کشمیر پر بھارتی ’قانونی جارحیت‘ اور ممکنہ آپشنز

بھارتی حکومت کشمیر کی آئینی اور جغرافیائی حیثیت کے خلاف ایک نئی جارحیت کی مرتکب ہوئی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بھارتی حکومت کشمیر کی آئینی اور جغرافیائی حیثیت کے خلاف ایک نئی جارحیت کی مرتکب ہوئی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم ابھی ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی کے بیان پر ٹھیک سے خوشی بھی نہ منا پائے تھے کہ مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ہے۔ اس وقت کشمیر میں شدید غم و غصہ کے ساتھ خوف، غیر یقینی اور مایوسی کی فضا قائم ہے۔ کیونکہ بھارتی حکومت کشمیر کی آئینی اور جغرافیائی حیثیت کے خلاف ایک نئی جارحیت کی مرتکب ہوئی ہے۔

کل تک کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت حاصل تھی، جو کہ آئین کی دفعہ 35 اے کے تحت کشمیر کی ریاستی اسمبلی کو جداگانہ کشمیری تشخص کے تحفظ کےلیے مستقل رہائش اور جائیداد کی خرید و فروخت وغیرہ کے معاملے میں امتیازی قوانین بنانے کا اختیار دیتی تھی۔

درحقیقت یہ قوانین بھارت کی آزادی اور کشمیر پر قبضے سے بھی پہلے کے ہیں، جو کسی بھی غیر کشمیری کو سرکاری ملازمتوں، شہریت اور رہائش جیسے امور میں کشمیریوں پر حاوی ہونے سے بچانے کےلیے کشمیر میں آباد پنڈتوں کی تحریک پر ڈوگرہ راج میں 1912 سے 1932 کے دوران نافذ کئے گئے تھے۔ 1947 میں کشمیر پر بھارتی قبضے اور الحاق کے قانونی پہلوؤں میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے ریاستِ کشمیر کو داخلی خودمختاری کی ضمانت دیتے ہوئے دلی سرکار کا دائرہ اختیار صرف دفاع، امورِ خارجہ اور مواصلات تک محدود کرتی تھی اور اس دفعہ کی موجودگی میں دلی سرکار آئینی اور قانونی طور پر ریاستی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پابند تھی۔

بی جے پی اور دیگر دائیں بازو کی انتہاپسند ہندو پارٹیاں کافی عرصے سے کشمیر کے جداگانہ تشخص کو کشمیر کے مسئلے کی وجہ قرار دے کر ایسی تمام دفعات کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور حالیہ انتخابات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اس معاملے کو اپنے انتخابی منشور میں کافی اہمیت و شدت کے ساتھ شامل کیا اور اس پر ووٹ لیے، اور آج وہ اپنے اس انتخابی وعدے کو پورا کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔

کشمیریوں کا خوف اس لحاظ سے بجا ہے کہ اگر کسی غیر کشمیری کو مستقل رہائش اور شہریت کا حق حاصل ہوجائے تو بھارتی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ لازمی طور پر کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرتے ہوئے کشمیریوں کو اقلیت بنا دیں گے۔ کشمیری جو کہ اس وقت شدت کے ساتھ تشخص کے بحران یا آئیڈنٹیٹی کرائسس کا شکار ہیں، ان کےلیے آج تک یہ دفعات ہی بھارتی آئین میں ان کے تشخص کی ضمانت رہی ہیں۔ ان دفعات کی تنسیخ نے وادی میں عدم تحفظ اور محرومی کے احساسات کی شدت میں اضافہ کرتے ہوئے وادی کی سیاسی صورتحال کو گھمبیرتر کردیا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان اس وقت ایسی صورت حال کا شکارہے جہاں ایک طرف اقتصادی حالت ناگفتہ بہ ہے، تو دوسری جانب بھارت کی لابنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں کشمیر پر کوئی بھی ہماری بات سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کےلیے کیا کرسکتا ہے؟

یہ عاجز اس بات کا بخوبی ادراک رکھتا ہے کہ ایسے حساس معاملات اس کی اوقات اور دسترس سے دور ہیں اور ریاست کے دائمی ادارے خواہ وہ راولپنڈی میں ہوں یا اسلام آباد میں ’رموزِ خسرواں خسرو داند‘ کے مصداق اپنے فرائض گزشتہ ستر برس سے بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں، مگر پھر بھی چھوٹا منہ اور بڑی بات والی جسارت کرتے ہوئے چند گزارشات مندرجہ ذیل ہیں:

سب سے پہلا کام جو کیا جا نا چاہیے وہ یہ ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں کشمیر کی موجودہ صورتحال پر ایک تحریک جمع کروائے۔ اس وقت دو برادر اسلامی ممالک کویت اور انڈونیشیا سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن ہیں، ان کی مدد سے یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ مگر بھارتی لابی کا توڑ کرنا شاید ہماری قسمت میں نہیں ہے۔

اس وقت امریکا افغانستان سے نکلنے کےلیے بیتاب ہے اور اس کا سارا انحصار پاکستان کے طالبان پر ’رسوخ‘ پر ہے۔ تاریخ سے یہی سبق لیا جاسکتا ہے کہ امریکا سے ہم جو بھی اپنا کام نکلوا سکتے ہیں، اس کا یہی وقت ہے۔ وگرنہ جنیوا معاہدے پر دستخط ہوتے ہی پریسلر ترامیم آتی ہیں۔ جس طرح بھارت امریکا کو یہ باور کروا سکتا ہے کہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ استعمال کرنا اس کی اقتصادی و تزویراتی مجبوری ہے۔ اسی طرح مجھے یقین ہے کہ ہمارے دفتر خارجہ میں بھی ایسے ہونہار افسروں کی کوئی کمی نہیں ہوگی جو امریکا کو یہ سمجھا سکیں کہ بھارت کی ایسی کسی حرکت کی وجہ سے پاکستانی قوم کا ردعمل ہمارے سیکیورٹی اور دیگر اداروں کی توجہ ہماری مغربی سرحد سے مشرق کی جانب موڑنے پر مجبور کردے گا۔

یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان صدر ٹرمپ کو ایک فون کال کرکے انھیں یہ حالات بتائیں تو وہ یقیناً اپنے آنے والے صدارتی انتخابات کی مہم میں ایسی کسی رکاوٹ کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

تیسرا راستہ بھارت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس معاملے کو عالمی عدالتِ انصاف میں اٹھانا ہے۔ کشمیر کا بھارت سے الحاق اور اس سے متعلق آئینی دفعات اور دیگر امور قانونی نوعیت کے حامل ہیں جن کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے کر جانا پاکستان کا حق ہے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے، جسے اقوام متحدہ نے اپنی کئی قراردادوں میں تسلیم کیا ہے۔ اس کی حیثیت میں کسی بھی یک طرفہ تبدیلی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا جانا چاہئے۔

بھارتی سرکار کی طرف سے صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر سے متعلق آئینی دفعات کو ختم کرنے کے بعد اس صورت میں فوری عمل درآمد رکوانے کےلیے عالمی عدالت انصاف سے حکمِ امتناعی یا اسٹے لیا جاسکتا ہے، جیسے بھارت نے کلبھوشن کی سزا کے معاملے پر لیا۔

ایک اہم کام جو کافی پہلے ہوجانا چاہئے تھا، مگر دیر آید درست آید اب بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ اگر حالاتِ حاظرہ سے خود کو واقف رکھتے ہیں تو آپ کو یقینا اسکاٹ لینڈ اور کیٹالونیہ میں منقعد ہونے والے علیحدگی کے ریفرنڈمز کا علم ہوگا۔ یہ دونوں خطے اپنے اپنے ممالک برطانیہ اور اسپین سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ ان علاقوں کی صوبائی یا علاقائی اسمبلی میں وہاں کے علیحدگی پسند سیاسی جماعتیں انتخابات جیت کر آئیں، اکثریت کے ساتھ اپنے صوبے میں حکومت بنائی اور لوگوں سے علیحدگی کے بارے میں ان کی رائے پوچھی۔ اسکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں بہت معمولی فرق سے لوگوں نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس نتیجے کو اسکاٹش نیشنل پارٹی نے تسلیم کیا، مگر آئندہ برسوں میں دوبارہ اس ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان بھی کیا۔ جبکہ کیٹالونیہ میں اسپین کی مرکزی حکومت نے ریفرنڈم کے دوران پڑنے والے ووٹوں کی گنتی زبردستی روک دی۔

بادی النظر دیکھا جائے تو دونوں ریفرنڈمز اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے اور اس وقت اسکاٹ لینڈ اور کیٹالونیہ برطانیہ اور اسپین کا حصہ ہیں مگر ان ریفرنڈمز کو ملنے والی میڈیا اٹینشن کی وجہ سے پوری دنیا کو یہ اندازہ ہوگیا کہ ایڈنبرگ لندن کے ساتھ اور بارسلونا میڈریڈ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ہیں۔

اب اس واقعے کو اگر کشمیر کے تناظر میں دیکھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ کشمیری تقریباً ایک صدی سے اپنے حقِ خود ارادیت کےلیے لڑ رہے ہیں، مر رہے ہیں، مگر ہماری کچھ غلطیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے بڑی کامیابی سے کشمیریوں کی جدوجہد کو سرحد پار دہشت گردی قرار دلوادیا ہے۔ کشمیر میں صرف ہندو نواز پارٹیاں جیسے عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار انتخاب لڑتے اور جیتتے چلےآرہے ہیں، جبکہ علیحدگی پسند پارٹیوں کا اتحاد ’آل پارٹیز حریت کانفرنس‘ اصولی طور پر کشمیر پر بھارت کے قبضے کو غیر قانونی سمجھتا ہے اوراسی لیے ان کا کوئی بھی امیدوار کسی بھی انتخاب میں حصہ نہیں لیتا۔ چاہے وہ ریاستی اسمبلی کا انتخاب ہو یا لوک سبھا کا۔

میں اگرچہ حریت کانفرنس کے اصولی موقف کی تائید کرتا ہوں کہ بھارتی آئین کے تحت انتخاب لڑنا بھارت کے قبضے کو تسلیم کرنے کے برابر ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ ایک ایسے ’اسٹیل میٹ‘ میں پھنس چکے ہیں، جس سے نکلنے کا فی الحال کوئی راستہ سجھائی نہیں دےرہا اور اگر کوئی راستہ مل بھی جائے تو اس ’اسٹینڈ آف‘ سے پیچھے ہٹنا ان کے اصولی موقف کو کمزور کردے گا۔ لیکن اگر دیکھا جائے کہ حریت کانفرنس کا کوئی درمیانے یا نچلے درجے کا لیڈر آزادانہ حیثیت میں ریاستی اسمبلی کا انتخاب لڑکر جیت جاتا ہے تو وہ اپنی آزادانہ حیثیت میں علیحدگی کے ریفرنڈم کی قرارداد پیش کرسکتا ہے، اور جتنے زیادہ ممبروں کی تائید کے ساتھ یہ قرارداد پیش اور منظور ہوگی اتنا بڑا پیغام باہر کی دنیا کو جائے گا۔

اس قرارداد کی پیشی کے بعد بھلے ریفرنڈم نہ ہو، مگر بھارتی سرکار کا پہلا ردعمل ریاست میں گورنر کے ذریعے صدارتی راج کا نفاذ ہوگا اور عوام کی آواز کو فوج کی مدد سے سختی سے دبانے کی کوشش کی جائے گی۔ کشمیری عوام اس اسمبلی کی تحلیل کے خلاف احتجاج کریں گے، جو ان کی آرزؤں کی ترجمانی ہوگی۔ اگر اس اسمبلی کی تحلیل کے معاملے کو مناسب طریقے سے اٹھایا جائے اور مغربی عوام میں اس کی تشہیر کی جائے، جیسا کہ بھارت بلوچستان کے سلسلے میں بسوں اور جہازوں کے ذریعے کرکٹ ورلڈ کپ کے موقع پر اور اس سے پہلے کرتا رہا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر کیمبرج اینالیٹیکا وغیرہ کی مدد لی جائے تو شائد کسی حد تک بھارت کے ’سرحد پار دہشت گردی‘ والے بیانیے کا توڑ کیا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔