جنوں پیشہ لوگ۔۔۔

نجمہ عالم  جمعرات 19 ستمبر 2013

ادب میں گروہ بندی کا سراغ تو ابتدائی دور سے ہی ملتا ہے، مگر یہ گروہ بندیاں ایک طرح سے ادب کی ترویج و اشاعت میں نہ صرف معاون ہوتی تھیں بلکہ ایک گروہ دوسرے پر برتری کے خیال سے مزید اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا، یوں ادب کا دامن نظم و نثر دونوں میں نت نئے اسالیب، اصناف اور طرز ادا کے فروغ کا ذریعہ بنتا، گویا یہ گروہ بندیاں ادبی ترقی اور اردو کو مختصر عرصے میں اس قدر شستہ و دل پذیر اور قوت اظہار کی دولت سے مالا مال کرنے کا ذریعہ قرار پائیں۔ فی زمانہ ادبی گروہ ادباء و شعراء کے درمیان مثبت تخلیقی سرگرمیوں کے فروغ کے بجائے ذاتی چپقلش اور عناد کا باعث ہو چکی ہیں۔

اب ان میں وہ تعمیری جذبہ باقی نہیں رہا بلکہ نا اہل کو اہل اور لائق کو نالائق بنانے کا عمل ہی ان کے وجود کا مقصد قرار پایا ہے۔ یہی وجہ یہ کہ واقعی باصلاحیت ادباء و شعراء کونے کھدروں میں منہ چھپائے صلہ و ستائش سے بے نیاز اپنا ادبی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، نہ وہ کسی ادبی گروہ میں شامل ہیں نہ کسی ادبی محفل میں کسی کی منت سماجت کر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہ گمنام و گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی نہ کوئی لابی ہے اور نہ کوئی پشت پناہی کرنے والا۔ یہ بات بھی اکثر ہمارے ہاں کہی جاتی ہے کہ اگر شاعر و ادیب باصلاحیت ہو تو وہ خود کو منوا لیتا ہے ۔ یقیناً یہ کہنا بڑی حد تک درست ہے اور بقول محشرؔ بدایونی:

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا

مگر یہ شعر بھی ان ہی کے بارے میں ہے جو کچھ ہوں یا نہ ہوں اپنے تعلقات یا کچھ اور اوصاف کے باعث زبردستی خود کو منوانے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اس شہر کراچی میں ہی کتنے ایسے شعراء (جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے) ذہن کے پردے پر نمودار ہو رہے ہیں جو کراچی کی ہر محفل کی جان ہوتے تھے، کوئی اپنے ترنم کے بل بوتے پر، کوئی اپنے خاص انداز بیاں کے باعث اور بیشتر اپنے تعلقات کی وجہ سے۔ مگر جب وہ نہ رہے تو اب کوئی ان کا کہیں نام تک لینا گوارا نہیں کرتا اور ان ہی نامی گرامی شعراء کے درمیان انور شعور کو کوئی ان کا مقام دینے کو تیار نہ تھا مگر انھوں نے اپنی صلاحیت کا لوہا بہرحال منوا لیا۔

بہت سے باصلاحیت لکھنے والے اور شعراء زندگی کے دوسرے شعبوں میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی ادبی لابی میں اپنا مقام بنانے اور تعلقات استوار کرنے کا وقت نکال نہیں پاتے۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی دولت و حیثیت کے ذریعے شہرت اور مقام حاصل کر لیتے ہیں مثلاً کسی ادبی تنظیم یا ادارے کو چندہ دے کر اس کی استقبالیہ کمیٹی، اسٹیج کمیٹی، پنڈال کمیٹی یا انتخاب شعراء کمیٹی میں اپنا نام شامل کرا لیتے ہیں پھر چاہیں ان میں سے کوئی بھی کام نہ کریں مگر مشہور ادبی و سماجی شخصیت کہلانے کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ مگر کچھ اچھے اور باصلاحیت شعراء ان دونوں ہی طریقوں کو مسترد کر کے صرف اپنا تخلیقی کام خاموشی سے کرتے رہتے ہیں تو کوئی بھی ادبی گروہ ان کو منظر عام پر لانے کی کوشش نہیں کرتا، وہ تاحیات گمنامی اور گوشہ نشینی میں بسر کرتے ہیں لیکن تخلیقی سوتے ان کی ذات سے پھوٹتے رہتے ہیں، حالات ساتھ دیتے ہیں تو وہ اپنا مجموعہ کلام شایع کرا لیتے ہیں اور از خود اپنے بارے میں کچھ لکھ کر اپنی ذات پر سے پردہ ہٹا کر کچھ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ انھوں نے کبھی ادبی محافل یا مشاعروں میں شرکت کر کے اپنی شناخت نہیں بنائی، کسی مستند تجزیہ نگار یا نقاد تک رسائی ہو جائے (اتفاقاً) تو اپنا کلام انھیں دکھا کر رائے حاصل کر لی اور شامل مجموعہ کر لی۔

بعض اوقات ایسے ہی گمنام یا کم شہرت رکھنے والے شعراء میں بڑے پائے کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص اور مختصر حلقہ احباب میں اچھی شہرت رکھتے ہیں اور ان کا حلقہ ان کے کلام کے معیار سے واقف بھی ہوتا ہے، انھیں گوشہ نشینی چھوڑ کر منظر عام پر آنے کے مشورے بھی دیتا ہے مگر وہ شہر میں ادبی جانبداریوں کو محسوس کرتے ہوئے صبر و قناعت پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ ان کے اندر کسی کی خوشامد اور چاپلوسی کے جراثیم موجود ہی نہیں ہوتے۔ آج میں ایک ایسے شاعر کے مجموعہ کلام پر اظہار خیال کی کوشش کر رہی ہوں جن سے میں نہ پہلے سے واقف تھی اور نہ کبھی ان کا کلام میری نظر سے گزرا تھا۔ یکم جون کو جب پاکستان کی نئی قومی اسمبلی کی رسم حلف برداری ہونا تھی تو اس میں شرکت کے لیے مجھے بھی اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا، وہاں میرے یونیورسٹی کے زمانے کے ایک صاحب اقبال حیدر جو میرے ادبی ذوق سے واقف ہیں سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے ایک مجموعہ کلام بنام ’’جنوں پیشہ‘‘ مجھے عنایت کیا اور یہ بھی بتایا کہ یہ کلام ان کے چچا ڈاکٹر شان رضا کا ہے۔

ہم وہ کتاب لے کر اپنی قیام گاہ آ گئے اور سوٹ کیس میں ڈال دی کہ گھر جا کر پڑھیں گے۔ دیکھیں یہ کون صاحب ہیں اور کیا فرماتے ہیں کیونکہ اسلام آباد میں قیام مختصر تھا اور کام کئی تھے لہٰذا اسی وقت مطالعہ مشکل تھا۔ بالآخر گزشتہ دنوں اس کو نکال کر مطالعے کا آغاز کیا۔ انتساب ان لوگوں کے نام تھا جو ’’جنوں پیشہ‘‘ کہلوانے کے مستحق ہیں، اس کے بعد فہرست پر نظر پڑی تو حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد غزلیات کا آغاز ہوا، پورے مجموعے میں تین نظمیں بعنوان ’’خرد اور جنوں‘‘، رخصتی اور سوز پنہاں کے نام سے شامل ہیں، کچھ متفرق اشعار اور پھر قطعات (اچھی خاصی تعداد میں) بھی اس کتاب کی زینت ہیں۔ فہرست کے بعد مختصر سا ’’پیش لفظ‘‘ جس کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ صاحب کتاب ماہر امراض سینہ ہوتے ہوئے بھی سینے میں دھڑکتے دل پر اپنا اختیار تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ آج تک کوئی بھی ڈاکٹر اس کا سراغ نہ لگا سکا کہ دل کی دھڑکن پہ انسان کا اختیار کیوں نہیں ہوتا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر شان رضا بچپن ہی سے اپنے شاعر چچا سید محمد حیدر زیدی نہٹوری سے متاثر تھے اور ان کی غزلیں پڑھ پڑھ کر خود بھی کلام موزوں کرنے لگے اور خاصی ابتدائی عمر ہی سے اپنے جذبات، محسوسات اور مشاہدات کو شعر کے قالب میں ڈھالتے رہے ہیں۔

ملک سے باہر بسلسلہ ملازمت لیبیا جانے کا اتفاق ہوا، وطن اور عزیز و اقارب سے دوری نے احساسات کو مہمیز کیا اور یوں اچھا خاصا کلام موزوں ہو گیا۔ موصوف کے کلام پر پروفیسر فتح محمد ملک نے بے حد مختصر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بے حد حساس اور درد مند دل کے مالک ہیں اس مجموعے میں انھوں نے اپنے احساسات کو لفظوں کا پیراہن بخشا ہے، نظم، غزل اور قطعات کی اصناف میں ان کی طبع آزمائی قابل تحسین ہے۔ البتہ افتخار عارف نے کافی پرزور انداز میں ڈاکٹر رضا کے کلام پر تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غزلیات و قطعات پر مشتمل شاعری کی اس کتاب میں ایک باہنر اور صاحب مطالعہ شاعر کی زندگی اور اس کے اثرات بکھری ہوئی زندگی کے احوال کی ترجمانی کی گئی ہے۔ جمالیات سخن کے آداب سے واقفیت اور زبان و بیاں پر حیرت انگیز قدرت نے ڈاکٹر زیدی کے شعر میں وہ حسن و تاثیر پیدا کر دی ہے جو بہت کم شعراء کو نصیب ہوتی ہے۔

افتخار عارف مزید کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ ان کا یہ مجموعہ اہل نظر میں لائق اعتبار و افتخار ٹھہرے گا۔ زمانہ موجود میں افتخار عارف جیسے معتبر شاعر و دانشور کے یہ الفاظ ڈاکٹر شان رضا کے کلام کو بھی معتبر بنانے کے لیے کافی ہیں اور پھر افتخار عارف کی رائے کے بعد مجھے اپنی رائے کا اظہار کرنا کچھ مناسب سا نہیں لگتا۔ مگر ہم یہ ضرور کہیں گے کہ واقعی غزل میں الفاظ کا دروبست روایت و جدت کا حسین امتزاج اور شاعر کو اپنے خیالات پر مکمل دسترس حاصل ہونے کے ساتھ الفاظ کو برتنے کا اعلیٰ شعور حاصل ہے، اگرچہ غزلیات بھی حسن کلام کا اچھا نمونہ ہیں مگر شاعر کا کمال ان کے قطعات میں زیادہ نمایاں ہوا ہے۔ نظم ’’سوز پنہاں‘‘ میں کراچی شہر کے جلنے اور سسکنے کا منظر شاعر کے احساسات کا اصل ترجمان ہے۔

اس مجموعے کے مطالعے کے بعد ہم یہی سوچتے رہ گئے کہ اگر ہمارے ادبی رسائل اور اخبارات کے ادبی صفحات ایسے معتبر شعراء کی بازیافت کا فریضہ ادا کریں تو اپنی تمام تر مصروفیات اور بے سروسامانی کے باوجود اچھے ادباء و شعراء بھی ادبی منظر نامے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ کیونکہ تخلیقی ادب ملک و قوم کا سرمایہ ہوتا ہے پھر ان سے استفادہ کیوں نہ کیا جائے؟ تیسرے درجے کے شعراء و ادباء کو محض ان کی خودستائشی اور لابنگ کے باعث اعلیٰ مرتبے سے نوازنا خود ادب و شاعری کے لیے بڑے نقصان کا باعث ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔