میرا نام کراچی

مدثر حسیب  جمعرات 8 اگست 2019
میں کراچی ہوں جو اپنی روشنی سے پورا ملک روشن کرسکتا ہوں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میں کراچی ہوں جو اپنی روشنی سے پورا ملک روشن کرسکتا ہوں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میرے نام سے تو ہر کوئی واقف ہے، کراچی۔ مجھے ایک دن کےلئے زبان ملی ہے تاکہ میں اپنے دل کی بات کرسکوں۔ میری عمر تو بہت زیادہ ہے۔ کئی سال اور کئی صدیاں دیکھ چکا ہوں۔ کتنے ہی موسم آئے اور آکے گزر گئے، زندگی کے کتنے رنگ دیکھ چکا ہوں۔ دنیا کتنی عجیب ہے، یہ مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ میں نے کتنے بادشاہوں کو گدا اور فقیروں کو بادشاہ بنتے دیکھا ہے۔ یہ میرا ہی ساحل تھا جہاں سے یونانیوں نے بابل جاتے ہوئے پڑاؤ کیا تھا۔ میرے ہی علاقے کی ایک بیٹی کی آواز پر دنیا کے پرامن ترین دین اسلام کے پیروکاروں نے مجھے مشرف بہ اسلام کیا تھا اور یہیں سے روشنی آگے کو پھیلی تھی۔ انہوں نے ہی مجھے دیبل کہہ کر پکارا تھا۔ پھر ایک وقت میں مغلوں اور بعد میں انگریز نے میری بندرگاہ کو استعمال کیا۔ اسی دوران میرا نام کولاچی پڑگیا، جو بعد میں کراچی ہوگیا۔

میرے ہی ایک بیٹے نے برصغیر کے مسلمانوں کےلئے الگ وطن پاکستان کی بات کی اور پاکستان کا سب سے اہم شہر ٹھہرا۔ یہ میں ہی تھا جس نے لوگوں پر تنگ ہوتی زمین میں ہندوستان، بنگلہ دیش، روہنگیا اور افغانستان سے آنے والے مسلم بھائیوں کو پناہ دی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد میں ہی پاکستان کی حکومت چلانے لگا تھا۔

وقت گزر رہا تھا، میرے لوگ مجھ پر پلاننگ سے محنت کر رہے تھے اور ان کی محنت رنگ لانے لگی۔ میں ترقی کرنے لگا۔ میں ایشیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرتا ہوا شہر بن گیا، جبکہ دنیا میں میرا مقابلہ نیویارک، پیرس اور دیگر نئے بننے والے شہروں سے ہونے لگا۔ میری اسٹاک ایکسچینج دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی مارکیٹ تھی۔ میرا پانچ سالہ منصوبہ سیئول (جنوبی کوریا) نے کاپی کیا۔ میری سڑکوں اور نئی بلڈنگوں نے شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیے تھے اور میری ٹریفک کو کنٹرول کرنے والی بہترین پولیس موجود تھی۔ پوری دنیا سے انویسٹمنٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ایک دوڑ لگ گئی اور سب میری طرف دوڑ رہے تھے۔ مجھے ایشیا کی وال اسٹریٹ کہا جانے لگا۔ کراچی کا صدر، اس وقت کا دبئی اور میری بندرگاہ اپنے وقت کی ہانگ کانگ تھی۔ ہر طرح کا فن اور آرٹ پھل پھول رہا تھا۔ اردو بولنے والے اردو کی خدمت کررہے تھے، ان کے قلم سے شاہکار نکلتے تھے۔

میری سڑکیں راتوں کو روشن، دن خوشگوار، بازار پررونق، آبادی مطمئن، نوجوان پڑھے لکھے اور بزرگ پرسکون تھے۔ ان سب چیزوں سے میرا نام ’’روشنیوں کا شہر‘‘ پڑ گیا دیا۔

دنیا بھر کے سیاح میری گلیوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ نہ کوئی سندھی تھا، نہ بلوچ، نہ مہاجر اور نہ ہی پختون۔ اردو، سندھی اور پشتو بولنے والے اکٹھے رہتے تھے۔ مسلم، عیسائی، یہودی اور ہندو مل جل کر رواداری سے رہتے اور مل کر کام کرتے تھے۔

تین تلوار شہر میں ایک دلکش جگہ تھی، پھر شاہراہ فیصل بنی، جس کے اردگرد خوشنما درختوں کے جھنڈ تھے۔ میرا ہاکس بے اور کلفٹن کا ساحل صاف ستھرا اور سیاحوں کی مین اٹریکشن تھا۔ جہاں پر یورپی، امریکی اور عرب سیاح گھومتے ہوئے ملتے تھے، اور ان کے ہاتھوں میں میری سیاحت کا بروشر یا نقشہ ہوتا تھا۔ تمام بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پاکستان اور جنوبی ایشیا کےلئے ہیڈ آفسز میرے پاس ہی لگائے۔ اسٹیل مل اور پی آئی اے بھی پورے ملک کی ضرورت یہیں سے پوری کررہے تھے۔ واکس ویگن بھی اپنی ضروریات کےلئے میری اسٹیل مل سے مل کر کام کرتی تھی، جبکہ پی آئی اے سنگاپور ایئرلائن، ایمریٹس، اتحاد، اور مالٹا ایئرلائن کو اڑنا سکھا رہی تھی۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج ایشیا کی دوسری نئی اسٹاک مارکیٹس کو کونسلنگ دے رہی تھی۔ سب کچھ بہت اچھا اور بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔

پھر اچانک ہی مجھے اپنوں کی نظر لگ گئی۔ میری دنیا ہی بدل گئی۔ سب ختم ہوگیا۔ کیا نہیں ہوا میرے ساتھ؟ میں بجھی ہوئی شمع بن گیا۔ میرے بچوں کے ہاتھوں میں مستقبل کے بجائے کلاشنکوف آگئی۔ قانونی تجارت کے بجائے ہیروئن کی تجارت ہونے لگی۔ میرے لوگوں کو چن چن کر مارا گیا۔ میرے بچے کالج جاتے ہوئے اندھی گولیوں کا نشانہ بننے لگے۔ بوری بند لاشیں اور گولیاں، یہی میری نئی پہچان بنی۔ میری روشنیاں کہیں دور بجھ گئیں۔ میرے دن سوگوار اور راتیں کالی ہوگئیں۔ بازار گولیوں سے گونجنے لگے۔ میرے تاجر بھتہ دینے پر مجبور ہوگئے۔ میری عید میں خوشی نہ رہی، میرے ہاں قربانی کی کھالوں سے اسلحہ لیا جاتا۔ مسلمان کو ہندو سے لڑوایا گیا، مسلمان کو مسلمان نے مارا۔ قانون ناپید اور قانون نافذ کرنے والے لا قانون بن گئے۔ اردو بولنے والے کب اردو کی خدمت بھول گئے، معلوم نہیں۔ آمریت نے مجھ سے بے وفائی کی اور جمہوریت نے مجھ سے بدلہ لیا۔ میں نے کیا بگاڑا تھا ان کا؟ میں نے سب کو ٹرائی کیا لیکن سب نے مجھے دھوکا دیا۔ کسی نے سندھی بن کر، کسی نے مہاجر بن کر اور کسی نے اسلامی بن کر، کوئی بھی پاکستانی نہ بنا، کوئی بھی مسلمان نہ بنا۔ کیا یہ سیاست ہے؟ یہ تو دھوکا ہے، جو میرے لوگوں کو دیا گیا۔ کیا کبھی ایسا کہیں اور بھی ہوا؟

وقت کے ساتھ میری بیماری بڑھتی گئی۔ میری بیماریوں کا کئی بار آپریشن کیا گیا، لیکن میری بیماری ہر بار پہلے سے زیادہ بڑ ھ جاتی۔ کیونکہ ڈاکٹرز ہمیشہ آدھا آپریشن کرتے تھے۔ معلوم نہیں ان کی کیا مجبوریاں تھیں۔ میں جو کبھی کاسموپولیٹن تھا، اب صرف پولیوٹڈ ہوں۔ پہلے رنگدار تھا اب بے رنگ ہوں۔ کوئی بھی میرے ہاں آنا یا آکر رہنا پسند نہیں کرتا تھا۔ سیاح تو دور کی بات میرے اپنے لوگ دوسرے شہروں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھاگ گئیں۔ بینکوں نے اپنے ہیڈ آفس شفٹ کرنے شروع کردیے۔ اسٹاک ایکسچینج ایشیا کی سب سے بری پرفارمنس والی مارکیٹ بن گئی۔ میری ایئرلائن میں سیاسی شعبدہ بازی سے نااہل لوگ بھرتی کیے گئے، جنہوں نے میرے جہاز تک بیچ ڈالے۔ میری اسٹیل مل کا ایک ایک کیل اور پرزہ تک نکال کر بیچ ڈالا۔ میرا مزدور بے روزگار ہوگیا۔

قبضہ مافیا نے میرے جسم کا ایک ایک حصہ ادھیڑ کر بیچ ڈالا۔ میرے لوگ رل گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میرے ساتھ، میرے جیسے نئے شہر بسائے جاتے، لیکن سارا بوجھ مجھ پر ہی ڈال دیا گیا۔ اب میرا انتظامی ڈھانچہ کسی ایسی لاش کی مانند ہے، جس کا پوسٹمارٹم بھی کوئی نہیں کرنا چاہے گا۔ میرے لوگوں کو کچھ بھی خالص نہیں ملتا، حتیٰ کہ کھانے کو بھی کچھ خالص نہیں۔ نہ تیل، نہ گوشت، نہ دودھ۔ جگہ جگہ گندگی، تعفن اور بدبو کے ڈھیر لگے ہیں۔ ذمہ دار اپنی ذمے داری لے کر راضی نہیں۔ پینے کےلئے پانی نہیں، سیوریج کےلئے سسٹم نہیں۔ میرے لوگ جو باذوق ہونے کی وجہ سے مشہور تھے، پان اور گٹکا کھانے لگے۔ یہی سیاسی شعبدہ باز مجھے کرانچی کہہ کر میرا مذاق اڑانے لگے۔ انہیں اندازہ نہیں کہ میں کیا ہوں؟ انہیں صرف اپنے مفاد سے مطلب ہے۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ میری آدھے سے زیادہ آبادی کچی آبادی ہے۔ جہاں کی گلیاں تنگ اور گلی سڑی ہیں۔ جہاں ایک دن کی بارش سے گھروں میں پانی چلا جاتا ہے اور پھر میرے بچے ڈول بھر بھر کر پانی نکال رہے ہوتے ہیں۔ جہاں استعمال کو بجلی نہیں، لیکن کرنٹ سے لوگ مر رہے ہیں۔ جبکہ پوش ایریا، جیسے کنکریٹ کا ایک ڈھیر ہو، بلیک اینڈ وائٹ کوئی سین ہو۔ نہ سبزہ ہے، نہ کوئی درخت۔ دیواریں کھڑی کرکے، سیمنٹ بھر کر بس بیچ دیا مجھے۔

لیکن نہیں! اب پھر کچھ امید لگی ہے۔ میرے بیٹوں نے قربانیوں سے امن قائم کیا ہے۔ لیکن مجھے لگاتار امن چاہئے۔ میرے بچو! ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ابھی راستہ کٹھن ہے۔ میری روشنیاں ابھی مکمل روشن نہیں ہوئیں، ابھی کچھ لوگ سازشوں میں لگے ہیں۔ میرے لوگوں کو ان سازشیوں سے بچالو، مجھے بچا کر تو دیکھو ایک بار۔ میں بوڑھا ضرور ہوں لیکن ناکارہ نہیں۔ میں ابھی بھی اپنی روشنی سے پورا ملک روشن کرسکتا ہوں۔ ہاں، میں ابھی بھی وہی کراچی ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدثر حسیب

مدثر حسیب

بلاگر نے مالیات (فائنانس) کے شعبے میں ایم فل کیا ہوا ہے اور دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ آج کل متحدہ عرب امارات میں بھی شعبہ مالیات میں کام کررہے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔