- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
- پی آئی اے نجکاری، جلد عالمی مارکیٹ میں اشتہار شائع ہونگے
- صنعتوں، سروسز سیکٹر کی ناقص کارکردگی، معاشی ترقی کی شرح گر کر ایک فیصد ہو گئی
کراچی بدامنی کیس؛ 33 ہزار مفرور ملزمان کو گرفتار کیا جائے، چیف جسٹس
کراچی: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کراچی بدامنی کیس کے دوران 33 ہزار مفرور ملزمان کو گرفتار کرکے ان کی جائیدادیں ضبط کرنے اور غیر قانونی اسلحہ برآمد کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بد امنی کیس کی سماعت کی، اس موقع پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ کراچی میں 33 ہزار مفرور ملزمان کو گرفتار کیا جائے اور اس حوالے سے ایجنسیوں سے بھی مدد حاصل کی جائے،ملزمان کی گرفتاری کے لئے پولیس کارکردگی بڑھائے اور اپنی سہولت کے لئے اندرون سندھ سے بھی نفری بلائی جائے، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مقدمات روزانہ کی بنیاد پر چلائے جائیں اور جومقدمات دوبارہ کھولے گئے ان کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ ارشد پپوقتل کیس اور 5 ستمبر 2013 سے اب تک جو ملزمان گرفتار کئے گئے ہیں ان کے چالان سے متعلق رپورٹ پیش کی جائے۔
دوران سماعت ڈی جی رینجرز نے رینجرز کی ٹارگٹ کلرز اور بھتاخوروں سے متعلق سیل شدہ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی، جس پر عدالت نے اطمینان کا اظہار کیا، ڈی جی رینجرز نے عدالت سے استدعا کی کہ اس رپورٹ کو شائع نہ کیا جائے کیونکہ اس رپورٹ میں ٹارگٹ کلر، بھتہ مافیا اور لینڈ مافیا سے متعلق ان شخصیات کے نام ہیں جو سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔
اس موقع پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں 33 ہزار مفرور ملزمان موجود ہیں جبکہ سندھ بھر میں ایک لاکھ 10 ہزار 549 مفرور ملزمان موجود ہیں، ان ملزمان میں 1486 انسداد دہشت گردی ایکٹ میں مفرور ہیں، ان کا کہنا تھا کہ 17 ہزار 961 کیسز اے کلاس ہوچکے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں 1980 سے حالات خراب چل رہے ہیں ، کیا 2007 سے قبل شہر میں کوئی مفرور ملزم نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں اور کوئی بعید نہیں یہاں پر بھی کوئی دہشت گرد موجود ہو، جواب میں شہادت اعوان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 2008 سے 2013 تک کی مفرور ملزمان کی تعداد جمع کی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا ان میں این آر او والے ملزمان کتنے ہیں، بتایا جائے کتنے ملزمان کو 2008 سے 2013 تک اے کلاس کرکے چھوڑا گیا، جواب میں شہادت اعوان نے بتایا کہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے ملزمان کی تعداد 12 ہزار ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ سے سوال کیا کہ آپ کا گیم پلان کیا ہے، آپ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ جس شہر میں 33 ہزار مفرور ملزمان ہوں وہاں شہری کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔