طرح اچھل کود رہے ہیں کہ جیسے صدر ٹرمپ یہ مسئلہ حل کردیں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اگر واقعی تعلقات بحال ہوکر 1979کی سطح تک پہنچ رہے ہیں تو پھر یہ بہت خطرناک صورت حال ہے۔

اس سے قبل دونوں ملکوں کے حالات انتہائی کم سطح پر پہنچ چکے تھے‘یہاں تک کہ صدر ٹرمپ کو کہنا پڑا کہ ’’امریکا نے پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی خطیر امداد دے کر غلط کام کیا‘  اس کے بدلے میں پاکستان نے صرف دھوکا دیا۔ پاکستانی امریکیوں کو احمق سمجھتے ہیں‘‘۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکا نے اس دفعہ Do More کا تقاضہ نہیں کیا‘ حالانکہ ملکی اور غیر ملکی مبصّراس بات پر متفق ہیں کہ امریکا کا یہ مطالبہ عمران خان کے دورے کے دوران بھی برقرار رہا‘ صدر ٹرمپ نے عمران خان سے ون آن ون ملاقات میں بھی اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان آیندہ دنوں میں امریکا کے لیے بہت کچھ کرنے والا ہے۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے وزیراعظم کو دعوت دینے کا بنیادی مقصد بھی افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو مزید اقدامات کرنے پر آمادہ کرنا تھا‘ ساتھ ہی اس خطے میں ایران کا مسئلہ بھی امریکا کے لیے درد سر بنا ہوا ہے‘ CPEC بھی امریکا کے ذہن پر سوار ہے‘ ان مسائل پر پاکستان کو امریکی موقف سے آگاہ کرنے کے لیے بھی پاکستان کی قیادت کو دعوت دی گئی کیونکہ امریکا پاکستان کی اندرونی سیاست میں سیکیورٹی اداروں کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ عمران ٹرمپ ملاقات کے بعد وہائٹ ہائوس سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا ‘اس کے الفاظ بھی قابل غور ہیں‘ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’’اسلام آباد نے دہشت گرد گروہوں کے خلاف کچھ اقدامات کیے ہیں‘ یہ بہت اہم ہے کہ ایک ہی دفعہ سب دہشت گردوں کا خاتمہ کر دے‘‘۔

یہ بنیادی طور پر ڈو مور کا مطالبہ ہی ہے۔ امریکا نے اپنے موقف میں کوئی لچک نہیں دکھائی‘ جس دن وائٹ ہائوس میں عمران ٹرمپ ملاقات ہوئی‘اسی دن وائٹ ہائوس نے ایک بیان جاری کیا‘ جس میں دہرایا گیا کہ کس طرح امریکا پاکستان کو پیسے دیتا رہا‘ اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے پاکستان سے کہا گیا کہ وہ مزید کارکردگی  دکھائے‘ وائٹ ہائوس اس مسئلے میں اتنا دو ٹوک ہے کہ اس نے بیان میں ’’ ڈو مور‘‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ کہا گیا کہ ‘

(Pakistan has made efforts to facilitate the Afghanistan peace talks and we are going to ask them ”To Do More”).  ۔امریکی حکام نے ہمارے خطے میں اپنے سیکیورٹی مفادات کا ذکر ضرور کیا لیکن کسی بھی فریق کی طرف سے ان سیکیورٹی مفادات کی تفصیل سامنے نہیں آئی۔ یہ بھی واضح نہیں پاکستان نے امریکی سیکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا وعدے کیے ہیں۔

وزیر اعظم امریکا گئے وہاں کے پاکستانیوں سے خطاب میں نواز شریف سے اے سی اور فریج وغیرہ لینے کی خوشخبری سنائی۔ وزیر اعظم عمران خان کو کوئی پروٹوکول نہیں دیا گیا‘ جب کہ آرمی چیف پنٹاگون گئے تو ان کو فل پروٹوکول دیا گیا‘ پنٹاگون میں ان کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیااور 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی‘ جوامریکا میں پروٹوکول کا سب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے‘یہ استقبال ثابت کرتا ہے کہ امریکا کو پتہ ہے کہ پاکستان میں طاقت کا اصلی سرچشمہ کہاں پر ہے؟

1979 کے تعلقات کا ذکر بھی انسان کو افسردہ کر دیتا ہے‘ امریکا سے ان تعلقات کی پاکستان نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے بلکہ اب بھی ادا کر رہا ہے‘ 1979 وہ سال ہے جب سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں‘ امریکا اور پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی۔ پاکستانی حکمرانوں کے حالیہ دورے کو اگر کامیاب بھی قرار دیا جائے اور امریکا کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز قرار دیا جائے تو بھی یہ بہت بڑی آزمائش بھی ہے‘ اگر افغان مذاکرات کا مثبت نتیجہ نہ نکلا تو اس وقت جو امریکا پاکستان کی تعریف کر رہا ہے اسی طرح پھر سارا ملبہ بھی پاکستان پر گرائے گا‘ پاکستان نے امریکا سے وعدے تو کر لیے کہ طالبان کو جنگ بندی اور افغان حکومت سے بات چیت پر آمادہ کرے گا‘ اب تک تو صورتحال یہ ہے کہ طالبان نہ جنگ بندی پر آمادہ ہیں اور نہ افغان حکومت سے مذاکرات ۔

امریکی صدر ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ ’’پاکستان ماضی میں افغانستان کے حوالے سے بہت کچھ کر سکتا تھا ‘ اگر ایسا کیا ہوتا تو آج پاکستان کی معیشت کا یہ حال نہ ہوتا اور پاکستان کی جیوا سٹرٹیجک حالت بھی آج کے مقابلے میں بہتر ہوتی‘‘۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ماضی میںپاکستان کی سول قیادت افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی پر زور دے رہی تھیں، حکومتیں بھی بدلی گئیں‘ آج پھر وہی ضمانتیں امریکا کو دی جارہی ہیں ۔

بی بی سی کے مطابق‘ افغانستان اور پاکستان میں سابق امریکی سفیر رائن سی کروکر واشنگٹن واپس آنے کے بعد پاکستان کے بڑے ناقد بن گئے ہیں‘ انھوں نے فارن پالیسی نامی جریدے کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’وہ سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت کو جاری مذاکرات سے باہر رکھنا امریکا کے لیے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے‘ پاکستان دو دہائیوں سے کابل میں طالبان کی آمد کا انتظار کرتا رہا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد اس تمام عرصے میں طالبان قیادت کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں رہا ہے‘‘۔

ان واقعات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکا اب بھی پاکستان کے افغان کردار کے بارے میں مشکوک ہے اور اگر واشنگٹن میں کیے گئے وعدوں پر عمل نہ ہوا تو پھر خدا خیر کرے‘ حالانکہ افغانستان کے مسئلے کا پرامن حل پورے خطے کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ اس لیے میری دعا ہے کہ افغانستان کے بارے میں امریکا میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد ہو جائے‘ تو پھر یہ دورہ یقینا کامیاب قرار دیا جا سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔