کشمیر کے مسئلے پر سیاسی اختلافات بھلا کر اتحاد کی ضرورت

ارشاد انصاری  بدھ 7 اگست 2019
انسانیت کے دعویدار عالمی تھانیدار و انسانی حقوق کی انجمنیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

انسانیت کے دعویدار عالمی تھانیدار و انسانی حقوق کی انجمنیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

 اسلام آباد:  وزیر اعظم عمراں خان کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کے بعد اگرچہ مسئلہ کشمیر پر بہتر پیش رفت کی امید پیدا ہوئی تھی مگر ہندوستان نے صدر ٹرمپ اور عمران خان کے مصافحے اور ثالثی کے اعلان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے جنگی جنونیت کا اظہار کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال کاروائیاں تیز کردی ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر نسل کشی کی مذموم کوششیں بھی شروع کردی ہیں اور بھارت کی اس روایتی ہٹ دھرمی نے دنیا کو پھر سے ایٹمی جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔

دوسری جانب بھارت نے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر کے دونوں محاذوں پر حفاظتی اقدامات کر لیے ہیں اور خطے میں ایک تیسری بڑی طاقت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے مشورے کو جھٹکتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کے بہتر سالہ تنازعے کو ایک صدارتی حکم سے ملیا میٹ کر دیا ہے۔آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول اورعلاقے میں غیر جانبدار رائے شماری کا مقدمہ انڈیا ہی اقوام ِ متحدہ میں لیکر گیا تھا اور پھر وہ دن اور آج کا دن کہ انصاف کے دروازے کی تالہ بندی ہی رہی ہے۔

انسانیت کے دعویدار عالمی تھانیدار و انسانی حقوق کی انجمنیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور ہندوستان جیسی بڑی منڈی کھونے کے خوف میں معصوم کشمیریوں کو کشت و خون میں نہلایا جا رہا ہے اور کوئی ان کی دست گیری کرنے والا نہیں ہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ ذمہ دار ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے ابھی بھی کوشش یہی ہے کہ صورت ِ حال سے نکلنے کی کوشش کی جائے لیکن اگر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر آغاز بھارت کا ہوگا مگر انجام کو پاکستان پہنچائے گا۔

اس صورتحال میں پاکستان کے تمام ادارے ایک مٹھی کی مانند متحد ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کو آپسی سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کی ضرورت ہے۔ تاہم حکومت اور حزب ِ اختلاف میں بہو ساس کا جھگڑا جاری ہے۔ پاکستانی حکومت اپنے بہت سے معاملات میں سنجیدہ نہیں اور طالع آزماؤں کے ہاتھ میں کھیل رہی ہے۔

اس نازک موقع پر اگر تدبر اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو ہم اور زیادہ نقصان اٹھائیں گے کیونکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر کے نہ صرف اس امید کو گل کردیا ہے بلکہ اب تو انڈیا نے کشمیر کو باضابطہ طور پر اپنا صوبہ بنا لیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرکے اپنا انتخابی وعدہ پورا کر لیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم عمراں خان اور کشمیری قیادت مسئلہ کشمیر کو تیسرے فریق کی ثالثی کے ذریعے اس کا کوئی حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں؟ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان مسئلہ کشمیر سے متعلق متحرک ہیں، عالمی رہنماوں سے مکمل رابطے میں ہیں خاص طور پر امریکی صدر کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی اہم پیشرفت تھی لیکن بظاہر انڈیا کا جو رویہ ان دنوں ہے اس سے لگتا یہی ہے کہ انڈیا فی الحال مسئلہ کشمیر پر بات چیت یا ثالثی کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہندوستان کی جانب سے گذشتہ ہفتے کے دوران مقبوضہ وادی میں ہونے والی غیر معمولی نقل و حرکت، فوج کی تعداد میں مسلسل اضافہ اور دیگر کاروائیوں سے لگ رہا تھا کہ وادی کے اندر کوئی انہونی ہونے جا رہی ہے۔

جس کا ذکر حریت قائدین نے سوشل میڈیا کے ذریعے کیا۔امریکی محمکہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بدلنے کے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں، بھارت اس اقدام کو اپنا اندرونی معاملہ قراردے رہا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ہمیں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی حالیہ گرفتاریوں اور نظربندی پر بھی تشویش ہے۔امریکا نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کرے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے تمام فریقین سے کہا ہے کہ وہ کنٹرول لائن پر امن اور استحکام برقرار رکھیں۔

دوسری جانب آج صبح جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے قائم مقام امریکی معاون سیکرٹری ایلس ویلز پاکستان پہنچ گئیں۔ امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کے ساتھ امریکی وفد بھی اسلام آباد پہنچا ہے۔ایلس ویلز دورہ پاکستان میں اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت سے بھی ملاقاتیں کریں گی، اس دوران امریکی اور پاکستانی تعاون کے فروغ، مختلف ورکنگ گروپس کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا جائیگا۔ مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیرمیں آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کا معاملہ اٹھایا جائے گا اور امریکی وفدکو پاکستانی مؤقف سے آگاہ کیاجائیگا۔

حکومت پاکستان نے ہندوستان کی اس جارحانہ عمل کے فوری بعد عالمی رہنماوں سے رابطہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو ٹیلیفون کیا اور مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے آگاہ کیا جب کہ دونوں وزرائے اعظم نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کی سائڈلائن پر ملاقات پر بھی اتفاق کیا۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کی بھارتی کوشش اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، یہ اقدام اسٹریٹجک صلاحیتوں کے مالک دو ہمسایہ ممالک کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے گفتگو میں ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا کہ ملائشیا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو قریب سے مانیٹر کررہا ہے، مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر ملائشیا پاکستان سے رابطے میں رہے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے ترک صدر رجب طیب اردوان کو بھی ٹیلیفون کرکے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ جس پر ترک صدر طیب اردوان کا مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی سے خطے کے امن اور سلامتی پر خطرناک اثرات مرتب ہوں گے، پاکستان کشمیریوں کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔اس کے علاوہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اہم اجلاس بھی طلب کیا گیا جس میں کشمیر کی تازہ صورتحال پر غور کیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان مشترکہ اجلاس میں پالیسی بیان دیں گے جس سے بھارت کو ایک واضح پیغام مل جائے آیا اب یہ دیکھنا ہو گا کہ پارلیمنٹ میں کیا پالیسی بیان دیا جائے گا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے، یہ ایسا وقت ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کو ایک ہو کر بھارت کو پیغام دینا ہو گا کہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے جو ظلم اور بربریت جاری ہے اس پر پاکستانی قوم خاموش نہیں بیٹھے گی بلکہ بھارت کا مکروہ چہرہ سامنے لائیں گے ، اور یہ کام ہماری لیڈرشپ نے کرنا ہے، چاہیے اپوزیشن ہو یا حکومت دونوں کو آپس کے سیاسی اختلافات ایک طرف رکھنے ہوں گے۔

اس کے علاوہ فوجی قیادت نے بھی مسئلے کا جائزہ لینے کیلئے کور کمانڈرز اجلاس بلایا تھا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کے تناظر میں بھارت کے کشمیر سے متعلق غیر آئینی اقدامات کا جائزہ لیا گیا اور اہم فیصلے کئے گئے۔کورکمانڈرز کانفرنس میں کنٹرول لائن کی صورتحال اور بھارت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت کی صورت میں ردعمل پر بھی غورکیا گیا ہے۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاک فوج، حق خودارادیت کے لیے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ہم اس ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔اجلاس میں شرکا نے کشمیر سے متعلق بھارتی اقدامات مسترد کرنے کی حکومتی پالیسی کی مکمل تائید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، کشمیر پر شرمناک قبضے کو قانونی بنانے کی بھارتی کوششوں کوکبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ مشترکہ اجلاس اور عسکری اجلاس سے بھارت کو ایک پیغام دیا گیا کہ پاکستان کشمیرکی حق خودا رادیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔