لاہور چڑیا گھر میں جانوروں اور پرندوں کی شرح اموات میں 40 فیصد تک کمی

آصف محمود  بدھ 7 اگست 2019
2018 میں 45 جانوروں اور122 پرندوں کی اموات ریکارڈ کی گئی فوٹو: ایکسپرس

2018 میں 45 جانوروں اور122 پرندوں کی اموات ریکارڈ کی گئی فوٹو: ایکسپرس

 لاہور: لاہور چڑیا گھر میں گزشتہ 2 برس کے دوران جانوروں اور پرندوں کی شرح اموات میں 40 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے جبکہ شرح افزائش میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے لاہور چڑیا گھر میں اٹھائے گئے اقدامات اور تجربات کو صوبے بھر کے وائلڈ لائف پارکوں اور بریڈنگ سینٹرز میں لاگو کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔

لاہور چڑیا گھر میں گزشتہ 6 برس یعنی 2013 سے 2018 تک مجموعی طور پر 2 ہزار 949 جانور اور پرندوں کی افزائش ہوئی ، ان میں 517 جانور جب کہ 2 ہزار 432 پرندے شامل ہیں، ان 6 برسوں میں ایک ہزار 25 جانوروں اور پرندوں کی اموات ہوئیں جن میں لاہورکی واحد ہتھنی سوزی سمیت کئی شیر اور زراف بھی شامل ہیں۔ ان میں 231 مختلف اقسام کے جانور جب کہ 794 پرندے شامل ہیں۔

اگر گزشتہ 2 برسوں کا موازنہ کریں تو 2017 کی نسبت 2018 میں جانوروں اور پرندوں کی شرح افزائش میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ شرح اموات میں 40 فیصدکمی آئی ہے۔ 2017 میں چڑیا گھر میں 112 جانور جب کہ 435 پرندے پیدا ہوئے جب کہ 2018 میں 110 جانور اور 634 پرندے پیدا ہوئے ۔ اس کے برعکس اگرشرح اموات کی بات کی جائے تو 2017 میں 76جانوروں اور206 پرندوں کی اموات ہوئیں جبکہ 2018 میں 45 جانوروں اور122 پرندوں کی اموات ریکارڈ کی گئی ۔

لاہور چڑیا گھر کے ویٹرنری آفیسر ڈاکٹر رضوان کے کہتے ہیں اب یہاں جو اموات ہورہی ہیں ان میں زیادہ تر ایسے جانور اور پرندے ہیں جن کی طبعی عمر پوری ہوچکی ہے یا پھر وہ کسی لاعلاج بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ موسمی وباؤں اور عام بیماریوں سے شرح اموات پر کافی حد تک کمی آئی ہے۔ چڑیا گھر میں جانوروں اور پرندوں کی شرح اموات میں کمی کے لئے وائلڈ لائف اور ویٹرنری ماہرین کی مشاورت سے چند ایک اقدامات اٹھائے ہیں جن کے خاطرخواہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ مختلف پرندوں کے چوزوں کے لئے فرش پر پہلے ریت ڈالی جاتی تھی، ریت کے زرات چوزوں کی آنکھوں میں پڑنے سے انفیکشن ہوتی جس سے ان کی اموت ہوجاتی تھی لیکن اب ہم ریت کی بجائے چاول کے چھلکے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب چوزے پانچ دن کے ہوتے ہیں تو انہیں اینٹی بائیوٹک دی جاتی ہیں، ہرہفتے رانی کھیت سے بچاؤ کی ویکسی نیشن کی جاتی ہے،جب چوزے 21 دن کے ہوجاتے ہیں تو انہیں خونی پیچش سے بچاؤ کی ویکسن دی جاتی ہے،ڈیڑھ ماہ کا ہونے پرپیٹ کے کیڑوں سے بچاؤ کی ویکسی نیشن کی جاتی ہے، جبکہ پیدائش سے ایک ماہ تک انہیں گرم ماحول میں رکھا جاتا ہے تاکہ ان کا جسم خود حرارت پیداکرنے کے قابل ہوجائے۔

ڈاکٹررضوان نے بتایا کہ سبزچارہ کھانے والے جانوروں کی ہرتین ماہ بعد پیٹ کے کیڑوں سے بچاؤ کی ویکسنی نیشن کی جاتی ہے۔ ہر دوماہ بعد پیچش کی دوائی دی جاتی ہے جبکہ بارش کے موسم میں ہرماہ ویکسی نیشن کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی خوراک میں روزانہ وٹامنز شامل کئے جاتے ہیں اوران کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ اس کے لیے چڑیا گھر میں آنے والے انٹرنیز بہت کام کرتے ہیں وہ ان جانوروں اورپرندوں کی چوبیس گھنٹے مانیٹرنگ کا چارٹ تیار کرتے ہیں۔

لاہور چڑیا گھرمیں موجود جانوروں اورپرندوں کی افزائش میں اضافے کے ساتھ ساتھ سالٹ رینج سے تحویل میں لیے جانے والے اڑیال کے بچوں کو زندہ رکھنے میں بھی کامیابیاں ملی ہیں۔ گزشتہ چندماہ کے دوران یہاں 10 سے زیادہ اڑیال کے بچے لائے گئے ،تمام بچے اب صحت مند ہیں اوران میں سے کئی ایسے ہیں جن کو پنجروں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔

لاہور چڑیا گھر کی ویٹرنری ڈاکٹر وردہ کا کہنا ہے ماضی میں یہاں جو اڑیال کے بچے لائے جاتے تھے ان میں سے اکثریت کی موت واقع ہوجاتی تھی تاہم اب اس میں بڑی حد تک کمی آئی ہے، شکاریوں کے قبضے سے چھڑوائے گئے ان بچوں کو دوبارہ فیلڈ میں چھوڑنا ممکن نہیں ہوتا اس لئے انہیں مصنوعی خوراک دینا پڑتی ہے۔ ہم ان بچوں کی چوبیس گھنٹے مانیٹرنگ کرتے ہیں، ہربچے کو اس کے وزن اورصحت کے حساب سے دودھ اورخوراک دی جاتی ہے۔ ان کی ویکسی نیشن کروائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ماں باپ سے بچھڑے یہ بچے صحت مند اور اچھے طریقے سے پرورش پارہے ہیں۔

پنجاب وائلڈ لائف کے اعزازی گیم وارڈن نے بدر منیر نے بتایا کہ لاہور چڑیا گھر میں جو کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں، ہماری کوشش ہے کہ اسی طرح کے پروٹوکول پنجاب کے تمام چڑیا گھروں ، وائلڈ لائف پارکوں اور بریڈنگ سنٹرز میں اپنائے جائیں تاکہ وہاں بھی پرندوں اور جانوروں کی شرح اموات کو کم اور شرح افزائش کو بڑھایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے کسی اضافی فنڈکی ضرورت ہوگی اورنہ ہی عملے کی، صرف طے شدہ پروٹوکولز پر عمل درآمد کروانا ہوگا جو زیادہ مشکل نہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔