پرامید رہنے والے لوگ سکون کی نیند سوتے ہیں، تحقیق

ویب ڈیسک  جمعـء 9 اگست 2019
پرامید رہنے والے صرف امراضِ قلب ہی سے محفوظ نہیں رہتے بلکہ نیند لینے کے بعد وہ تازہ دم ہو کر اٹھتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پرامید رہنے والے صرف امراضِ قلب ہی سے محفوظ نہیں رہتے بلکہ نیند لینے کے بعد وہ تازہ دم ہو کر اٹھتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

الینوئے: طبّی ماہرین نے ایک بڑے سروے کے بعد یہ دریافت کیا ہے کہ جو لوگ اپنے مزاج میں پرامید ہوتے ہیں اور مایوس نہیں ہوتے، وہ عام طور پر سکون کی نیند سوتے ہیں اور جب سو کر اٹھتے ہیں تو صحیح معنوں میں تازہ دم بھی ہوتے ہیں۔

یونیورسٹی آف الینوئے، اربانا شیمپین میں ڈاکٹر روزالبا ہرنانڈیز اور ان کے ساتھیوں نے یہ مطالعہ 3548 افراد پر کیا، جن کی عمریں 32 سے 51 سال تھی۔ مطالعے کے نتائج ریسرچ جرنل ’’بیہیورل میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔

سروے کے شرکاء سے ان کے سونے جاگنے کے معمولات اور صحت کی کیفیات کے بارے میں سوالنامے پُر کروائے گئے جبکہ مختلف حالات میں ان کا ردِعمل بھی جانچا گیا۔

ماہرین کو معلوم ہوا کہ پرامید مزاج رکھنے والے لوگوں میں بے خوابی کی شکایت، مایوس فطرت لوگوں کے مقابلے میں 74 فیصد کم تھی، جو بلاشبہ ایک بہت بڑا فرق ہے۔ سروے میں جہاں پرامید مزاج اور بہتر نیند کے مابین واضح تعلق سامنے آیا، وہیں اُن پرانے مطالعات سے حاصل شدہ نتائج کی تصدیق بھی ہوئی جو یہ بتاتے ہیں کہ پرامید مزاج رکھنے والے لوگوں کو دل اور شریانوں کے امراض کا خطرہ بھی بہت کم رہتا ہے۔

واضح رہے کہ عالمی، علاقائی، مقامی اور، سب سے بڑھ کر، ذاتی وجوہ کی بناء پر لوگوں میں ’’معیاری نیند‘‘ کی شرح کم ہوتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ بتاتے چلیں کہ ’’معیاری نیند‘‘ سے مراد ایسی نیند ہے جس کے بعد تھکن مکمل طور پر ختم ہوجائے اور جاگنے پر بھرپور ذہنی و جسمانی تازگی کا احساس بھی ہو۔

2012ءمیں ریسرچ جرنل ’’سلیپ‘‘ کے ایک شمارے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں 50 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 15 کروڑ افراد نیند کے مسائل میں مبتلا ہیں جبکہ یہ تعداد 2030ء تک بڑھ کر 26 کروڑ پر پہنچ سکتی ہے۔

علاوہ ازیں، اگرچہ ’’مایوسی کفر ہے‘‘ اور ’’امید پر دنیا قائم ہے‘‘ جیسے اقوال صدیوں سے مشہور ہیں لیکن بہت کم لوگ انہیں اہمیت دیتے ہیں؛ اور تھوڑی سی ناکامی یا مشکل حالات کا سامنا ہونے پر انتہائی مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی مایوسی ان میں کئی طرح کی نفسیاتی بیماریوں کی وجہ بنتی ہے اور شدید ترین مایوسی بالعموم خودکشی پر منتج ہوتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں خودکشی کرنے والے لوگوں کی سالانہ تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے 2018ء تک خودکشی کرنے والوں کی سالانہ تعداد کا تخمینہ تقریباً 8 لاکھ افراد تھا، یعنی ہر 40 سیکنڈ میں دنیا کا کوئی ایک نہ ایک انسان خودکشی کررہا تھا۔

البتہ جس تیز رفتاری سے خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، اس کی بناء پر خدشہ ہے کہ 2020ء تک یہ تعداد 16 لاکھ سالانہ تک پہنچ جائے گی یعنی تب ہر 20 سیکنڈ میں کوئی ایک انسان خودکشی کررہا ہوگا۔

شاید اس معاملے میں نئی دواؤں سے زیادہ پُرامید مزاج سازی کی مدد سے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔