پورن دا کھو: دو ہزار سال بعد بھی محفوظ

آصف محمود  پير 5 اگست 2019
’پورن دا کھو‘ سے متعلق رواہت مشہور ہے کہ یہ کنواں دو ہزار سال پرانا ہے۔ (فوٹو: بلاگر)

’پورن دا کھو‘ سے متعلق رواہت مشہور ہے کہ یہ کنواں دو ہزار سال پرانا ہے۔ (فوٹو: بلاگر)

سردار گورویندر سنگھ تیسری مرتبہ پاکستان آئے تھے اور اس بار ان کی خواہش تھی کہ انہیں سیالکوٹ شہر جانا ہے، جہاں 1947 سے قبل ان کے اجداد بستے تھے۔ سردار گورویندر سنگھ کے دادا سردار مہان سنگھ 1947 میں اپنے خاندان سمیت سیالکوٹ شہر سے اپنے خاندان سمیت بھارت چلے گئے تھے۔ وہ لوگ کئی برسوں سے کینیڈا میں آباد ہیں۔ سردار گورویندر سنگھ اپنے اجداد کا شہر اور وہاں موجود پورن بھگت کا کھو دیکھنا چاہتے تھے۔

ننکانہ صاحب میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد سردار گورویندر سنگھ اور ان کی اہلیہ پرم جیت کور نے ضد کی کہمیں بھی ان کے ساتھ سیالکوٹ جاؤں اور وہاں ان کے پرانے گاؤں اور پورن کے کھو تک جانے میں مدد کروں۔

متروکہ وقف املاک بورڈ کے حکام سے اجازت لے کر ہم لوگ سیالکوٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ سردار گورویندر سنگھ نے بتایا کہ ان کا خاندان سیالکوٹ کے نواحی گاؤں بدھوپور میں رہتا تھا۔ میں نے سیالکوٹ میں موجود اپنے ایک دوست کی مدد سے بدھوپور گاؤں کا معلوم کیا اور اسے بتایا کہ میرے ساتھ کینیڈا سے آئی ہوئی ایک سکھ فیملی بھی موجود ہے اور ہم لوگ وہاں ان کا پرانا گھر اور گاؤں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لوگ پورن بھگت کا کھو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ میرے دوست اطمینان دلایا کہ بے فکر ہوکر آجائیں، سب انتظام مکمل ہوگا۔

سردار گورویندر سنگھ اور ان کی فیملی نے اپنے اجداد کے گاؤں میں کیا کچھ دیکھا اور وہاں کے مکینوں نے کس طرح ان کا استقبال کیا، یہ کہانی پھر کبھی۔ آج ہم بات کریں گے پورن بھگت کے کھو کی۔

اس مقام کو دیکھنے کا مجھے خود بھی بہت شوق تھا۔ میں متعدد مرتبہ سیالکوٹ جاچکا ہوں، لیکن صحافتی ذمے داریوں کی وجہ سے وہاں بہت زیادہ گھومنے پھرنے کا وقت نہیں ملتا اور اپنا کام مکمل کرکے واپس آجاتا تھا۔ پورن بھگت کے کھو کا سن کر مجھے بھی اشتیاق تھا کہ اس بہانے مجھے ایک اسٹوری مل جائے گی۔

سیالکوٹ سے جموں روڈ پر تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر کرول گاؤں واقع ہے، جہاں ایک قدیم کنواں اور مندر کے آثار ہیں۔ ہم لوگ شہر سے چند منٹوں میں وہاں پہنچ گئے۔ یہاں کوئی رش نہیں تھا۔ اس مقام کے بارے مشہور ہے کہ یہ دوسری صدی عیسوی میں سیالکوٹ کے ہندو راجہ سالوان کے دور کا ہے۔ اس مقام پر کوئی کتبہ بھی نصب نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مصدقہ روایت ملتی ہے۔ تاہم یہاں آنے والے عقیدت مندوں میں اس مقام سے متعلق ایک واقعہ مشہورہے۔ جو پنجابی لوک داستانوں میں بھی ملتا ہے۔

میں نے اس مقام سے متعلق معلومات کےلیے گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر کلیان سنگھ کلیان سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ ہم لوگ سیالکوٹ میں پورن بھگت کا کھو دیکھنے آئے ہیں۔ لیکن اس بارے میں یہاں کوئی مصدقہ تفصیلات بتانے والا نہیں ہے، اس لیے آپ رہنمائی کریں کہ اس کنویں کی کیا اہمیت اور پس منظر ہے۔ سردار کلیان سنگھ کلیان نے بتایا کہ پنجاب میں دو کنویں پورن بھگت کے نام سے منسوب کئے جاتے ہیں، جبکہ ایک کنواں سندھ میں بھی ہے، جسے پورن کا کھو کہتے ہیں۔ تاہم پورن بھگت کا اصل کھو سیالکوٹ میں ہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں اس کھو کی مرمت کی گئی تھی اور یہاں نانک شاہی اینٹیں استعمال ہوئیں۔ ممکن ہے اس سے قبل بھی اس کنویں کی مرمت کی جاتی رہی ہوگی، جس کی وجہ سے یہ آج تک محفوظ ہے۔

لوک داستان کے مطابق سیالکوٹ پر ہندو راجہ سالوان کی حکومت تھی۔ اس کی بیوی کا نام اچھراں تھا۔ لاہور کے علاقہ اچھرہ کا نام بھی اسی رانی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ رانی اچھراں کا تعلق سیالکوٹ کے نواحی علاقے اگوکی سے تھا۔ راجہ سالوان کو خدا نے خوبصورت بیٹا عطا کیا، جس کا نام پورن رکھا گیا۔ تاہم راجہ کے جوتشیوں اور پنڈتوں نے بتایا کہ وہ بارہ سال تک اپنے بیٹے کا منہ نہ دیکھے، ورنہ راجہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جوتشیوں اور پنڈتوں کے کہنے پر راجہ نے اپنے نوزائیدہ بیٹے کا منہ دیکھے بغیر جنگل میں بھیج دیا۔ کئی ملازم اور کنیزیں بھی مال ودولت کے ساتھ روانہ کی گئیں اور اس طرح پورن نے بارہ سال جنگل میں ہی پرورش پائی، جہاں اسے نیزہ بازی، گھڑسواری اور تلواربازی کے ساتھ ساتھ دیگر تعلمیات بھی دی گئیں۔

اس عرصے کے دوران راجہ سالوان نے ایک کمتر ذات کی نوجوان لڑکی لونا سے شادی کرلی۔ رانی لونا راجہ سے کئی برس چھوٹی تھی اور ان کے ساتھ خوش نہیں تھی۔ بارہ برس بعد جب پورن واپس محل میں آیا تو وہ خوبصورت نوجوان تھا۔ رانی لونا جو اس کی سوتیلی ماں تھی، اسے پورن سے محبت ہوگئی اور وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی، تاہم پورن نے انکار کردیا۔ رانی لونا نے پورن سے متعلق راجہ کو شکایت کی کہ پورن نے اس کی عزت پر حملہ کیا ہے۔ نوجوان رانی کی محبت میں پاگل راجہ نے بیٹے کے قتل کا حکم دے دیا۔ تاہم جن ملازموں کو نوجوان شہزادے پورن کو قتل کرنے بھیجا تھا انہیں اس پر ترس آگیا اور انہوں نے سیالکوٹ شہر سے دور اس مقام پر جہاں اس وقت جنگل اور ایک کنواں تھا، یہاں چھوڑ دیا اور اسے قتل کرنے کے بجائے اس کے ہاتھ پاؤں توڑ کر کنویں کے قریب پھینک دیا۔ جبکہ بعض واقعات میں لکھا ہے کہ پورن کو کنویں کے اندر پھینک دیا گیا تھا۔

لوک داستان کے مطابق کچھ عرصہ بعد یہاں سے ایک ہندو مہا جوگی گورکھ ناتھ کا گزر ہوا۔ گرو گورکھ ناتھ، گورکھا اور ناتھ قبیلے کے بانی مانے جاتے ہیں اور کھاریاں کے نزدیک ٹلہ جوگیاں ان کے نام سے ہی منسوب ہے۔ گرو گورکھ ناتھ نے جب ہاتھ، پاؤں کٹے پورن کے آہ و بکا سنی تو اپنے چیلوں کی مدد سے اسے کنویں سے نکالا اور اپنے کرامات کے ذریعے پورن کے ہاتھ، پاؤں جوڑ دیئے اور پھر اسے اپنے ساتھ ٹلہ جوگیاں لے گئے، جہاں پورن کو روحانی تعلیم دی گئی اور وہ بھی مکمل جوگی بن گیا۔ کچھ عرصے بعد پورن بھگت اپنے گرو کے حکم پر واپس اسی مقام پر آگیا اور یہاں ڈیرہ لگالیا۔ دور دور سے لوگ پورن جوگی کے پاس آنے لگے۔ ادھر راجہ سالوان کی اپنی جوان بیوی لونا سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ راجہ کو بتایا گیا کہ شہر سے باہر ایک جوگی نے ڈیرہ لگایا ہے، کہتے ہیں اس کی دعا سے بے اولاد لوگوں کے اولاد پیدا ہوتی ہے۔ بادشاہ بھی اپنی بیوی رانی لونا کو لے کر پورن بھگت کے پاس آگیا۔ پورن نے اپنے والد اور سوتیلی ماں کو پہچان لیا۔ اس موقع پر رانی لونا نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا اور پورن کی دعا سے وہ ماں بھی بن گئی، تاہم پورن بھگت واپس محل میں نہیں گیا اور اسی جگہ اس کی موت ہوگئی۔

اس مقام پر ایک مندر کے آثار بھی موجود ہیں۔ مندر کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں شیو دیوتا کی پوجا ہوتی تھی اور یہ شیو مندر ہوگا۔ یہاں اب بھی بھارت سمیت ملک بھر سے لوگ آتے ہیں اور اس جگہ کو دیکھتے ہیں۔ بالخصوص بے اولاد خواتین بھی یہاں آتی ہیں اور کنویں کے پانی سے غسل کرتی ہیں۔ اس مقام پر برسوں سے ایک جنڈیال خاندان آباد ہے، جو اس جگہ کا نسل در نسل نگران ہے۔

دوسری طرف محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹر محمد افضل خان نے بتایا کہ انہیں پورن بھگت کی کہانی لوک داستان لگتی ہے۔ کیونکہ یہ دو ہزار سال پرانا کنواں ہو ہی نہیں سکتا، یہ کنواں بمشکل ڈیڑھ، دو سو سال پرانا لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج دو ہزار سال پرانا یہ کنواں موجود ہے تو پھر اس دور کا شہر کہاں گیا؟ سیالکوٹ کا پرانا شہر ایک ٹیلے پر واقع تھا جس کے آثار ختم ہوچکے ہیں۔ محمد افضل خان نے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل لاہور، سیالکوٹ سمیت پنجاب کے جو سرحدی علاقے ہیں، یہاں اکثریت میں ہندو اور سکھ آباد تھے۔ اس دور میں یہاں بے شمار حویلیاں اور کنویں بنائے گئے۔ ممکن ہے یہ کنواں سکھ دور میں کسی نے بنوایا ہو۔ تاہم اس کنویں کی حقیقت جاننے کےلیے آج تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، نہ ہی اس جگہ کی کوئی کھدائی ہوئی، نہ ہی کسی محقق نے کوئی تحقیق کی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2000 سے شعبہ صحافت جبکہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے اِس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔