دورِ جدید اور وٹہ سٹہ!

سائرہ فاروق  منگل 6 اگست 2019
وقت کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کیجیے

وقت کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کیجیے

یہ ایک طوفانی رات تھی۔ ہوا کے جھکڑ اور کڑکتی بجلی نے جیسے پہاڑی علاقے کی اس وادی کو ہائی جیک کرلیا تھا ۔ رہی سہی کسر تیز بارش سے پیدا ہونے والے شور نے پوری کر دی۔ لائٹ جا چکی تھی۔

صبح میرا پیپر تھا اور یہ صورتِ حال کافی تشویش ناک تھی۔کچن میں رکھی لالٹین لینے کے لیے ابھی اٹھی ہی تھی کہ کسی نے بے تابی سے صدر دروازہ پیٹنا شروع کر دیا، ساتھ ہی ایک عورت کی دہائی نے میرے بڑھتے ہوئے قدم روک دیے۔ اس سے پہلے کہ میں دروازے کی طرف بڑھتی، اباجی دروازہ کھول چکے تھے۔ میں نے انتہائی تیزی سے لالٹین روشن کی اور باہر نکلی تو ابا جی کے ہاتھوں میں گٹھڑی بنا ایک وجود دیکھا۔ ان کے پیچھے خمیدہ پشت ایک بوڑھی عورت تھی۔ اس اندھیرے میں بھی اس کے چہرے پر اذیت دیکھی جاسکتی تھی۔

لالٹین عورت کو پکڑائی اور اُس گٹھڑی نما وجود کو ابا جی کے ساتھ اندر لانے کی کوشش کرنے لگی۔ تبھی اچانک خون کی بُو میرے نتھنوں سے ٹکرائی، دل متلایا۔ اس ناگوار بُو کے باوجود ابا جی کسی ماہر کی طرح اسے ابتدائی طبی امداد دینے میں لگ گئے۔ اُن کا چہرہ بے تأثر تھا!

بوڑھی عورت نے زبان کھولی۔ ’’تین ماہ کا حمل ضایع ہوچکا ہے۔‘‘

’’کب۔‘‘ ابا جی کے استفسار پر اس نے افسردگی سے بتایا۔

’’آج‘‘۔

’’تو اسے یہاں کیوں لائی ہو؟ ابا جی تو چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں، گائنی کی ڈاکٹر کو دکھاؤ‘‘۔ میں نے شاید غیر انسانی لہجہ اپنایا تھا اور اس موقع پر ایسی بات مجھے سفاک اور بے رحم ثابت کرتی تھی۔ ابا جی نے ناگواری سے میری طرف دیکھا اور ڈپٹ کر کہا۔

’’لہجہ درست کرو۔‘‘

میں منہ پھلا کر اس عورت کی طرف دیکھنے لگی جو بے بسی سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میرے دل پر گھونسا سا لگا۔

’’زرمینہ، اسے فوراً اسپتال پہنچاؤ، میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا! یہاں شاید ہی کوئی ڈاکٹر یہ کیس لے، تم اسے ضلع اسپتال لے جاؤ۔ اباجی نے دھیمے لہجے میں تشویش کا اظہار کیا۔

’’ڈاکٹر صاحب میرا کوئی نہیں ہے، کہاں اسے لے کر جاؤں؟ میری پہنچ میں تو بس یہی دَر تھا۔‘‘ وہ سسک رہی تھی۔

لالٹین کی روشنی میں اس گٹھڑی نما وجود کو اب ذرا غور سے دیکھا، اس کا رنگ زرد پڑا جا رہا تھا اور ہونٹ نیلے!

اس پریشانی میں ابا جی نے کئی لوگوں کا نمبر ملایا مگر یہ کوشش بے فائدہ ثابت ہوئی۔

پھر وہ گاڑی نکالنے کے لیے تیزی سے باہر نکلے۔ جاتے جاتے مجھے اس لڑکی کو نیچے لے کر اترنے کی ہدایت کی۔ ہمارا گھر سڑک سے تقریبا دس فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ وہاں سے اس موسلا دھار بارش میں پتھر کی سیڑھیوں سے گزر کر اس لڑکی کو گاڑی تک پہنچانا کوئی آسان نہ تھا لیکن خدا کا نام لے کر قدم بڑھائے۔

خانی زمان جو یہاں سے مسافر کیری ڈبہ چلاتا تھا، اپنا گیراج بند کرتے ہوئے بول رہا تھا۔ ’’میں اپنی گاڑی میں لے جاتا مگر اس کے بریک کا مسئلہ ہے۔‘‘

ابا جی نے اسے مزید بولنے سے روک دیا، ’’کوئی بات نہیں میرے ساتھ بچی بھی ہے، اور اس وقت انہیں لے کر نکلنا خطرے سے خالی نہیں، تم گاڑی ڈرائیو کرو، ایسے میں ایک سے دو کا ہونا ضروری ہے۔‘‘ یوں ہمارا سفر اُس سڑک پر شروع ہوا جو خطروں سے بھری ہوئی تھی۔ بارش نہ ہوتی تو بھی اس روڈ پر شام ڈھلے کوئی گاڑی نہیں چلتی کیوں کہ اس علاقے اور اس کے راستوں پر لوٹ مار عام ہے اور ڈاکوؤؓں کی وجہ سے جان کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر اباجی نے اسے ساتھ چلنے کو کہا تھا۔

باہر تیز بارش نے گاڑی کے شیشوں کو اندھا کر رکھا تھا اور اندر اس لڑکی کی کراہیں دل کو چیرتی تھیں۔ اس کی بوڑھی ماں اس کے ماتھے پر جھک کر بوسہ دیتی۔ ایک ٹھنڈا، میٹھا بوسہ! جس کی تاثیر شاید اس لڑکی کو چند لمحوں کے لیے سہی تکلیف سے بیگانہ کر دیتی تھی۔

’’ ماں میں مَر جاؤں گی۔ اس نے کہا۔

’’کچھ نہیں ہوگا تمہیں۔‘‘ میں اچانک بول پڑی۔

فرنٹ سیٹ سے اباجی نے بھی حوصلہ افزا بات کی تو پہلی بار اس لڑکی نے آنکھیں کھولیں۔ یہ گہری سبز آنکھیں تھیں۔۔۔ گہری جھیل جیسی۔

’’آپ لکھتی ہیں نا، میری کہانی بھی لکھنا۔‘‘ اس نے مجھے پہچان لیا تھا۔ میں نے اثبات میں سَر ہلایا۔

’’میرا بچنا مشکل ہے باجی۔‘‘ وہ پھر بولی۔

’’ سب ٹھیک ہو جائے گا، تم دعا کرو۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔

ہم مقامی سرکاری اسپتال پہنچے اور توقع کے مطابق کیس بڑے اسپتال ریفر کر دیا گیا جہاں پہنچنے کے لیے مزید ایک گھنٹے کی مزید مسافت طے کی۔ وہاں پہنچے تو رات کے تین بجے تھے۔ مریض کی حالت دیکھتے ہوئے اسے فوراً آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔ باہر بیٹھے ہوئے ہم تمام لوگوں نے صبر آزما انتظار کاٹا۔ پانچ گھنٹے کے بعد بتایا گیا کہ مریض اب خطرے سے باہر ہے۔ اس کی جان بچا لی گئی تھی، مگر ڈاکٹروں کے مطابق وہ اب کبھی ماں نہیں بن سکتی تھی۔ اس سے بڑا دکھ شاید ایک عورت کے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

یہ کہانی اس لڑکی کے بڑے بھائی، جو بڑی منتوں مرادوں کے بعد اس کی ماں کی گود میں آیا تھا، اس سے جڑی ہوئی تھی۔ اسے جس لڑکی سے عشق ہوا تھا، اس سے شادی کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ اس گھر میں اپنی بہن دے گا۔ یہ وٹہ سٹہ تھا۔ سبز آنکھوں والی یہ لڑکی ایم اے پاس تھی جس کا بھائی، اپنی محبت کو پانے کے لیے اسے جس مرد کے نکاح میں دے رہا تھا، وہ میٹرک پاس اور بے روزگار تھا۔ اس خاندان کی اپنی زمینیں، زمین داری تھی۔ رشتہ یہ کہہ کر ڈالا گیا کہ لڑکا اپنی ’’زمین‘‘ سنبھالتا ہے۔  اور پھر بھائی تو شادی کے بعد اپنی بیوی کو لے کر دوسرے شہر چلا گیا، مگر بہن کو ایسی دوزخ میں چھوڑ گیا جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ اس کے سسرالی جان چکے تھے کہ اُن کی بیٹی کا مستقبل محفوظ اور وہ خوش حال ہے۔ ان کا داماد اس کے اشاروں پر ناچنے کو تیار ہے۔

اس نے اپنی تعلیم یافتہ بہن کو ہمارے میٹرک پاس اور بے روزگار بیٹے کو سونپ کر یہ بتا دیا ہے کہ اسے صرف اپنی خوشی عزیز ہے۔ ایسے میں یہاں موجود اس کے بوڑھے والدین بھی کیا کرلیں گے؟ تب ان کی جانب سے فرمائشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جسے پورا کرتے کرتے غریب باپ بالآخر مر گیا اور پھر جب بوڑھی ماں یہ سب نہ کرسکی تو اس کی بیٹی پر اس طرح جسمانی تشدد کیا گیا کہ اس کا حمل ضایع ہوگیا اور اسے اسپتال لے جانے کے بجائے بوڑھی ماں کی دہلیز پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ اس بے جوڑ رشتے نے ایک عورت کو ہمیشہ کے لیے ماں بننے سے محروم کردیا تھا۔ اوّل تو دوسری شادی ہی ایک مسئلہ تھی اور پھر ایسی عورت کو کون قبول کرتا جو اولاد جیسی خوشی دینے کے قابل نہ ہو؟ ہمارا سماج تو اس بیوہ عورت کو قبول کرنے میں ہچکچاتا ہے جو ہر لحاظ سے صحت مند اور توانا ہوتی ہے۔

بدقسمتی سے 70 سے 80 فی صد وٹے سٹے کی شادیوں کی بنیاد یہی ہے کہ پاکستانی سماج میں خواتین کو جیتے جاگتے انسان کے بجائے ملکیت تصور کیا جاتا ہے۔ بیٹی کا رشتہ دینے کے بدلے میں بیٹی لینے والی یہ رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے جب کہ اس کے بھیانک نتائج اور ایسی شادیوں کا الم ناک، روح فرسا انجام بھی ہم جانتے ہیں۔ اس کی شروعات زمین اور اثاثے تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے ہوئی اور آج تک یہ رواج نسلوں کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ یہ شادی صرف دیہات میں ہی نہیں کی جاتی بلکہ شہروں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو خاندان، ذات برادری میں ادلے بدلے کا رشتہ کرنے کو دو خاندانوں کے تعلقات کی مضبوطی اور رشتوں کی پائیداری کی ضمانت سمجھتے ہیں۔

ایسے رشتوں میں لڑکی کی رضامندی نہیں دیکھی جاتی۔ اکثر بے جوڑ رشتے بھی بہت آرام سے طے کر لیے جاتے ہیں جس سے نفسیاتی و سماجی مسائل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔  ایسے رشتوں میں لڑکے کی عمر دیکھی جاتی ہے نہ تعلیم۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اس صورتِ حال میں نکمے اور گنوار لڑکے کی شادی ہونے کا بھی امکان بڑھ جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وٹہ سٹہ میں 17، 18 برس کی یا اس سے بھی کم عمر لڑکی اپنے سے دگنی عمر کے مرد کے نکاح میں بھی دے دی جاتی ہے اور کوئی بھی اسے اخلاقی یا قانونی جرم نہیں سمجھتا بلکہ ایسا کرنے والے اپنی طرف سے ایک نیک کام انجام دے کر خود کو پُرسکون محسوس کرتے ہیں۔

لڑکی کا احتجاج یا انکار خاندان کی عزت و ناموس پر ضرب سمجھا جاتا ہے اور بزورِ طاقت اسے رد کیا جاتا ہے۔ وٹہ سٹہ جیسا ایک اور جابرانہ اور ظالمانہ فیصلہ پیدائش سے قبل ہی یا کم سنی میں رشتہ طے کر دینا بھی ہے جس کا انجام اکثر ہول ناک صورت میں سامنے آتا ہے۔ لڑکی شادی ہونے تک ’’منگ‘‘ کہلاتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے شادی نہ ہو سکے تو مرد اپنی منگ کو کسی دوسرے کا ہوتا دیکھنا بے غیرتی سمجھتا ہے۔ ایسی لڑکیاں یا تو مار دی جاتی ہیں یا پھر ڈر کے مارے کوئی ان کا رشتہ نہیں کرتا۔

بچپن کے طے کردہ رشتے کبھی ایک اور کبھی دونوں فریقوں کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں۔ وٹے سٹے کی شادی اکثر ناکامی کا شکار رہتی ہیں، اس کے باوجود آج بھی کئی خاندان اسے اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسا کرنے کی کئی وجوہ اور اسباب ہو سکتے ہیں جن میں سرِفہرست سماجی اور معاشی مجبوریاں ہیں اور دوسری جانب یہ  سوچ اس طرح خاندان اور رشتے داریاں مزید مضبوط ہوں گی اور بیٹیاں محفوظ رہیں گی۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ اکثر وٹہ سٹہ کی شادی میں دو گھرانے اپنا مفاد ہی دیکھتے ہیں۔ اس میں کسی بھی معاملے اور موقع پر ایک کو زبردستی گھر بھیج کر یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ اپنی بیٹی بسانی ہے تو ہماری بھی بساؤ۔ اور یوں  ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باوجود دو افراد جبراً ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔

ایسی شادیاں جوابی کاروائی کا مؤثر ہتھیار ثابت ہوتی ہیں اور لڑکی کے سَر پر عدم تحفظ کی تلوار ہمیشہ لٹکی رہتی ہے کہ نہ جانے کب کیا ہو، اور وہ جس گھر ہنسی خوشی رہ رہی ہے کس جرم کی پاداش میں اسے چھوڑنا پڑے۔ ایسے جوڑوں کی اولاد بھی شدید ذہنی اذیت سے گزرتی ہے۔ کبھی ننھیال اور کبھی ددھیال کے رستے ناپتے یہ کچے ذہن ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

وٹہ سٹہ ایک دباؤ بھی ڈالتا ہے کہ جس میں اپنی بیوی سے برا سلوک اور ناانصافی کرنے والا سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کا اثر اس کی بہن پر بھی پڑے گا اور اس کا سالا بھی اس کی بہن کو گھر نہ بھیج دے۔ اس طرح کا خوف اور پریشانی فریقین میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا ایسی شادیاں کم تنخواہ اور غیر یقینی ذرایع آمدن کے حامل غریب خاندانوں کے بیچ وہ کردار ادا کرتی ہیں جس سے طلاق کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ تاہم یہ کوئی کلیہ اور طے شدہ بات نہیں ہے۔ کیوں کہ زیادتی یا بدسلوکی کے جواب میں ویسا ہی سلوک اپنانے کا جو نظریہ دونوں عورتوں کے لیے ڈھال اور دیوار ہے اگر اس کے برعکس معاملہ ہو جائے تو ہنستا بستا گھر اور جیتی جاگتی عورتوں کی زندگی برباد ہو سکتی ہے۔

لہذا ایسی شادیوں کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ یہ کم ہی دیکھا یا پرکھا جاتا ہے کہ غلطی پر کون ہے۔ ایک طرف طلاق ہو جائے تو دوسری کو بے گناہ ہونے کے باوجود طلاق دے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے یا کم سے کم سزا یہ ہو سکتی ہے کہ اس کا تعلق میکے سے ختم کروا دیا جاتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ وٹہ سٹہ سے گریز کیا جائے، کیوں کہ شادی کا یہ بندھن دو خاندانوں کو جوڑتا اور ان کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتا ہے، لیکن اس پُل کے ٹوٹنے سے دو خاندان تباہ و برباد بھی ہوسکتے ہیں۔ دقیانوسی، فرسودہ سوچ اور غلط فیصلے لڑکیوں کی پوری زندگی جہنم بنا دیتے ہیں۔ کیا موجودہ دور میں بھی نام نہاد رسموں اور رواجوں پر عمل کرکے ہم خاندان اور معاشرے کے لیے بہترین مثال بن سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔