آپ کا ذہن ایک نایاب اثاثہ ہے

محمد رضا الصمد  ہفتہ 10 اگست 2019
آپ کا ذہن ایک نایاب اثاثہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آپ کا ذہن ایک نایاب اثاثہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پیسہ کمانے کا مقصد اگر صرف امیر بننا ہو، تو عموماً وقت کے ساتھ ساتھ سوچ غریب ہوجاتی ہے۔ پیسہ محض اجناس یا اشیاء کے تبادلے کا ذریعہ (Medium of Exchange) ہے۔ جو بنیادی طور پر خود کسی اہمیت کا حامل نہیں، مگر دیگر ضرورتیں پوری کرنے کےلئے اس کا حصول ضروری ہے۔ اور اس کا سب سے بہترین مصرف معاشرے میں آسانیاں بانٹ کر خوشیاں خریدنا ہے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب سوچ میں شعور کا عنصر نمایاں ہو۔

شخصی مرعوبیت، ذاتی صلاحیت کی موت ہے۔ ہم میں اکثر افراد زندگی بھر یہی شکایت کرتے رہ جاتے ہیں کہ ہم وہ تعلیم حاصل نہ کرسکے، جو حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔

آج سے کچھ دہائیوں پہلے ایک گاؤں میں ایک ذہین طالب علم رہا کرتا تھا۔ وہ کافی ماہر کھلاڑی بھی تھا۔ بچپن سے اس کا ذاتی رجحان ’’فلکیات‘‘ (Astronomy) کی طرف مائل تھا۔ مگر والدین کی خواہش پر اس نے محنت کرکے قانون میں گریجویشن کیا۔ لیکن عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد بھی اس نے فلکیات میں اپنی تحقیق جاری رکھی۔ یہاں تک کہ اس شخص نے ’’کائناتی پھیلاؤ‘‘ (Expanding Universe) کے تصور کو اپنی تحقیق سے درست ثابت کردیا اور نوبل پرائز کا حق دار ٹھہرا۔ آج دنیا اس شخص کو ایڈون ہبل (Edwin Hubble) کے نام سے جانتی ہے۔

اگر ہم دوسرے لوگوں کی دولت، شہرت، عہدے اور علم سے مرعوب ہونا چھوڑ دیں؛ تو ہم خود اپنی ذاتی تخلیقی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔

 

مقصد کے حصول کےلئے شدید طلب پیدا کیجیے

یاد کیجئے! کیا آج تک آپ نے کسی چیز کو بہت چاہت اور شدت سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہاں آپ کو ایک دلچسپ قصہ سناتا چلوں، جو لوگ کبھی ریڈیو پروگرامز کے شوقین رہے ہوں وہ مارکونی کے نام سے خوب واقف ہوں گے۔ مارکونی ریڈیو کے موجد ہیں۔ اٹھارویں صدی میں مارکونی نے جب پہلی بار یہ دعویٰ کیا کہ اس نے ہوا کے ذریعے پیغام بھیجنے کا طریقہ دریافت کرلیا ہے، تو اس کے دوستوں نے اسے ذہنی مریض سمجھا۔ دراصل مارکونی رابطے کا ایسا ذریعہ تلاش کر رہا تھا جس سے صدرمملکت تمام شہریوں کو براہ راست اپنا پیغام پہنچاسکیں۔ اس کام میں وہ کافی وقت سے نہایت دلجمعی سے مسلسل محنت کر رہا تھا اور بالآخر وہ اس میں کامیاب ہوگیا۔

ہم اکثر دولت، تعلیم، نوکری یا رشتے کے حصول کو جینے کی وجہ مان لیتے ہیں اور ضروریات زندگی کو مقصدحیات بنالیتے ہیں۔ زندگی میں کچھ بڑا حاصل کرنے کےلئے خود اپنی ذات میں مقصد کے حصول کےلئے شدید طلب پیدا کیجیے تاکہ کچھ نیا سیکھ کر لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرسکیں۔

 

حلقہ احباب کا تعین ضروری ہے

’’میں ایسی فوج سے نہیں ڈرتا جس کے سپاہی شیر اور بکری سپہ سالار ہو‘‘ کیونکہ ایک بکری پوری فوج کو کمزور بنادے گی۔ آپ کی سوچ آپ کے اپنے حلقہ احباب کے پانچ افراد کا اوسط یا مجموعہ ہوتی ہے۔ آئزک نیوٹن کے نام سے تو آپ واقف ہوں گے۔ اس نے جدید سائنسی میدان میں انسانی فکر کو نئے زاویے سے سوچنے کی راہ دکھلائی۔ رابرٹ ہوک، نیوٹن کا ہم عصر سائنسدان تھا اور نیوٹن کے سائنسی نظریات کا مخالف تھا۔ جب کہ نیوٹن کا ماننا یہ تھا کہ ’’میں نے عظیم اساتذہ سے علم سیکھا ہے، اس لیے میں دوسروں سے زیادہ دیکھنے کی نگاہ رکھتا ہوں‘‘۔
(If I have seen further it is by standing on the shoulders of Giants)

اگر آپ بھی اچھی اور مضبوط سوچ کا حصول چاہتے ہیں، تو اپنے حلقۂ احباب میں دانشمند لوگوں کو شامل کیجئے۔ بہتر اساتذہ کا انتخاب کیجئے۔ معاشرے میں قابل اتالیق تلاش کیجئے۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ کیجئے اور اپنی سوچ کو وسعت دیجئے۔

 

سوچ کے دائرے کو وسعت دیں

بڑا سوچئے، تب ہی حقیقت میں آپ کے ساتھ کچھ بڑا ہوگا۔ پانچ ہزار سال کی تاریخ ميں ایک بات جو تمام عظیم لوگوں میں مشترک ہے، پہلے وہ سوچ سے بڑے بنے، پھر ان کے ’’مقصد کے سفر‘‘ نے انھیں کامیاب انسان ثابت کیا۔ اپنی سوچ کو بڑا بنانے پر محنت کیجئے۔ کیوں کہ جو ہماری سوچ ہوگی وہی مستقبل میں ہماری عادت بن جائے گی۔

آپ کا ذہن خدا کی طرف سے عطاکردہ ایک بہترین اثاثہ ہے۔ اس اثاثے کو اپنی جسمانی فیکٹری کا بہترین پرزہ بنائیں۔ یہ آپ کو زندگی میں طاقت اور موت کے بعد سکون دے گا۔ آج ماضی کے تمام عظیم لوگ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، مگر اب بھی ان کی بلند سوچ زندہ ہے، جس کی روشنی سے دوسرے لوگ مستفید ہورہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد رضا الصمد

محمد رضا الصمد

بلاگر نے جامعہ ہمدرد کراچی سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کی ہے اور کراچی انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ ٹیکنالوجی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایک نجی کمپنی میں آٹی کنسلٹنٹ کے طور پر منسلک ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔