اداس آزادی

رضوان علی گھمن  منگل 6 اگست 2019
اپنے ملک کی آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اپنے ملک کی آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’ابا کیا آپ بھی ناں! 14 اگست آتے ہی بستر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ خوشی کا موقع ہوتا ہے لیکن آپ رونا شروع ہوجاتے ہیں۔‘‘ مجھے کچھ سال پہلے اپنے والد سے کہی گئی باتیں یاد آنے لگیں۔

آج 14 اگست تھا۔ میری چھوٹی بیٹی صحن میں اپنی کچھ دوستوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ ہم نے یوم آزادی کے موقع پر پورے گھر کو سجایا ہوا تھا۔ یورپ میں رہتے ہوئے ایسے کسی پاکستانی تہوار کو منانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہاں کی تیز رفتار زندگی میں تو بچوں کے ساتھ دو پل فرصت کے گزارنا ہی ممکن نہیں ہوتا، تو تہوار کیسے منائیں۔

میری تو دونوں عیدیں، بیوی بچوں کی سالگرہ سب کام پر ہی گزرتی تھیں۔ میں سال میں صرف ایک چھٹی 14 اگست کو کرتا تھا۔ پورے گھر کو دلہن کی طرح سجاتا تھا۔ بچوں کےلیے نئے کپڑے، مہندی، سب کچھ کرنے کے بعد گھر کا ایک کونہ پکڑ کر رونا شروع ہوجاتا تھا۔ میری اداسی میرے درد کو بڑھا دیتی تھی۔ میں اداس نظروں سے صحن میں کھیلتی اپنی بیٹی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عالیہ اور اس کی دوستوں نے اپنے چہروں پر چھوٹے چھوٹے پاکستانی جھنڈے بنائے ہوئے تھے۔ پورے گھر میں خوشی کا ماحول تھا لیکن میں اس کے برعکس اداس دل کے ساتھ لیٹا ہوا تھا۔

’’ابا آپ کیوں آزادی کے دن اداس ہوجاتے ہیں‘‘۔ میں ایک بار پھر ماضی میں چلا گیا۔

میرے والد انڈین پنجاب کے ضلع گورداسپور کے ایک چھوٹے سے شہر فتح گڑھ سے تھے۔ یہ پاکستانی بارڈر سے محض پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آزادی کے وقت جب برصغیر دو ملکوں میں تقسیم ہوا تو میرے والد اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہجرت کرکے خیر خیریت سے نارووال آگئے۔ اس وقت ان کی عمر بیس سال کے قریب تھی۔

’’ابا آپ کیوں ہر سال یوم آزادی کے موقع پر رونا شروع ہوجاتے ہیں؟ آپ نے تو تقسیم کے وقت کچھ بھی نہیں کھویا تھا۔ بہن بھائی، سونا چاندی، مال مویشی، آپ کا تو کچھ بھی نہیں لٹا تھا۔ انڈیا میں آپ کی پانچ ایکڑ زمین تھی، یہاں نارووال میں آپ کو دس ایکڑ مل گئی تھی۔ آپ نے تو تقسیم کے وقت کوئی قربانی نہیں دی تھی، تو پھر یہ رونا دھونا کیوں کرتے ہیں؟‘‘ میں ہر سال ان سے سوال کرتا اور وہ ہر بار ٹال جاتے تھے۔

وہ اکثر کہا کرتے تھے ’’بیٹا آزادی کے وقت لوگوں نے اپنے ماں باپ کھوئے تھے۔ ان کی جوان بہنیں بیٹیاں ہجرت کی نذر ہوگئی تھیں۔ لیکن میرا تو کچھ نہیں گیا تھا۔ میں خوش قسمت تھا جس نے ہجرت کا وہ درد نہیں دیکھا‘‘۔

’’تو بابا پھر کیوں روتے ہو۔ کیا آپ پاکستان بننے کے حق میں نہیں تھے؟‘‘ میں ان کی بات درمیان میں کاٹ کر پوچھتا۔

’’نہیں بیٹا! ایسی بات نہیں ہے۔ پاکستان تو ہم مسلمانوں کے دلوں میں رہتا ہے۔ اسی لیے تو ہر سال یوم آزادی پر جھنڈیاں لگاتا ہوں۔ گاؤں میں سب سے اونچا جھنڈا بھی ہمارا ہوتا ہے۔ اپنے ملک کی آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔ لیکن یہ جو دل ہے ناں! یہ کم بخت ادھر ہندوستان میں ہی رہ گیا۔ یہ آج تک کبھی اپنے بچپن سے باہر ہی نہیں نکل سکا۔
راضی بیٹا میں چھوٹا سا تھا جب ہندوستان سے پاکستان آیا۔ آج اتنے برس گزر جانے کے بعد میری داڑھی کے بال بھی سفید ہوچکے ہیں۔ میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں۔ لیکن میرا بچپن، میری یادیں تو ابھی تک بارڈر کے اس طرف ہی بھٹک رہی ہیں۔‘‘ وہ ایسے ہی بولتے بولتے رونے لگ جاتے تھے۔

’’لوگ کہتے ہیں میں نے تو تقسیم کے وقت کوئی قربانی نہیں دی ہے۔ ارے! اپنا گھر بار، گاؤں، یار دوست چھوڑنا آسان ہے؟ کیا اسے قربانی نہیں کہتے؟ ایسے ایسے دوست جن کے بغیر روٹی کا نوالہ حلق سے نیچے نہیں جاتا تھا، آج ان کی شکل دیکھے ہوئے بھی پچاس سال ہوچکے ہیں۔ میں تو پچھلے پچاس سال سے ہر رات اس امید پر سوتا ہوں کہ شاید ان میں سے کسی کا چہرہ خواب میں ہی دیکھنا نصیب ہوجائے۔ لیکن وہ تو ایسے بچھڑے ہیں کہ اب ان کے خواب بھی نہیں آتے۔

وہ گاؤں کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو، کچے گھر، لہلہاتی ہوئی فصلیں، بھیڑ، بکریاں، بیل گاڑیاں، وہ گاؤں کی طرف جاتے ہوئے تانگے… ارے سب کچھ ہی تو چھوڑ کے آگیا ہوں۔ اب اور کون سی قربانی باقی ہے؟‘‘

’’راضی یہ پاکستان اتنی آسانی سے نہیں بنا ہے۔ اس ملک کے ایک ایک بوڑھے کی آنکھوں میں چھپے وچھوڑے کا درد اگر دیکھ سکتے ہو تو دیکھ لو۔ تمہیں آزادی کی قیمت کا احساس ہوجائے گا۔ ورنہ چار دن گھر سے باہر پردیس میں کاٹ کر دکھا دو۔‘‘

وہ ایسے ہی اپنے گاؤں فتح گڑھ کو یاد کرتے تڑپتے سسکتے ایک دن خاموشی سے خدا کے پاس چلے گئے۔ وہ دوبارہ زندہ کبھی لوٹ کر واپس اپنے گاؤں نہ جاسکے۔ ان کے مرنے کے بعد میں نے حالات سے مجبور ہوکر گاؤں چھوڑا اور اٹلی آگیا۔ ایجنٹ نے دو نمبر ویزہ دیا تھا۔ یہاں مہاجر بنا اور کاغذات کے چکر میں سال پر سال گزرتے گئے۔ یہاں شادی کی، بچے ہوئے اور پاسپورٹ ملتے ملتے پندرہ سال گزر گئے۔ جوانی چلی گئی، بڑھاپا آگیا۔ لیکن کبھی لوٹ کر واپس نہ جاسکا۔

پاکستان جانے کا سوچتا تو گھر کے حالات اجازت نہ دیتے۔ بچوں کی تعلیم، بیوی بچوں کی ضروریات، گھر کے اخراجات، سب کو سنبھالتے سنبھالتے کمر جھک گئی، بال سفید ہوگئے۔ لیکن کبھی لوٹ کر واپس امرود کے ان کھیتوں میں نہ جاسکا جنہیں دوستوں کے ساتھ مل کر چوری چوری توڑا کرتا تھا۔

’’بابا آپ ہر سال 14 اگست کو یوں رونے کیوں لگ جاتے ہیں؟‘‘ میری بیٹی اپنی چھوٹی چھوٹی ہتھیلیوں سے میرے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

میں خاموش آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بچپن کہیں گم ہوجائے، بچپن کے دوست ساتھی اگر بچھڑ جائیں تو اس درد کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ گھر لوٹ کر واپس نہ جانے کا درد صرف وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں، جو ہزاروں کلومیٹر دور یورو اور ڈالرز میں جشن آزادی منارہے ہیں۔ جو چاہ کر بھی واپس نہیں لوٹ سکتے۔

جشن آزادی مبارک دوستو! سنا ہے آج بھی میرے دیس میں چوری چوری امرود توڑے جاتے ہیں۔ سنا ہے آج بھی باغ کا مالک پکڑ کر درخت سے باندھ دیتا ہے۔ کتنی قسمت والی ہیں وہ آنکھیں جو یہ سب کچھ دیکھتی ہیں۔ سدا آباد رہیں وہ باغات، جن کے نیچے پورا بچپن گزر گیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

رضوان علی گھمن

رضوان علی گھمن

بلاگر اردو ادب کے نئے ابھرتے ہوئے ناول نگار ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر یورپ اور امریکا کے سفرناموں کے علاوہ رومانوی ایکشن اور تھرلر ناول بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔