کراچی بدامنی کیس؛ 33 ہزار مفرور ملزمان کو گرفتار کیا جائے، چیف جسٹس

ویب ڈیسک  جمعـء 20 ستمبر 2013
ملزمان کی گرفاتری کے لئے پولیس کارکردگی بڑھائے اور اپنی سہولت کے لئے اندرون سندھ سے بھی نفری بلائی جائے، چیف جسٹس۔ فوٹو فائل

ملزمان کی گرفاتری کے لئے پولیس کارکردگی بڑھائے اور اپنی سہولت کے لئے اندرون سندھ سے بھی نفری بلائی جائے، چیف جسٹس۔ فوٹو فائل

کراچی: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کراچی بدامنی کیس کے دوران 33 ہزار مفرور ملزمان کو گرفتار کرکے ان کی جائیدادیں ضبط کرنے اور غیر قانونی اسلحہ برآمد کرنے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بد امنی کیس کی سماعت کی، اس موقع پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ کراچی میں 33 ہزار مفرور ملزمان کو گرفتار کیا جائے اور اس حوالے سے ایجنسیوں سے بھی مدد حاصل کی جائے،ملزمان کی گرفتاری کے لئے پولیس کارکردگی بڑھائے اور اپنی سہولت کے لئے اندرون سندھ سے بھی نفری بلائی جائے، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مقدمات روزانہ کی بنیاد پر چلائے جائیں اور جومقدمات دوبارہ کھولے گئے ان کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ  ارشد پپوقتل کیس اور 5 ستمبر 2013 سے اب تک جو ملزمان گرفتار کئے گئے ہیں ان کے چالان سے متعلق رپورٹ پیش کی جائے۔

دوران سماعت ڈی جی رینجرز نے رینجرز کی ٹارگٹ کلرز اور بھتاخوروں سے متعلق سیل شدہ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی، جس پر عدالت نے اطمینان کا اظہار کیا، ڈی جی رینجرز نے عدالت سے استدعا کی کہ اس رپورٹ کو شائع نہ کیا جائے کیونکہ اس رپورٹ میں ٹارگٹ کلر، بھتہ مافیا اور لینڈ مافیا سے متعلق ان شخصیات کے نام ہیں جو سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔

اس موقع پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں 33 ہزار مفرور ملزمان موجود ہیں جبکہ سندھ بھر میں ایک لاکھ 10 ہزار 549 مفرور ملزمان موجود ہیں، ان ملزمان میں 1486 انسداد دہشت گردی ایکٹ میں مفرور ہیں، ان کا کہنا تھا کہ 17 ہزار 961 کیسز اے کلاس ہوچکے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ  کراچی میں 1980 سے حالات خراب چل رہے ہیں ، کیا 2007 سے قبل شہر میں کوئی مفرور ملزم نہیں تھا۔  انہوں نے کہا کہ دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں اور کوئی بعید نہیں یہاں پر بھی کوئی دہشت گرد موجود ہو، جواب میں شہادت اعوان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 2008 سے 2013 تک کی مفرور ملزمان کی تعداد جمع کی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا ان میں این آر او والے ملزمان کتنے ہیں، بتایا جائے کتنے ملزمان کو 2008 سے 2013 تک اے کلاس کرکے چھوڑا گیا، جواب میں شہادت اعوان نے بتایا کہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والے ملزمان کی تعداد 12 ہزار ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ سے سوال کیا کہ آپ کا گیم پلان کیا ہے، آپ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ جس شہر میں 33 ہزار مفرور ملزمان ہوں وہاں شہری کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔