بھارتی شاعر کا بیانیہ، مسئلہ کشمیر کا حل

یوسف ابوالخیر  ہفتہ 10 اگست 2019
ڈاکٹر وشواس کمار صرف شاعر نہیں بکہ سیاسی تجزیہ نگار بھی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ڈاکٹر وشواس کمار صرف شاعر نہیں بکہ سیاسی تجزیہ نگار بھی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ڈاکٹر کمار وشواس کا شمار بھارت کے صفِ اول کے شاعروں اور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری سے دنیا بھر کے اہلِ ذوق محظوظ ہوتے ہیں۔ بھارتی لوک سبھا میں کشمیر کی علیحدہ حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 ختم کیے جانے پر ان کے جو خیالات ہیں، میں اپنے آپ کو اس سے پوری طرح متفق پاتا ہوں، اور سمجھتا ہوں کہ آپ میں سے بھی جو بھی قدرت کے قانونِ حکومت سے آگاہ ہوگا، وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کمار وشواس سے متفق ہونے سے روک نہیں پائے گا۔ اور یہی اصول و فارمولہ کشمیر کے مسئلے پر پوری طرح لاگو بھی ہوتا ہے۔

ڈاکٹر وشواس کہتے ہیں: ’’ہم میں سے کوئی نیتا یا منتری لوک سبھا میں کھڑے ہوکر یہ نہیں کہہ سکتا کہ کشمیر کا مسئلہ تو یونائیٹڈ نیشنز کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ یہی تو پاکستان بول رہا ہے، یہی ہم بھی کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘

آگے کہتے ہیں: ’’کون یونائیٹڈ نیشنز، کہاں کا یو این او… جو خود امریکا کے ٹکڑوں پر پلتا اور اشاروں پر ناچتا ہو؟ ہمیں کسی کی چودھراہٹ نہیں چاہیے۔ نہ امریکا کی، نہ اقوام متحدہ کی۔‘‘

آگے چل کر وہ اپنے ہی ایک شعر کے ذریعے یو این او پر طنز کرتے ہیں:

ہے امن کے واسطے جگ میں بنا یو این او
یو ایس اے کی یو ہے اس میں، باقی سب کی نو ہی نو

پھر کہتے ہیں: ’’جب امریکا نے پاکستان میں گھس کر اسامہ بن لادن کو مارا تھا، تب یو این او نے پوچھا تھا کہ آپ نے پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کیسے کی؟ جب امریکا نے ایک ہنستے بستے افغانستان کو تباہ کرکے ملبے میں تبدیل کیا تھا، تب کوئی بولا تھا؟ آج چین، تبت میں جو کچھ کررہا ہے، اس پر کوئی کچھ بولتا ہے؟ ارے جس کے پاس شکتی (طاقت) ہوتی ہے، اس کے ساتھ وشو (زمانہ/ دنیا) چلتی ہے۔ تو یونائٹڈ نیشنز کہاں سے بیچ میں آگیا؟ اگر کسی سمے سری نگر میں ان کا دفتر کھل گیا تو انہیں تھینک یو بولیے، فیئرویل دیجیے، اور کہیے کہ ہم زہر پیتے بھی اور زہر اگلتے بھی ہیں، اگر ضرورت پڑی تو تمہارے سینے پر بھی زہر اگل دیں گے۔‘‘
اس کے بعد وہ اپنے کسی ہم عصر کوی (شاعر) کا قطع پیش کرتے ہیں:

درد کہاں تک پالا جائے
یُدھ کہاں تک ٹالا جائے

تُو بھی ہے رانا کا ونشج
پھینک جہاں تک بھالا جائے

(مطلب کہ آپ ایک حد تک ہی جنگ کو ٹال سکتے ہیں، بالآخر کبھی نہ کبھی آپ کو بھالا پھینکنا ہی پڑتا ہے۔)

میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر کمار وشواس کا یہ بیانیہ ہی اصل میں مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔ اقوام متحدہ تو خود طاقت کے ایوانوں میں برہنہ رقص کرنے والی طوائف ہے۔ اس کے پاس جا کر رونا گانا کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ ہم اپنے بل بوتے پر، اپنے بازو کی قوت اور شمشیر کی طاقت سے، اپنی شہ رگ کو برہمن سامراج کے استبدادی شکنجے سے آزاد کروائیں؛ اور یہی ہمارے دین کا فلسفہ بھی ہے۔ یہ مذاکرات، قرارداد، بھاشن بازی، اس طرح کے چونچلوں سے دال نہیں گلنے والی۔

انڈیا کے پاس شاید جنگی ہتھیار ہم سے کچھ جدید اور سپاہی تعداد میں زیادہ ہوں۔ مگر ہمارے پاس جو ایمان کی قوت، جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت ہے، وہ گائے کا پیشاب پینے والے بنیے کو میسر نہیں۔ بس ذرا ایمان کی اس چنگاری کو شعلے میں بدلنے کی دیر ہے، اکھنڈ بھارت کو اسی طرح پھونک ڈالیں گے جیسے ماضی میں بوقت ضرورت اسلاف پھونکتے آئے ہیں۔

بقول ساحر لدھیانوی صاحب

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے

ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے

اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

یوسف ابوالخیر

یوسف ابوالخیر

بلاگر وفاقی اردو یونیورسٹی میں ایم اے ابلاغِ عامّہ کے طالب علم ہیں۔ مختلف اخبارات اور چینلوں سے وابستہ رہ چکے ہیں جبکہ حالات حاضرہ پر لب کشائی کرتے رہتے ہیں۔ روایتی اور مروجہ انداز و اصالیب سے ہٹ کر کچھ منفرد لکھنے کے قائل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔