تھری ڈی پرنٹر سے ’’زندہ‘‘ انسانی دل پرنٹ کرنے میں اہم پیش رفت

ویب ڈیسک  پير 5 اگست 2019
اس کامیابی کے طفیل مکمل انسانی اعضاء کی تھری ڈی پرنٹنگ کی راہ ہموار ہوئی ہے (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس کامیابی کے طفیل مکمل انسانی اعضاء کی تھری ڈی پرنٹنگ کی راہ ہموار ہوئی ہے (فوٹو: انٹرنیٹ)

پٹسبرگ: کارنیگی میلون یونیورسٹی میں ماہرین کی ایک ٹیم نے تھری ڈی بایو پرنٹنگ کی ایک نئی تکنیک کا عملی مظاہرہ کیا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے مکمل، دھڑکتا ہوا اور پوری جسامت والا زندہ انسانی دل پرنٹ کیا جاسکے گا۔ اسے بایومیڈیکل انجینئرنگ کے شعبے میں نہایت اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اب تک چھوٹی چھوٹی انسانی بافتوں (ٹشوز) کی بایو پرنٹنگ میں ہی کامیابی حاصل کی جاسکی تھی۔

اس نئی تکنیک کی تفصیلات ہفت روزہ تحقیقی جریدے ’’سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں اور اسے ’’فریش‘‘ (FRESH) کا نام دیا گیا ہے جو ’’فری فارم ریورس ایبل ایمبیڈنگ آف سسپینڈڈ ہائیڈروجیلز‘‘ کا مخفف ہے۔ کارنیگی میلون یونیورسٹی کی اسی ٹیم نے یہ تکنیک پہلے پہل 2015 میں وضع کی تھی جسے پختہ بنانے میں چار سال لگ گئے۔

نئی پیش رفت کے تحت ماہرین نے تھری ڈی بایو پرنٹنگ کے شعبے میں کئی مشکلات پر قابو پایا ہے اور اس بات کو ممکن بنایا ہے کہ تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے پیچیدہ انسانی بافتوں کو انتہائی باریک بینی اور درستی کے ساتھ پرنٹ کیا جاسکے۔

یاد رہے کہ اس سال اپریل میں یہ خبر آئی تھی کہ سائنسدانوں نے تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے مختصر جسامت والا ’’زندہ دل‘‘ تیار کرلیا ہے لیکن وہ طریقہ بہت مہنگا اور مشکل تھا جبکہ بڑی جسامت پر اس کے استعمال میں بھی کچھ عملی مشکلات درپیش ہیں۔

یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ مذکورہ کامیابی میں عام تھری ڈی پرنٹرز استعمال کیے گئے ہیں اور حتمی کامیابی کی صورت میں ایک مکمل، زندہ اور قابلِ استعمال انسانی دل صرف ایک ہزار ڈالر (تقریباً ڈیڑھ لاکھ پاکستانی روپے) میں تیار کیا جاسکے گا۔

بتاتے چلیں کہ اعضاء اور بافتوں کی ساخت میں خلیوں کو ان کی جگہ قائم رکھنے کےلیے ’’کولاجن‘‘ نامی پروٹین مرکزی کردار ادا کرتا ہے، جس کی بدولت کسی عضو کو ضروری مضبوطی کے علاوہ لچک بھی حاصل ہوتی ہے۔ البتہ، تھری ڈی پرنٹنگ میں کولاجن کا پیچیدہ اور حقیقت سے قریب تر سانچہ تیار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ رہی ہے کہ ابتدائی مرحلے پر سب کچھ مائع حالت میں (محلول کی شکل میں) ہوتا ہے جسے پیچیدہ عضو کی مطلوبہ ساخت میں لانا بے حد مشکل ہوتا ہے۔

اس مسئلے کا حل نہایت ہلکے پھلکے لیکن مضبوط اور لچک دار ’’ہائیڈروجل‘‘ (hydrogel) کی شکل میں سامنے آیا جو ٹھوس ہونے کے باوجود اپنے اندر مائع کی خصوصیات بھی رکھتا ہے۔ تازہ تجربات میں ایک خاص ہائیڈروجل استعمال کرتے ہوئے قدرے بڑی جسامت اور زیادہ پیچیدگی کے حامل، مختلف ٹشوز تیار کیے گئے جن میں کولاجن اور زندہ خلیات شامل کیے گئے جبکہ یہ سارا عمل کمرے کے درجہ حرارت پر انجام دیا گیا۔

اگلے مرحلے پر جب اس تیار شدہ پیچیدہ بافت کو انسانی جسم کے درجہ حرارت تک گرم کیا گیا تو ہائیڈروجل گھل کر ختم ہوگیا، اور یوں وہ بافت قابلِ استعمال حالت میں آگئی۔

’’فریش‘‘ تکنیک استعمال کرتے ہوئے مکمل جسامت والے انسانی دل کی تھری ڈی پرنٹنگ پر بھی کام کا آغاز ہوچکا ہے لیکن اسے انسانوں میں آزمانے سے پہلے کئی دوسری آزمائشوں سے گزرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی یہ تکنیک انسانوں پر استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔