نائیجیریا میں انسانی حقوق کا بحران

سید جواد حسین رضوی  بدھ 7 اگست 2019
نائیجیریا شکست و ریخت اور اندرونی خلفشار کی بدترین مثال ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نائیجیریا شکست و ریخت اور اندرونی خلفشار کی بدترین مثال ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

نائیجیریا کو یکم اکتوبر 1960 میں برطانیہ سے آزادی ملی، لیکن آبادی کے لحاظ سے افریقہ کے سب سے بڑے ملک کی بدقسمتی رہی کہ آزادی سے اب تک وہاں سیاسی استحکام زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکا۔ یہ ملک شکست و ریخت اور اندرونی خلفشار کی بدترین مثال ہے۔

نائیجیریا افریقہ کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کے مشرق میں کیمرون، مغرب میں بینن، شمال میں نائیجر اور جنوب میں خلیج گنی واقع ہے۔ اس ملک میں کم و بیش 250 کے قریب مختلف قبائل بستے ہیں، جن میں اکثریت شمالی حصے میں رہنے والے ہوسا قبائل کی ہے۔ ملک کے شمال میں مسلمان اور جنوب میں عیسائی اکثریت میں ہیں۔

آزادی کے چھ سال بعد 1966 میں یکے بعد دیگرے فوجی بغاوتیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں فوجی حکومت قائم ہوئی۔ اسی دوران ملک کے جنوب مشرقی حصے نے جمہوریہ بیافرا کے نام سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ جس کی وجہ سے نائیجیریا میں خانہ جنگی ہوئی، جو 1970 تک جاری رہی۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔

نائیجیریا میں برٹش راج کے دوران تیل کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں، جس کا فائدہ نائیجیریا کو ہوا، لیکن فوجی حکومت یہ پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے سے قاصر رہی۔ 1979 میں الیکشن منعقد ہوئے، جس کے نتیجے میں سول حکومت برسراقتدار آئی۔ لیکن 1984 میں میجر جنرل محمدو بوہاری نے فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت قائم کی، جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ ایک اور فوجی بغاوت کے نتیجے میں ایک سال بعد جنرل ابراہیم بابانگیڈا کی حکومت قائم ہوئی، جس نے 1993 میں شفاف الیکشن منعقد کئے۔ لیکن نتائج آنے پر خود ہی انتخابات کو کالعدم قرار دیا۔

1999 میں نیا آئین بنا اور اس کے بعد جمہوری حکومتوں کا آغاز ہوا، لیکن ملٹری اثرو رسوخ قائم رہا۔ 2015 میں وہی میجر جنرل محمدو بوہاری، جنہوں نے 1984 میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا تھا، اس بار انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آنے میں کامیاب ہوئے۔ 2019 میں دوبارہ الیکشن ہوئے جس میں محمد بوہاری پھر جیت گئے۔ ان انتخابات کو تمام غیر جانبدار ادارے مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔ ’’ایس بی ایم انٹیلی جنس‘‘ نامی ایک تنظیم، جو نائیجیریا کی معاشی و سیاسی حالات پر نظر رکھتی ہے، کا کہنا ہے کہ تقریباً 626 افراد اس الیکشن کی کیمپین سے لے کر نتائج تک قتل ہوئے۔ ملک کے مختلف حصوں میں حالات انتہائی کشیدہ رہے اور حسب معمول محمدو بوہاری پر طاقت کے ذریعے الیکشن جیتنے کا الزام لگا۔

نائیجیریا میں انسانی حقوق کی پامالی کا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ آزادی سے لے کر اب تک ان واقعات کا ایک تسلسل ہے۔ یہی محمدو بوہاری اپنے مختصر زمانۂ حکومت میں انسانی حقوق کو پامال اور آزادی رائے و اظہار کو سلب کرتے رہے۔ براعظم افریقہ کے پہلے ادب کا نوبل پرائز جیتنے والے نائیجیرین ادیب اور شاعر ’’وول سوئینکا‘‘ نے 2007 میں محمدو بوہاری کے جرائم پر ’’دی کرائمز آف بوہاری‘‘ کے نام سے کتاب لکھی تھی۔

پچھلے ماہ پوری دنیا کی توجہ نائیجیریا پر مرکوز ہوئی، جب ’’اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا‘‘ کے اہم رہنما شیخ ابراہیم زکزکی کی رہائی کا مطالبہ کرنے والے ہزاروں افراد نے دارالحکومت ابوجہ میں مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرے کئی روز تک جاری رہے۔ بالآخر حکومت نے ان پرامن مظاہرین پر 22 جولائی کو فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں گیارہ نہتے شہری جاں بحق ہوئے اور درجنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ سمیت متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں نے نہتے شہریوں پر طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی۔

شیخ ابراہیم زکزکی اور ان کی زوجہ زینت ابراہیم 2015 سے پابند سلاسل ہیں۔ فوج نے زاریہ نامی شہر میں ان کے مرکز پر حملہ کیا تھا، جس میں سیکڑوں افراد کو ناحق مارا گیا۔ شیخ زکزکی کے تین بیٹے اس حملے میں جاں بحق ہوئے اور شیخ کو تشدد کے بعد گرفتار کیا گیا۔ 2018 تک ان کو نامعلوم جگہ پر رکھا گيا، درحالیکہ دارالحکومت ابوجہ کی ہائی کورٹ نے 2016 میں ان کی قید کو بے جا قرار دیتے ہوئے 45 دن کے اندر ان کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ لیکن محمدو بوہاری کی آمرانہ حکومت نے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا۔ اس عمل کو ایمنسٹی انٹرنیشل نے نائیجیریا میں قانون کی بالادستی کےلیے سنگین خطرہ قرار دیا تھا۔

’’اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا‘‘ اور حکومت کے درمیان اس تناؤ کی تاریخ پرانی ہے، جو 1980 سے شروع ہوتی ہے۔ شیخ ابراہیم زکزکی ایک مسلمان عالم ہیں جو اسلام پسند ہیں اور ملک کے مسلم اکثریتی علاقوں میں اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ آپ ایک معروف شخصیت ہیں اور دنیا کے متعدد ممالک بشمول برطانیہ، فرانس، اسپین، ایران، لبنان، عراق، انڈونیشیا، ملائیشیا، نائیجر، الجزائر، گھانا، امریکا اور آذربائیجان میں مختلف کانفرنس اور سیمینارز میں شرکت کر چکے ہیں۔ 1980 میں انہوں نے شمالی نائیجیریا میں مذہبی اور سماجی فعالیت کا آغاز کیا۔ ان کی جماعت ’’اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا‘‘ متعدد رفاہی کاموں میں سرگرم رہی ہے۔ آپ کے مریدوں کی بڑی تعداد نائیجیریا اور ہمسایہ ملک نائیجر میں لاکھوں میں ہیں۔ ملک بھر میں اس ادارے کے 300 سے زائد اسکول ہیں، جبکہ زاریہ نامی شہر میں، جو شیخ زکزکی کا محل سکونت ہے، ایک اسپتال بھی موجود ہے۔ ملک کے شمالی حصوں میں جب دیگر اسلام پسندوں کی طرف سے مسیحیوں پر حملے ہوئے تو شیخ زکزکی اور ان کی جماعت نے کئی مسیحیوں کو پناہ دی، جو شہر زاریہ میں مقیم تھے۔ یہ بات ان کی امن اور مسالمت پسندی کی طرف واضح اشارہ ہے۔

شیخ زکزکی اسلام پسند ہونے کے باوجود کسی قسم کی عسکری کوشش کے مخالف رہے ہیں۔ ان کی جماعت سے وابستہ افراد کبھی عسکریت پسندی کی طرف راغب نہیں رہے۔ اس کے باوجود حکومت نے ہمیشہ شیخ زکزکی اور ان کی جماعت کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔ غالبا نائیجیرین حکومت لوگوں کو جمع کرنے اور ان کی تربیت کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہے۔

شیخ زکزکی 1981 سے اب تک مختلف ادوار میں بارہ سال پابند سلاسل رہے ہیں۔ پہلی دفعہ 1981 سے 1984 تک زندان میں رہے۔ 2014 میں عالمی قدس ریلی کے موقع پر جب آپ ہزاروں شہریوں کے ساتھ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے، نائیجیریا کی آرمی نے حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں 34 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں شیخ زکزکی کے تین بیٹے بھی شامل تھے۔ یاد رہے کہ اب تک آپ چھ بیٹوں کی قربانی دے چکے ہیں۔

اس واقعے کے بعد خدشہ ظاہر کیا گيا تھا کہ اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا ’’بوکو حرام‘‘ کی طرح اسلحہ اٹھا لے گی، لیکن انہوں نے پرامن رہنے کا اعلان کیا۔ اس واقعے کی حکومتی سطح پر تفتیش ہوئی لیکن ذمے داروں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا گيا۔ شیخ زکزکی نے ہیومن رائٹس کمیشن آف نائیجیریا سے رجوع کیا لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ مل سکا۔

دسمبر 2015 میں نائیجیریا کے آرمی چیف پر ایک ناکام قاتلانہ حملہ ہوا، جس کا الزام فوراً اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا پر لگادیا گیا۔ جماعت نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا۔ اس کے باوجود ان کے مرکز پر حملہ ہوا اور شیخ زکزکی کو قید کرلیا گیا۔ اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے دوران اور اس کے بعد حکومت نے کم از کم پانچ ہزار افراد کو قتل کیا اور ان کو اجتماعی قبروں میں مختلف جگہوں پر دفنا دیا۔ جبکہ حکومت اس الزام سے انکار کرتی ہے۔

موجودہ صورتحال کافی تشویشناک ہے۔ اس سے قبل 2009 میں ’’بوکوحرام‘‘ نامی دہشتگرد جماعت کے سربراہ محمد یوسف اور ان کے متعدد رشتے داروں اور ساتھیوں کو بھی حکومت نے قید کے دوران ماورائے عدالت قتل کردیا تھا۔ بوکوحرام اور ’’اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا‘‘ میں بہت فرق ہے۔

بوکو حرام تنظیم 2002 میں قائم ہوئی، جس کا ہدف شمالی نائیجیریا کو پاک صاف بناکر شریعت کا نفاذ کرنا تھا۔ بوکوحرام کا مطلب ہے، مغربی سیکولر تعلیم حرام ہے۔ یہ تنظیم نہ صرف حکومت کی مخالف ہے بلکہ مسلمانوں میں بھی وہ افراد جو اس تنظیم کی آئیڈیالوجی کو ماننے سے انکار کرے، ان کے خون کو مباح سمجھتی ہے۔ یہ تنظیم 2014 میں بہت مشہور ہوئی، جب انہوں نے ڈھائی سو کرسچین طالبات کو اغوا کرلیا تھا۔ 2015 سے اس تنظیم نے داعش کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیا ہے۔ بوکوحرام اب تک ہزاروں شہریوں کو براہ راست قتل کرچکی ہے۔ ان کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی ایک الگ داستان ہے۔

میامی یونیورسٹی میں سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر اور ’’دا ہسٹری آف این افریکن جہادسٹ موومنٹ‘‘ کے مصنف ایلکس تھرسٹن بوکو حرام اور اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا میں فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بوکو حرام ایک غیر مقبول تنظیم ہے۔ کسی بھی دور میں اس کے اراکین اور ہمدردوں کی تعداد دس ہزار سے زائد نہیں ہوئی، جبکہ اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا ایک مقبول عوامی جماعت ہے، جو سیاست سے دور ہے لیکن رفاہی، سماجی اور تبلیغی سرگرمیاں انجام دیتی ہے۔ اس ادارے سے منسلک افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے جن میں اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پروفیشنلز ہیں، جو مختلف عہدوں پر فائز ہیں، ان کے پاس کسی قسم کی عسکریت پسندی کےلئے وقت نہیں ہے۔

ایلکس تھرسٹن مزید لکھتے ہیں کہ اس جماعت پر پابندیوں اور سخت کریک ڈاؤن کا شدید نقصان ہوگا۔

نائیجیریا میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مختلف ایکٹویسٹ شیخ ابراہیم زکزکی کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ شیخ زکزکی کی حمایت میں جنوبی نائیجیریا کے عیسائی ایکٹویسٹ بھی بڑی تعداد میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ ریاست کڈونا کے سینیٹر اور ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ شیہو سانی کہتے ہیں کہ اس پرامن جماعت کو بین کرنا آزادی رائے اور اظہار کے منافی ہے، لہٰذا شیخ زکزکی کو جلد رہا کرنا چاہیے۔ شکاگو میں مقیم ’’سینٹر فار ریسرچ اینڈ گلوبلائزیشن‘‘ سے منسلک ایوارڈ یافتہ محقق اسٹیفن لینڈمین کہتے ہیں کہ شیخ ابراہیم زکزکی اور ان کی زوجہ کی طبیعت مسلسل حبس بے جا کی تکالیف اور عمر کی وجہ سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ کچھ ہفتے قبل پہلی دفعہ کسی غیر ملکی ڈاکٹر کو شیخ زکزکی تک رسائی دی گئی، جس میں وہ مختلف قسم کی شدید بیماریوں میں مبتلا پائے گئے۔ جس کےلئے کسی اچھے اسپتال میں ان کا فوری علاج بے حد ضروری ہے۔

دوسری طرف اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا حکومت پر زہر خورانی کا الزام لگاتی رہی ہے۔ اسٹیفن لینڈمین کہتے ہیں کہ محمدو بوہاری کورٹ آرڈر پر عمل کررہے ہیں اور نہ بیرون و اندرون ملک اٹھنے والی آوازوں پر کوئی توجہ دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اسٹیفن لینڈمین نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام ایک پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے۔

ایک مقامی عدالت میں شیخ زکزکی اور ان کی زوجہ کی ضمانت پر رہائی کی درخواست بھی زیر سماعت ہے، تاکہ وہ علاج معالجے کےلئے ملک سے باہر جاسکیں۔ اس وقت جبکہ محمدو بوہاری پر شیخ زکزکی کو رہا کرنے کےلئے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ بوہاری کب تک انسانی حقوق پامال کرتے رہیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید جواد حسین رضوی

سید جواد حسین رضوی

بلاگر اسلامی بینکاری کے شعبے سے منسلک ہیں۔ اس وقت ایک نجی بینک کے شریعہ کمپلائنس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے وفاق المدارس سے ’’الشہادۃ العالمیہ‘‘ اور عصری علوم کے لحاظ سے ایم بی اے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی jawadhussainrizvi پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔