دنیا کا سب بڑا طوطا ایک میٹر اونچا تھا!

ویب ڈیسک  جمعـء 9 اگست 2019
تصویر میں دکھائی دینے والا خوبصورت طوطا ایک میٹر اونچا تھا جسے اب تک دنیا کا سب سے بڑا طوطا کہا جاتا ہے۔ فوٹو: نیوسائنٹسٹ

تصویر میں دکھائی دینے والا خوبصورت طوطا ایک میٹر اونچا تھا جسے اب تک دنیا کا سب سے بڑا طوطا کہا جاتا ہے۔ فوٹو: نیوسائنٹسٹ

نیوزی لینڈ: اب سے ایک کروڑ نوے لاکھ سال پہلے پائے جانے والے  ایک طوطے کے آثار ملے ہیں جسے اب تک کرہ ارض پر پایا جانے والا سب سے بڑا طوطا کہا جاسکتا ہے۔

اس کی رکازی (فوسلائزڈ) ہڈیاں نیوزی لینڈ میں ملی ہیں۔ ماہرینِ معدومیات نے اس کا حیاتیاتی نام ’ہیراکلس انِ ایکسپیکٹیٹس‘ رکھا ہے جس کی غیرمعمولی بڑی اور لمبی ٹانگوں کی ہڈیاں نیوزی لینڈ کے جنوب میں کھدائی کے دوران ملی ہیں۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ پورے قد سے کھڑا ہونے پر طوطے کی اونچائی ایک میٹر اور وزن تقریباً سات کلوگرام تھا۔

آسٹریلیا میں فلنڈرز یونیورسٹی کے پروفیسر ٹریور ورتھی کہتے ہیں کہ یہ کسی جزیرے پر پیدا ہونے والے عجیب و غریب پرندے کی ایک دلچسپ مثال ہے۔ لیکن یہ شترمرغ اور دوسرے بھاری پرندوں کی طرح پرواز سے محروم تھا اور خیال ہے کہ اسی کے ساتھ  نیوزی لینڈ پر دوسرے بڑے پرندوں کا ارتقا بھی ہوا ہوگا۔ مثلاً ماریشس کے جزائر پر ڈوڈو نامی بڑا پرندہ موجود تھا ۔

نیوزی لینڈ میں کبھی موآ پرندوں کی 9 اقسام پائی جاتی تھیں۔ یہ پرندے آج کے شترمرغ اور ایمو جیسے تھے اور غالباً نودریافت طوطا بھی ان کے دور میں ساتھ پروان چڑھ رہا تھا لیکن یہ پتوں کی بجائے پھل اور گریاں کھایا کرتا تھا۔

پرندے کی ساخت دیکھتے ہوئے کہا گیا ہےکہ یہ آج نیوزی لینڈ میں پائے جانے والے ایک بڑے پرندے سے تعلق رکھتا ہے جسے ’کاکاپو‘ کہا جاتا ہے۔ ہیراکلس انِ ایکسپیکٹیٹس پہاڑ یا درخت سے اترتے وقت ہوا میں تیرسکتا تھا اور یہی اس کی پرواز تھی۔ اس کی ٹانگوں کی ہڈیوں کی ساخت بتاتی ہے کہ یہ زیادہ تر وقت زمین پر ہی گزارتا تھا۔

ارتقائی علوم کے ماہرین کہتے ہیں کہ نیوزی لینڈ وہ جگہ ہے جہاں عجیب و غریب پرندے ارتقائی عمل سے گزرے اور رنگارنگ پرندے پھلے پھولے تھے۔ اس کی وجہ غالباً یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے شکاری جانور موجود نہ تھے تاہم زمین پر بڑے مگرمچھ ایک میٹر اونچے طوطے کو نوالہ بنانے کے لیے ضرور تیار تھے۔

نیوزی لینڈ کے میدانوں میں اب تک 20 قدیم پرندوں کی باقیات مل چکی ہیں جو کروڑوں سال قبل وہاں پائے جاتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔