آبی قلت: مستقبل میں پانی صرف راشن کی دکانوں پر ملے گا، رپورٹ

ویب ڈیسک  جمعرات 8 اگست 2019
پانی کے استعمال میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہ آبادی میں اضافے کی شرح سے بھی تیز رفتار ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پانی کے استعمال میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے وہ آبادی میں اضافے کی شرح سے بھی تیز رفتار ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کراچی: ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی) کی جاری کردہ تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی کم از کم ایک ارب 70 کروڑ آبادی کو پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حالت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔

اس رپورٹ میں آبی قلت سے متعلق دنیا بھر کے 189 ممالک کا ڈیٹا جمع کیا گیا ہے جسے ان ملکوں میں آبی ذخائر پر دباؤ کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا ہے۔ ان میں سے 17 ممالک ایسے ہیں جہاں آبی قلت کی شرح شدید ترین (یعنی 80 فیصد یا اس سے بھی زیادہ) ہے جبکہ ان میں سے بھی 11 ممالک مشرقِ وسطی میں واقع ہیں۔ مزید 44 ممالک میں آبی قلت اگرچہ 40 سے 80 فیصد کے درمیان ہے لیکن اسے بھی ’’شدید‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر دنیا کی ایک ارب 70 کروڑ آبادی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

اگر آبادی کے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو بھارت میں لوگوں کی سب سے بڑی تعداد شدید ترین آبی قلت کا شکار ہے جبکہ اس فہرست میں بھارت کا 13 واں نمبر ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ گزشتہ چند صدیوں کے دوران پانی کے فی کس استعمال میں اضافے نے آبادی میں اضافے کی شرح کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے؛ جو اپنے آپ میں انتہائی تشویشناک بات ہے۔

ڈبلیو آر آئی کے سربراہ اینڈریو اسٹیئر کا کہنا ہے کہ آبی وسائل پر مسلسل بڑھتا ہوا دباؤ ایک سنگین ترین مسئلہ ہے لیکن اس پر کوئی بات نہیں کررہا۔ ’’اس کے نتائج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں جو غذائی عدم تحفظ، تصادم، جنگوں، نقل مکانی اور معاشی عدم استحکام کی صورت میں ہیں،‘‘ اینڈریو نے بتایا۔

اس رپورٹ میں جہاں پانی کے استعمال میں کفایت شعاری برتنے پر زور دیا گیا ہے، وہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ استعمال شدہ پانی کو بازیافت (ری سائیکل) کرکے مختلف مقاصد میں دوبارہ استعمال کرنے کےلیے ہمیں آج کی نسبت کہیں زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ جب حکومتوں کو پانی کی راشن بندی کرنا پڑے گی اور نلکوں کے بجائے راشن کی سرکاری دکانوں پر ہی پانی دستیاب ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔