سینٹ میں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی، اپوزیشن جماعتوں میں انتشار

رضا الرحمٰن  بدھ 7 اگست 2019
ایک دوسرے پرالزام تراشی کاایک بارپھر سلسلہ شروع ہوگیاہے جس سے ان سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ایک دوسرے پرالزام تراشی کاایک بارپھر سلسلہ شروع ہوگیاہے جس سے ان سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

کوئٹہ:   اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی اور حیران کن نتائج نے جہاں سیاسی ہلچل مچائی ہے وہاں متحدہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی منتشر کردیا ہے۔

اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے ایک دوسرے پر نہ صرف شک کر رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کا ایک بار پھر سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس سے ان سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں تاہم یہ اپوزیشن جماعتیں ان الزامات کے باوجود نئی اے پی سی بلا کر دوبارہ اپنی صفوں کو منظم کرنے کی باتیں بھی کر رہی ہیں اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی اس اے پی سی میں غور کرنے کا اعلان کر رہی ہیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جن14 اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز نے ووٹ نہیں دیئے اُن کے ناموں سے اپوزیشن کی لیڈر شپ بخوبی آگاہ ہے ان کے خلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے اس کا فیصلہ اپوزیشن جماعتیں آئندہ اے پی سی میں ہی کریں گی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران یہ بات کہی جا رہی تھی کہ اس کی ناکامی یا کامیابی کے اثرات بلوچستان کی سیاست پر بھی ہونگے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا اگلا ہدف بلوچستان میں جام حکومت ہو سکتی ہے۔ ان مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ملکر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی جن کا تعلق ان کی جماعت سے ہے کیلئے آخری دنوں میں اسلام آباد میں انہیں بچانے کیلئے زبردست لابنگ کی اور مختلف سیاسی رہنماؤں کے علاوہ اُنہوں نے مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات کی۔ وزیراعلیٰ جام کمال اور اُن کے دیگر ساتھی اس حوالے سے مطمئن دکھائی دے رہے تھے کہ اپوزیشن جماعتوں کی یہ تحریک ناکام ہوگی۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بلاشبہ اثرات بلوچستان کی سیاست پر بھی پڑے ہیں اور جہاں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت مضبوط ہوئی ہے وہاں جام کمال کی مخلوط حکومت بھی مزید مضبوط ہوگئی ہے۔

بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں ان کے خلاف جو صف بندی کر رہی تھیں اب اُس میں بھی ٹھہراؤ آگیا ہے؟ سیاسی مبصرین کے مطابق جام کمال کی مخلوط حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی کے حوالے سے بعض سیاسی محفلوں میں یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ اُن کی قیادت اب کوئی سیاسی فیصلہ کرے گی یا پھر وزیراعلیٰ جام کمال کوئی قدم اُٹھا سکتے ہیں؟ لیکن بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ صورتحال جوں کی توں رہے گی۔ اے این پی بلوچستان کی مخلوط حکومت کا حصہ رہے گی۔ بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح سے مرکز میں اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف اپنی تحریک کو دوبارہ منظم کرنے کیلئے پُر اُمید ہیں اسی طرح بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں بھی مطمئن دکھائی دے رہی ہیں اور اُن کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اچھی اور مضبوط منصوبہ بندی کے تحت مستقبل قریب میں جام حکومت کے خلاف آئیں گی۔ جبکہ اس حوالے سے وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں نمبر گیمز کی باتیں کرنے والے اپنا شوق پورا کر لیں اپوزیشن اپنا کام کرے اور ہمیں اپنا کام کرنے دے۔

گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ جام کمال سے ملاقات کرکے خیر پختونخوا کے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے تین آزاد اراکین صوبائی اسمبلی نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اس طرح سے بلوچستان کی نئی سیاسی جماعت بی اے پی کو خیبرپختونخوا میں بھی نمائندگی حاصل ہوگئی ہے، بلوچستان عوامی پارٹی کی اب دیگر صوبوں میں بھی تنظیم سازی کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہونے والے ان تین ارکان صوبائی اسمبلی کو خیبر پختونخوا کی کابینہ میں بھی نمائندگی مل سکتی ہے جبکہ وفاقی کابینہ میں بی اے پی کے کسی ایک رکن قومی اسمبلی یا سینیٹر کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جس کیلئے نام پارٹی کے سربراہ و وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال دیں گے۔

بلوچستان اسمبلی میں ریکوڈک پراجیکٹ کے حوالے سے عالمی ثالثی عدالت کے آنے والے فیصلے کی باز گشت سنائی دی، یہ باز گشت اپوزیشن رکن اسمبلی ثناء بلوچ کی اس حوالے سے پیش کی جانے والی ایک تحریک التواء پر بحث و مباحثے کے دوران ہوئی جس میں اراکین اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ ریکوڈک کیس پر صوبائی اسمبلی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے ۔ بحث سمیٹتے ہوئے وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا جذ باتی فیصلوں کے نتائج ریکوڈک کیس کے فیصلوں کی طرح نکلتے ہیں ہم نے آج یا کل چھ ارب ڈالرز ضرور دینے ہیں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں نے سرجوڑ کر بیٹھنا ہے کہ یہ پیسے کیسے ادا کریں کیونکہ ماضی میں لوگوں کی کم نظری، گزارے کی پالیسی اور غلط اقدامات نے آج ہمیں اس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اگر ہم جذبات سے ہی فیصلے کرتے رہے تو ایک کے بجائے دس ریکوڈک سامنے آجائیں گے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس ریکوڈک کیس کا جرمانے ادا کرنے کے پیسے نہیں ہیں لیکن ایسا نہیں کہ ہم نے یکمشت یہ جرمانہ ادا کرنا ہے اس کیلئے مدت ملے گی جبکہ ہم عالمی فورم پر مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کیس کو آگے لے جانے پر بھی غور کر رہے ہیں، بینکوں کو ساتھ ملا کر بانڈز جاری کرکے کمپنیوں کے ہمراہ مشترکہ منصوبے اور بڑے اداروں کو اکٹھا کرکے ہم اپنی آمدن میں اضافہ اور ریکوڈک کیس کا جرمانہ ادا کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت تمام شعبوں میں ماہرین تعینات کر رہی ہے، معدنی وسائل سے متعلق ہم نے پالیسی بنا لی ہے اور ہم یہ ماہرین ہائر کر رہے ہیں اور صوبائی حکومت قدم بقدم آگے بڑھ کر بلوچستان کے وسائل کو بروئے کار لانے کیلئے حکمت عملی مرتب کر رہی ہے جس کے اچھے نتائج برآمد ہونگے ۔

قبل ازیں بحث میں حصہ لیتے ہوئے بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ دُنیا کی نظریں بلوچستان کے وسائل پر لگی ہوئی ہیں جبکہ70 سال بعد بھی کوئٹہ سمیت اندرون بلوچستان کے عوام تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اگر ہمارے حکمران دور اندیش ہوتے تو ایسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا1993ء میں نگران صوبائی حکومت کے دور میں ریکوڈک پر بی ایچ پی کے نام سے عالمی کمپنی کے ساتھ محکمہ بی ڈی اے کے ذریعے معاہدہ کیا گیا اور بی ایچ پی کو13 ہزار ایکڑ اراضی الاٹ کرنے کیلئے اس وقت کے رولز میں 13 ترامیم کی گئیں جو خود بی ایچ پی کمپنی نے بنائیں جس کے بعد2000ء میں قومی سطح پر قومی منرل پالیسی بنائی گئی2009ء میں مائننگ کے اختیارات بی ڈی اے سے لے کر مائنز اینڈ منرلز کے محکمے کو دیئے گئے لیکن معلوم نہیں بی ڈی اے کے تحت ہونے والے معاہدوں کی تفصیل کہاں ہے؟ جس کو سامنے رکھ کر اس مقدمے کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاہدے کی کاپیاں اراکین اسمبلی کو فراہم کی جائیں، بند کمروں میں بیٹھ کر غلط فیصلے کرنے والے بیورو کریٹس کو قانون کے کٹہر ے میں لایا جائے اور ذمہ داروں کو سزائیں دی جائیں ۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ریکوڈک پر بلوچستان کا دفاع کرنے کیلئے بلوچستان اسمبلی سے کمیٹی بنائی جائے۔ اگر اب بھی اسلام آباد، صوبائی کابینہ یا کوئی اور کمیٹی بنا کر ریکوڈک پر فیصلہ کیا گیا تو پھر ہم سڑکوں پر ہونگے ۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کا کہنا تھا کہ ریکوڈک منصوبے پر چند ٹکوں کی خاطر اپنے ضمیر اور عوام کے مفادات کی قربانی نہیں دی جائے گی۔ ریکوڈک منصوبہ اس دھرتی پر اﷲ کی مہربانی ہے جس کو ہم نے ضائع کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کیس کو جن لوگوں نے خراب کیا ہے ان کا احتساب ہونا چاہیے ہم ایسے کسی فیصلے میں شامل نہیں ہونگے جس میں بیٹھ کر مک مکا کیا جائے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریکوڈک منصوبے کی تحقیقات کیلئے ایوان کی کمیٹی قائم کی جائے جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے اراکین کو شامل کیا جائے۔ اپوزیشن کے دیگر اراکین نے بھی بحث میں حصہ لیاجن کایہ مطالبہ تھا کہ ریکوڈک کیس کے حوالے سے تحقیقات کیلئے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔