نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی

انتظار حسین  جمعرات 19 ستمبر 2013
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

سب سے بے اعتبارا کھیل کرکٹ کا کھیل۔ اور سب سے بے اعتباری مخلوق کرکٹ کھلاڑیوں کی مداح مخلوق۔ کم از کم پاکستان میں کرکٹ کے نشیب و فراز اور کرکٹ کے سپر اسٹاروں کے عروج و زوال کے تماشے کو دیکھ کر ہم نے یہی جانا ہے۔ تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ ارے ابھی کل پرسوں مصباح الحق پر داد کے ڈونگرے برس رہے تھے۔ واہ واہ سبحان اللہ کیا کمال کا کھلاڑی ہے اور کیا کمال کا کیپٹن ہے۔ بیچ کھیت کھیلتا ہے اور نصف سنچری تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ زمبابوے ہی کے مقابلے میں کھیلتے ہوئے اسے یہ داد ملی اور زمبابوے ہی کے کھیل میں جب میچوں کے سلسلے کے ایک کھیل میں پاکستان کی ٹیم ہار گئی تو اس پر بیداد کے تیر برسنے لگے۔

عام مداحوں کی یا جنھیں پروانے کہتے ہیں ان کی بات جانے دیجیے۔ ان کا تصور تو یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم ہر میچ میں جیتنے کی حقدار ہے۔ جن کے مقابل وہ کھیلتی ہے انھیں ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ جیت پاکستانی ٹیم کے مقدر میں لکھی گئی ہے۔ اگر وہ ہارتی ہے تو وہ جان کر خراب کھیلتی ہے اور مخالف ٹیم کو جیت پلیٹ میں رکھ کر پیش کرتی ہے۔ اور پھر وہ ایک ایک کھلاڑی کے متعلق انکشاف کرتے ہیں کہ اس نے فلاں موقعہ پر آگا پیچھا دیکھے بغیر کتنا غلط ہٹ لگایا تھا۔ اسے تو کیچ ہونا ہی تھا۔ اور ہم ایسے تبصرے دیکھ کر سوچتے ہیں کہ ارے اصلی کھلاڑی تو یہ ہے۔ کرکٹ کے سارے رموز تو اس کی مٹھی میں ہیں۔ کریز پر تو اسے ہونا چاہیے تھا۔ یہ سلیکٹرز کی کوتاہ نظری ہے کہ اسے کھیلنے کا موقعہ نہیں دیا اور اس کے ممدوح کو ٹیم میں شامل کر لیا۔

خیر مداح تو مداح ہوئے۔ مقام عبرت یہ ہے کہ ریٹائرڈ کھلاڑی بھی جو زمانہ ہوا لنگوٹ کھول چکے ہیں وہ ناراض مداحوں کی اسی بھیڑ میں شامل ہو جاتے ہیں اور فوراً مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ نالائق کیپٹن ہے اسے دفع کرو اور فلاں سپر اسٹار کی کرکٹ میں عمر پوری ہو چکی ہے اسے رخصت کرو۔ نوخیز کھلاڑیوں کو آگے لائو۔ تو وہ ماہرین جو ابھی پچھلے میچ تک مصباح الحق کی کپتانی کے قائل تھے اب اچانک بدکے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اسے رخصت کرو۔ کرکٹ بورڈ کا سربراہ بالعموم چپ رہتا ہے اور اپنی خاموشی سے ناراض مداحوں اور ماہروں کی تائید کرتا نظر آتا ہے۔ اب کے فرق یہ پڑا ہے کہ اس وقت جو سربراہ ہیں یعنی نجم سیٹھی وہ بول پڑے ہیں اور بولے بھی کیا کہ ’’مجھے تو مصباح الحق کی کپتانی میں کوئی خامی نظر نہیں آتی۔

نجم سیٹھی صاحب کے اگر یہی لچھن رہے تو کرکٹ بورڈ میں ان کا مستقبل زیادہ روشن نظر نہیں آتا۔ اس کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ رپورٹر نے یہ خبر دیتے ہوئے بار بار یہ بتایا ہے کہ ارے سیٹھی صاحب کی چیرمینی تو عارضی ہے۔ بس سمجھ لو کہ چار دن کی چاندنی ہے۔

ویسے ہیرو اور ان کے پرستاروں کا رشتہ اپنی جگہ ایک کھیل ہے۔ اس کے اپنے بھید بھائو ہیں۔ فلم اسٹار اور ان کے پرستار۔ ٹی وی چہرے ان کے پرستار۔ مقبول شاعر اور ان کے پر ستار۔ اب سے پہلے جب دنگل ہمارے معاشرے میں بہت مقبول تھے اس زمانے میں پہلوانوں کا طوطی بولتا تھا۔ وہ اپنے وقت کے سپر اسٹار تھے۔ ان کے پرستاروں کا اپنا رنگ تھا۔ مگر ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ مقبول پہلوان دائوں میں مار کھا جائے اور چاروں شانے چت ہو جائے تو اس کے پرستار مطالبہ شروع کر دیں کہ ہمارے پہلوان کو اب لنگوٹ کھول دینا چاہیے۔ فلم بیشک فلاپ ہو جائے۔ اور ہیرو کا ستارہ گردش میں آ جائے۔ سو اس کے مداح مایوس تو ضرور ہوتے ہیں مگر ایک دو فلموں میں اس کی ناکامی سے ان کی پرستاری میں ایسا زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ ہوتا یہ ہے کہ رفتہ رفتہ وہ پس منظر میں چلا جاتا ہے اور اس کے پرستار اسے فراموش کر کے کسی دوسرے فلمی ہیرو کے شیدائی ہو جاتے ہیں۔ مقبول شاعروں کے سلسلہ میں بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ ایک دو مشاعروں میں وہ ہوٹ بھی ہو جائیں تو ان کی مقبولیت میں ایسا فرق نہیں پڑتا۔

فلم اسٹار ہوں یا مقبول شاعر ہوں یا رستم زماں کہلانے والا پہلوان ہو ان کے پرستار بے صبرے نہیں ہوتے اور یہ تو بالکل نہیں ہوتا کہ کل وہ اسے گجرے پہنا رہے تھے اور اب اس پر گندے انڈے پھینک رہے ہیں۔

یہ ہم نے صرف کرکٹ کے کھیل میں دیکھا کہ کھلاڑیوں کے پرستار اتنے بے صبرے ہوتے ہیں کہ جب تک کھلاڑی میدان میں مار رہا ہے اسے سر پہ اٹھاتے ہیں۔ ادھر اس نے میچ ہارا ادھر وہی پرستار اس کی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ سو جب کسی دوسرے ملک میں جا کر ٹیم میچ ہار جاتی ہے تو اس کی واپسی سخت عبرتناک ہوتی ہے۔ اس کے وہ پرستار جو کل تک اس پر فدا تھے اس تیاری کے ساتھ ایئر پورٹ پر پہنچتے ہیں کہ ہارے ہوئے کھلاڑیوں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔

ان پرستاروں کا احوال یہ ہے کہ گھڑی میں رن میں گھڑی بن میں۔ ابھی اپنے بلے باز کو سروں پر اٹھا رہے تھے اور ابھی چشم زدن میں یہ  دیکھ کر کہ سنچری بنانے والا زیرو پہ آئوٹ ہو گیا اس کی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں اور وہ ہیرو حیران ہو کر سوچتا ہے کہ؎

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

ارے ان پاکستانی پرستاروں کے ہجوم سے تو ہندوستان کا کرکٹ کرائوڈ بہتر ہے۔ بیچارے ٹنڈولکر سینچریاں بناتے بناتے اس آخری سینچری پر آ کر پھسڈی بن گیا جس سے اس کا عالمی ریکارڈ قائم ہونا تھا۔ اب وہ اڑا ہوا ہے کہ جب تک یہ آخری سینچری نہیں بنا لوں گا لنگوٹ نہیں کھولوں گا۔ مگر وہ کمبخت آخری سینچری اس سے آنکھ مچولی کھیل رہی ہے اور اس کے پرستار چپ ہیں۔ کچھ نہیں بول رہے۔ ٹنڈولکر پاکستان میں ہوتا تو اسے اپنی اوقات کا پتہ چل جاتا۔

تو پاکستان میں کرکٹ کرائوڈ کا یہ حال ہے کہ ع

نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی

تو پاکستان میں کوئی کرکٹ اسٹار کسی گھمنڈ میں نہ رہے۔ اسے بالآخر اپنے انھیں پرستاروں کے ہاتھوں خوار ہونا ہے جنہوں نے اسے بانس پہ چڑھایا تھا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔