ذو الحجہ کا پہلا عشرہ اور فلسفہ قربانی

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 5 اگست 2019
فلسفہ قربانی کو سمجھتے ہوئے اپنے اندر جذبہ ایثاروہمدردی پیدا کرنے سے دنیا میں امن و امان قائم ہو جائے گا،مذہبی اسکالر۔ فوٹو: ایکسپریس

فلسفہ قربانی کو سمجھتے ہوئے اپنے اندر جذبہ ایثاروہمدردی پیدا کرنے سے دنیا میں امن و امان قائم ہو جائے گا،مذہبی اسکالر۔ فوٹو: ایکسپریس

ذوالحجہ کے ابتدائی ایام انتہائی عظمت و برکت والے ہیں ا ور ان میں کی جانے والی عبادات کا اجر و ثواب بھی زیادہ ہے۔ ان ایام کے دوران حج بھی آتا ہے اور عید الضحیٰ کی صورت میں ایک خوشی بھی۔ یہ مہینہ ہر لحاظ سے فضیلت والا ہے۔ 

معروف مذہبی سکالر  مولانا محمد الیاس گھمن کے ساتھ ’’ذوالحجہ کی اہمیت اورفلسفہ قربانی‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا، ان کی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مولانا الیاس گھمن:اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ الفجر میں ماہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام کی قسم اٹھا کر ان کی عظمت کو بیان فرمایا ہے۔ احادیث میں ان کے فضائل موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں عشرہ ذوالحجہ زیادہ عظمت والا ہے اور ان دس دنوں میں کی جانے والی عبادت عام ایام کی نسبت اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو یعنی سبحان اللہ کہو، تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ کہو ، تکبیر یعنی اللہ اکبر اور تحمیدیعنی الحمد للہ کہو ۔ (مسند عبد بن حمید )

عشرہ ذو الحجہ کے روزے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عام دنوں کے مقابلے میں عشرئہ ذوالحجہ کی عبادت زیادہ محبوب ہے ، اس کے ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کی عبادت لیلتہ القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (ترمذی)یکم سے 9 ذوالحجہ تک کے روزوں کی فضیلت ہے جبکہ دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔

عرفہ(نویں ذوالحجہ)کا روزہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ اس کے بعد والے سال اور پہلے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ (مسلم ) یہ فضیلت ان کے لیے ہے جو حج ادا نہ کر رہے ہوں ، حجاج کرام کو روزہ کی وجہ سے وقوف عرفہ جیسی عبادت میں سستی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بہتر ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔

بال اور ناخن نہ کٹوانا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب ذو الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے اور تم میں سے کسی کا ارادہ ہو قربانی کا تو اس کو چاہیے (قربانی کرنے تک) اپنے بال اور ناخن نہ تراشے۔(مسلم)

تکبیرات تشریق:

اللّٰہْ اکبر اللّٰہْ اکبر لا الہ الا اللّٰہْ واللہْ اکبر اللّٰہْ اکبر وللّٰہِ الحمد۔ یہ وہ کلمات ہیں جنہیں ’’تکبیر تشریق‘‘ کہا جاتا ہے جو ذوالحجہ کی 9 تاریخ صبح نماز فجر سے لے کر ذوالحجہ کی 13 تاریخ شام نمازعصر تک ہرفرض نماز کے بعدمردوںکے لیے قدرے بلند آواز سے جبکہ خواتین کے لیے آہستہ آواز سے پڑھنا واجب ہے۔

مسئلہ1:  ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔

مسئلہ2:   تکبیراتِ تشریق مرد، عورت، مقیم،مسافر، شہری ، دیہاتی سب پر واجب ہیں۔

مسئلہ3:    باجماعت نماز رہ جائے یا کچھ رکعات رہ جائیں تو نماز مکمل کرنے کے بعد بلند آواز سے کہیں۔

مسئلہ4:    اگر تکبیرات کہنا بھول گئے تو یاد آنے پر تکبیرات کہہ لینی چاہئیں بشرطیکہ نماز کے منافی کوئی کام نہ کیا ہو وگرنہ تکبیرات فوت ہوگئیں، اب کہنے سے واجب ادا نہیں ہوگا، اس پر استغفار ضروری ہے۔

مسئلہ5:   نماز عید کیلئے جاتے وقت قدرے بلند آواز سے جبکہ نماز عید کے بعد بھی تکبیر کہیں۔

ایکسپریس:قربانی کی تاریخی حیثیت کیا ہے ؟

مولانا الیاس گھمن:اقوام عالم کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر قوم میں قربانی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے، ہزاروں سال پہلے جب انسان اپنے حقیقی خالق و مالک کو بھول چکا تھا اورعناصر ، ہیاکل ، ستاروں بلکہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں اور دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یا ان کے نام کی نذر و نیاز مانتے ہوئے جانور وغیرہ کو ذبح کر کے ان کے سامنے رکھ دیتا تھا یا پہاڑوں پر چھوڑ دیتا اور یہ عقیدہ رکھتا کہ اب دیوتا اور بت مجھے آفات و حادثات سے محفوظ رکھیں گے۔ قربانی کا یہ تصور یونہی چلتا رہا ، آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپؑ کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قربانی کا حقیقی مقصد اور صحیح فلسفہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔

ایکسپریس:آپ نے کہا کہ قربانی کا صحیح تصور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تبدیل کیا، ان کے حالات سے آگاہ فرمائیں!

مولانا الیاس گھمن:آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اللہ کی طرف سے بڑی بڑی آزمائشیں آئیں اور آپؑ سب آزمائشوں میں کامیاب و کامران ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی مسلسل امتحانات میں گزری۔ جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ شرک کا گڑھ تھا، آپ کے والد آزر اپنی قوم کے مذہبی پیشوا تھے ، بت بنانے اور بیچنے کا پیشہ تھا اور انہی بتوں کے سامنے سجدہ ریز بھی ہوتے تھے۔آپ علیہ السلام نے اپنے والد کو تبلیغ کی کہ وہ بتوں کی عبادت چھوڑ دیں اور آپؑ کا لایا ہوا دین حق قبول کر لیں لیکن آزر نے بجائے قبولِ حق کے الٹا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جان سے مارنے کی دھمکی دی اور گھر سے نکال دیا۔

کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کے بت خانے میں جا کر بڑے بت کے علاوہ تمام بتوں کو توڑ ڈالا، جس کی پاداش میں آپؑ کو نمرود جیسے ظالم و جابر بادشاہ کے دربار میں لایا گیا۔ آپؑ نے نمرود کے سامنے جرأت و بے باکی سے کلمہ حق بلند کیا جس کا منطقی نتیجہ یہی ہوا کہ آپ علیہ السلام کو آگ کے الاؤ میں جھونک دیا گیا۔ اللہ رب العزت نے آپؑ کے لیے اس آگ کو گلستان بنایا۔ آپؑ بالکل صحیح سلامت آگ سے باہر تشریف لائے۔ اتنی بڑی حقیقت کو دیکھ کر اب چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ آپؑ پر ایمان لاتے اور آپؑ کی دعوت کو قبول کرتے لیکن جب بدنصیبی غالب آجائے تو قوموں کے اچھے مقدر مغلوب ہو جاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام عراق کو چھوڑ کر ملک شام تشریف لے گئے پھر وہاں سے فلسطین چلے گئے اور وہیں مستقل طور پر قیام گزیں ہوگئے اور یہیں اپنی نبوت کی تبلیغ فرماتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اہلیہ حضرت سارہ ؑکے ہمراہ مصر تشریف لے گئے جہاں بادشاہ مصر نے آپؑ کی اہلیہ کی خدمت کے لیے حضرت ہاجرؑہ کو پیش کیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ ابھی حضرت سارہؑ سے آپؑ کی کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی تھی بعد ازاں آپؑ مصر سے واپس فلسطین لوٹے۔ آپؑ کی اہلیہ حضرت سارہؑ نے آپؑ کا نکاح حضرت ہاجرہؑ سے کرایا۔آپؑ کی عمر عزیز بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچی تو آپ علیہ السلام نے اللہ کے حضور اولاد کی دعا مانگی : رب ھب لی من الصالحین اے اللہ مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ اللہ نے آپؑ کی دعا کو قبول فرمایا اور حضرت ہاجرہؑ سے آپؑ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے اور ان کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد حضرت سارہؑ کے بطن سے حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پھر ایک اور آزمائش آپؑ پریہ آئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو حکم دیا کہ اپنی بیوی ہاجرہؑ اور فرزند اسماعیلؑ کو وادی بے آب و گیاہ مکہ مکرمہ میں چھوڑ آؤ! آپؑ نے اللہ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے حضرت ہاجرہؑ اور اپنے کمسن فرزند اسماعیلؑ کو مکہ مکرمہ میں چھوڑ دیا۔ بچے کو بھوک پیاس ستاتی تو ماں بے چین ہو کر قریب کی دو پہاڑیوں صفا اور مروہ پر پانی کی تلاش میں دوڑتی رہیں۔ جب واپس لوٹیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ حضرت اسماعیلؑ کے قدموں تلے ایک چشمہ جاری ہو چکا ہے ، جسے زم زم کہا جاتا ہے۔

ایکسپریس: قربانی کا واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟

مولانا الیاس گھمن:حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے کافی عرصہ بیت چکا تھا اس دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو ذبح کر رہے ہیں اور یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نبی کا خواب بھی ’’وحی‘‘ ہوا کرتا ہے چنانچہ اللہ رب العزت کے حکم کی تعمیل کے لیے پھر فلسطین سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مابین جو گفتگو ہوئی ہے، اسے قرآن کریم میں اس طرح بتایا گیا ہے:

حضرت ابراہیم علیہ السلام: اے میرے بیٹے !میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں ، اس بارے تیرا کیا خیال ہے ؟

حضرت اسماعیل علیہ السلام:اے میرے ابو!جس کام کا آپ کو اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے آپ وہ کام کر گزرئیے۔ انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

غور کیجئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے گفتگو کا ایسا طرز اختیار نہیں کیا جس سے خوف و ہراس اور وحشت ٹپکتی ہو بلکہ فکری اور ذہنی طور پر اللہ کے نام پر جان قربان کرنے کی خوبصورت انداز میں ترغیب دی ہے تاکہ جب اللہ احکم الحاکمین کے حکم پر عمل پیرا ہوا جائے تو اس میں بیٹا مجبور و لاچار نہ ہو بلکہ تسلیم و رضا کا پیکر نظر آئے اور ہر عبادت میں یہی مقصود ہوا کرتا ہے۔ اب آئیے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے جواب کی طرف اگر اس میں غور کیا جائے تو یہ بات نکھر کر سامنے آ تی ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ اتنی بڑی قربانی دینے کے لیے اتنی چھوٹی سی عمر میں تیار ہوئے واقعتاً چھوٹی عمر میں بڑا کمال ہے لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسے اپنی ذات کی طرف منسوب نہیں ہونے دیا بلکہ اسے محض اللہ کی عطا سمجھا اور مشیئتِ ایزدی پر صبر کرنے والوں کی قطار میں خود کو کھڑا کر دیا۔ چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے یہ فیصلہ سنایا کہ میں اللہ کے اس حکم پر دل و جان سے راضی ہوں اور یہ راضی ہونا محض الفاظ تک ہی محدود نہیں بلکہ ذبح ہونے کو بھی تیار ہوں۔ باقی پدرانہ شفقت کی وجہ سے آپؑ اس سوچ میں بھی نہ پڑیں کہ شاید میرا یہ فیصلہ ہنگامی یا وقتی ہوگا میں ’’قربانی کا فلسفہ‘‘ خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ اپنی جان تک کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا درحقیقت قربانی ہے۔ اس حقیقت پر عمل کرنے کے لیے میرے ذاتی ارادہ کو دخل نہیں بلکہ یہ سب کچھ اللہ کی مشیئت اور ارادہ سے ہی ممکن ہے چونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے میں بھی صبر کروں گا تاکہ اللہ کی مشیئت مجھے بھی نصیب ہو جائے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ کے حکم پر اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کا جذبہ پختہ تھا اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اللہ کے نام پر قربان ہو جانے کا ارادہ بھی مصمم تھا۔ یہ اس لیے کہ دونوں باپ بیٹا ’’فلسفہ قربانی‘‘ کی حقیقت کو سمجھ چکے تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تو اللہ تعالیٰ کے نام پر خود کو قربان ہونے کے لیے پیش کیا اس لیے ان کا جذبہ تو واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جذبہ قربانی سمجھنے کے لیے ایک دوسری حقیقت کو سمجھنا ہوگا وہ یہ کہ باپ کے لیے اولاد کی قربانی پیش کرنا اپنے آپ کو ذبح کر لینے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے ، یہ وہ قلبی کیفیت اور دلی احساس ہے جس کو سمجھا تو جا سکتا ہے لیکن الفاظ میں سمجھایا نہیں جا سکتا۔ دنیا کا ہر باپ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے؟ اس لیے قرآن کریم نے اولاد کو (فتنہ ) باعث  آزمائش کہا ہے۔ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا جذبہ قربانی بھی قابل صد ستائش ہے اور ان کا صبر وضبط بھی مثالی ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ’’جذبہ قربانی‘‘ اس سے بڑھ کر قابل تحسین اور ان کا صبر بے مثال ہے۔ انسان اپنے آپ کو قربان کر سکتا ہے لیکن لخت جگر کے نرم و نازک اور معصوم گردن پراپنے ہاتھوں سے چھری چلانا ، نہ چلے توبار بار چھری کو تیز کر کے چلانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔

یہ کام اعصاب شکن ، مشکل اور بہت صبر آزما تھا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صدق نیت کے ساتھ اس پر عمل کر کے دکھایا تو اللہ رب العزت نے بچے کے عوض ایک دنبہ وہاں بھیج دیا اور فرمایا کہ آپ امتحان میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد یہ عمل شریعت میں اس قدر پسندیدہ اور مقبول ہوا کہ اسے ’’سنت ابراہیمی ؑ‘‘ کے مبارک الفاظ سے یاد کیا جانے لگا۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اخلاص کی ایسی مضبوط دلیل ہے جو تا قیامت قائم رہے گی۔ چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: یارسول اللہ ﷺ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے (روحانی)باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہمیں قربانی کرنے سے کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یارسول اللہﷺ!اْون (کے بدلے میں کیا ملے گا؟) فرمایا: اْون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3127)

ایکسپریس: شریعت محمدیہ ﷺمیں قربانی کی اہمیت کیا ہے ؟

مولانا الیاس گھمن: قربانی والی عبادت ان چیزوں میں سے ایک ہے جو اسلام کی علامت اورشعائر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؐ مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرماتے رہے اور آپﷺ کے بعد صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، آئمہ مجتہدین، مفسرین ، محدثین ، اسلاف اور اکابر۔الغرض اس وقت سے لے کر آج دن تک امت کا متوارث، متواتر اور مسلسل عمل بھی قربانی کرنے کا چلا آ رہا ہے۔قربانی پر قرآن کریم کی آیات اور احادیث مبارکہ موجود ہیں جس سے اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ قرآن کی سورۃ الحج کی آیت 34 میں ہے۔ ترجمہ: ’’اور ہم نے ہر اْمت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں، لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ اْسی کی فرماں برداری کرو، اور خوشخبری سنادو اُن لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔‘‘ احادیث مبارکہ میں بھی اس کی اہمیت یوں بتلائی گئی ہے :ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (جا مع الترمذی، حدیث نمبر 1413)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی خرچ کی فضیلت اس خرچ سے ہرگز زیادہ نہیں جو بقرعید والے دن قربانی پر کیا جا ئے۔(سنن الدارقطنی ، حدیث نمبر 4815)

ایک اور حدیث ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص استطاعت رکھنے، صاحب نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔‘‘ (ابن ماجہ: 226، مسند احمد)ان کے علاوہ بھی متعدد احادیث قربانی کی فضیلت کے بارے کتب حدیث میں موجود ہیں۔

ایکسپریس:اسلامی دنیا میں قربانی کی شرح کتنی ہے ؟

مولانا الیاس گھمن:میری معلومات کے مطابق آبادی کے لحاظ سے اس وقت اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک انڈونیشیا ہے جس کی کل آبادی تقریباً ساڑھے 25 کروڑ ہے اور اس میں سے 1 کروڑ 8 لاکھ 40 ہزار لوگ ہر سال قربانی کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر وطن عزیز پاکستان ہے۔ آبادی تقریباً 20 کروڑ اور ہر سال 1 کروڑ 22 لاکھ کے لگ بھگ لوگ قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔تیسرے نمبر پر بنگلہ دیش ہے جس کی آبادی تقریباً 15کروڑ 14 لاکھ ہے اور 80 لاکھ 72 ہزار بنگالی ہر سال قربانی کرتے ہیں۔چوتھے نمبر پر مصر ہے جس کی آبادی تقریباً 8کروڑ 5 لاکھ 24 ہزار ہے اور 62 لاکھ 23 ہزار لوگ ہر سال قربانی کرتے ہیں۔ پانچویں نمبر پر ترکی ہے جس کی کل آبادی تقریباً 7 کروڑ 46 لاکھ ہے اور 48 لاکھ 20 ہزار لوگ ہر سال قربانی کرتے ہیں۔ چھٹے نمبر پر الجیریا ہے جس کی کل آبادی تقریباً 3 کروڑ 48 لاکھ ہے اور 4 لاکھ 12 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ساتویں نمبر پر مراکو ہے جس کی کل آبادی تقریباً 3کروڑ 23 لاکھ ہے اور 8 لاکھ 40 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔آٹھویں نمبر پر عراق ہے جس کی کل آبادی تقریباً 3 کروڑ 11 لاکھ ہے اور 4 لاکھ 72 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ نویں نمبر پر سوڈان ہے جس کی کل آبادی تقریبا 3 کروڑ 8 لاکھ ہے اور یہاں 2 لاکھ 54 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ دسویں نمبر پر افغانستان ہے جس کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 90 لاکھ ہے اور 2 لاکھ 10 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ گیارہویں نمبر پر ازبکستان ہے جس کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 68 لاکھ ہے اور 1 لاکھ لوگ 60 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ بارہویں نمبر پر سعودی عرب ہے جس کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 54 لاکھ ہے لیکن حج کی وجہ سے سب سے زیادہ قربانی ہوتی ہے۔تقریباً 1 کروڑ 50 لاکھ 30 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ تیرہویں نمبر پر ملک شام ہے جس کی کل آبادی 2 کروڑ 8لاکھ ہے اور 1 لاکھ کے لگ بھگ لوگ قربانی کرتے ہیں۔اسی طرح یمن کی کل آبادی بھی 2 کروڑ 8 لاکھ ہے جس میں سے 80 ہزار لوگ قربانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ چودہویں نمبر پر ملائیشیا ہے جس کی کل آبادی 1کروڑ 70 لاکھ ہے اور 95 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح فلسطین، لیبیا، اردن، جبوتی، موریطانیہ، تاجکستان، آذر بائیجان، ترکمانستان، قازقستان، قطر، بحرین، عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے درجنوں ممالک ہیں جن میں کثیر تعداد میں قربانی کا فریضہ ادا کیا جاتا ہے بلکہ بعض غیر مسلم ممالک میں بھی موجود مسلمان قربانی کرتے ہیں جیسے ہمارا ہمسایہ ملک ہندوستان ہے وہاں 1 کروڑ سے زائد لوگ قربانی کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں اوسطاً 7 کروڑ 70 لاکھ 93 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 3 کروڑ سے زائد جانور ذبح ہوتے ہیں۔ اگر چھوٹے بڑے جانوروں کا اوسط وزن 50 کلو گرام بھی فرض کر لیا جائے تو ایک ارب 50 کروڑ کلو یعنی 3 کروڑ 75 لاکھ من تقریباً گوشت بنتا ہے۔

ایکسپریس: بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ قربانی کے بجائے رفاہی کاموں میں پیسہ لگایا جائے، اس بارے آپ کیا کہتے ہیں ؟

مولانا الیاس گھمن:رفاہ عامہ میں روٹی کپڑا اور مکان ہے۔ اسی رفاہ عامہ میں عید کے دنوں میں غریبوں کو قربانی کے جانور کا گوشت دے دیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ یقیناً یہ بھی رفاہ عامہ ہی ہے لیکن اگر اس سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تب بھی قربانی میں عام لوگوں بالخصوص غریبوں کا بہت نفع ہے۔ قربانی والے عمل کا حکم دے کر شریعت یہ ہرگز نہیں کہتی کہ رفاہِ عامہ کے مفید کام نہ کیے جائیں ،انسانیت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسلام کی تعلیمات موجود ہیں۔ اس کے لیے زکوٰۃ ، صدقہ الفطر، عشر اور دیگر صدقات کا مستقل نظام ہے جس کے تحت انسانیت کی فلاح وبہبود ، غرباء، مساکین اور ناداروں پر خرچ کیا جاتا ہے ،اس لیے شریعت کہتی ہے کہ 10 ذوالحجہ سے لے کر بارہ ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے، اس کے لیے قربانی چھوڑ کر اس رقم کا صدقہ کرنا بالکل جائز نہیں ہے، ہاں! جس شخص پر قربانی واجب نہیں، اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحب ِ نصاب لوگوں کے ان دنوں میں قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ یا سال کے دیگر ایام میں مالی صدقہ کرنا یقینا بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے لیکن اس لیے قربانی والے عمل کی قربانی دینا درست نہیں۔

ایکسپریس:قربانی کے معاشی فوائد پر کچھ روشنی ڈالیے!

مولانا الیاس گھمن:سب سے پہلے تو یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ کی ذات حکیم و خبیر ہے اس کا کوئی حکم فائدے سے خالی نہیں۔ اس کی ایک مثال اسی قربانی والے حکم سے سمجھی جا سکتی ہے وہ اس طرح کہ اس کے مختلف مراحل ہیں۔ جیسا کہ جانور پالنا، اس میں لاکھوں انسان سال بھر مصروف رہ کر برسرِ روزگار بنتے ہیں۔اسی طرح چارہ خریدنا، یہ کاروبار بھی انتہائی نفع بخش ہے جس کا فائدہ زمیندار، دکاندار اور خریدار کو بھی ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھنا کہ غریب اور متوسط طبقے کے ہزاروں افراد اس ذریعے سے مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ساتھ میں دودھ کا نظام کہ ڈیری فارم، دودھ خریدنے اور بیچنے والی کمپنیاں اسی طرح مستقل طور پر ہوٹلوں اور گھروں کی ضرورت کا پورا ہونا۔جانوروں کو باندھنے کے لیے رسیوں اور زنجیروں کا کاروبار، جانوروں کے چارے کے لیے برتنوں کا کاروبار ، مزید غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قربانی کے ایام میں ان کی منڈیوں میں منتقلی کے لیے ٹرانسپورٹ کا وسیع نظام کہ جس میں ٹرانسپورٹر سے لے کر منڈی کے منشی تک فائدہ اٹھاتے ہیں۔گاڑیوں میں جانور لادنے اور اتارنے والے لوگ روزی کماتے ہیں۔ اسی طرح ان دنوں میں جانور بیچنے کے نتیجے میں مالی منافع کا بڑھنا ، قصابوں کی اجرت بھی اسی نظام کا حصہ ہے۔ پچھلے سال قربانی کے موقع پر قصابوں کی دی جانے والی اجرت 23 ارب کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ کھال دینے میں ضرورت مندوں بالخصوص مدارس دینیہ کی مالی امداداور غرباء مساکین اور رفاہی و سماجی اداروں میں گوشت کی فراہمی کو یقینی بنانا۔ اسی طرح قربانی کی کھالوں سے بہت سے لوگوں کا کاروبار زندگی وابستہ ہوتا ہے جیسے ان کو نمک لگا نے والے ، ان کو خشک کرنے والے، پھر یہ سب چمڑے کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں لایا جاتا ہے جہاں گرم لباس ، کوٹ ، خیمے ، جیکٹ ، بیگ اور دیگراشیاء کی بناوٹ جو چمڑے اور کھال کے بل بوتے ہی کارآمد ہوتے ہیں۔ اگر قربانی کا عمل ختم ہو جائے تو لیدر انڈسٹری کی 30 فیصد مصنوعات ختم ہو جائیں گی۔ سال کے ان تین دنوں میں لیدر انڈسٹری اپنا 30 فیصد مال قربانی کے جانوں کی کھالوں سے حاصل کرتی ہے یہاں تک کہ آلائشوں کو اٹھانے والے بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، آنتیں وغیرہ بیچی جاتی ہیں جن سے موم بتیاں اور دیگر پراڈکٹس تیار ہوتی ہیں۔ آج دنیا بھر میں یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ ہمیں ایڈ نہیں ٹریڈ چاہیے یعنی امداد نہیں صاحب روزگار بنانے کی ضرورت ہے اور قربانی کے ان دنوں میں کروڑوں لوگ صاحب روزگار بن رہے ہوتے ہیں اب یہ سمجھیں کہ دنیا جہان کا کوئی ایسا شخص جس میں انصاف نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہو اور تعصب نہ ہو تو وہ کسی صورت بھی قربانی کے بجائے رفاہی کام میں پیسہ خرچ کرنے کی بات نہیں کر سکتا۔

ایکسپریس:قربانی ہمیں کیا پیغام دیتی ہے ؟

مولانا الیاس گھمن:قربانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمارے دلوں میں یہ احساس اور فکر پیدا ہوجائے کہ اللہ کا حکم ہر چیز پر مقدم ہے۔ ہماری ساری کامیابیوں کا مدار اللہ کے احکام کو ماننے پر ہے۔ اگرچہ وہ ہماری طبیعت ،عقل اور سماج کے خلاف ہی کیوں نہ معلوم ہو رہا ہو۔ اس میں حکمتیں اور مصلحتیں نہ تلاشی جائیں بلکہ صدق دل سے عمل کیا جائے۔ یہی بات حدیث مبارک میں کہی گئی ہے، کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے دین کے تابع نہ کردے۔ اس کے ساتھ ساتھ قربانی کا دوسرا اہم پیغام یہ ہے کہ ہم اپنے اندر جذبہ ایثار و ہمدردی پیدا کریں، اسی کی بدولت دنیا میں امن و امان قائم ہو گا۔

ایکسپریس:عیدالاضحی کا دن کیسے گزارا جائے؟

مولانا الیاس گھمن:ایک مسلمان کے لیے پوری زندگی گزارنے کا سب سے بہترین طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا ہے۔اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ صبح و شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید والے دن (عید گاہ کی طرف آنے اور جانے والا )راستہ بدل لیتے تھے۔ اس لیے جس راستے سے عید گاہ کی طرف جائیں مناسب ہے کہ واپسی میں وہ راستہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ اسے تبدیل کر لیا جائے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز کے لیے تشریف لے جاتے تو کچھ نوش فرما کر جاتے اور عید الاضحی کے دن نماز عید پڑھنے تک کچھ نہیں کھاتے تھے۔ یہاں اس کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ اس دن عید سے پہلے اپنے اوپر کھانے پینے کو حرام کر لیتے ہیں اور روزہ دار کی طرح کچھ نہیں کھاتے پیتے ، یہ نظریہ غلط ہے۔

ایکسپریس: ملکی معاملات پر آپ کی گہری نظر ہے، موجودہ حالات پر آپ کیا کہیں گے؟

مولانا الیاس گھمن:اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اپنے ملک میں آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں ، ملک میں امن و امان ہے اور اس کا کریڈٹ ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان کو جاتا ہے جن کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ ملک دہشت گردی سے نکلا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کے بارے میں عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی جیت کا سہرا بھی انہی اداروں کے سر جاتا ہے۔میری رائے یہ ہے کہ ہم سب پاکستان کے استحکام ، سا لمیت اور ترقی کے لیے تمام تر اختلافات بھلا کر ایک ہوجائیں، ریاستی اداروں پر اعتمادکی فضا برقرار رکھیں ، دشمن کی پوری کوشش ہے کہ کسی طریقے عوام اور اداروں میں بداعتمادی کی پیدا کی جائے تاکہ اندرونی بغاوت ، شدت پسندی ، باہمی منافرت اور غیر متوازن سیاسی حالات کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اس موقع پر باہمی تنازعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم سب کو یہ مشترکہ بیانیہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ عید کے دنوں میں ہی ’’یوم آزادی‘‘ آ رہا ہے۔ اللہ کریم نے دو خوشیاں ایک ساتھ جمع کر دی ہیں لہٰذا عید کی خوشیاں بھی منائیں اور یوم آزادی پر اللہ کا شکر بھی ادا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔