لایعنی سوال!

نصرت جاوید  جمعـء 20 ستمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جاوید ابراہیم پراچہ آج کل ہمارے 24/7 چینلوں کی ضرورت بن چکے ہیں۔ اپنی کیمرے کے سامنے گفتگو سے وہ تاثر کچھ اس طرح کا بناچکے ہیں کہ جیسے بقول ان کے ’’چترال سے ژوب تک امیر المومنین ملا عمر کی قیادت میں متحرک طالبان‘‘ نواز شریف حکومت سے صلح کے مذاکرات پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ چند روز میں ان کی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس ہو گا۔ اس اجلاس میں حکومت سے مذاکرات کے لیے کوئی ’’پیشگی شرائط‘‘ نہیں رکھی جائیں گی۔ مگر حکومت کو چاہیے کہ اس اجلاس سے ’’مثبت پیغامات‘‘ کو یقینی بنانے کے لیے از خود کچھ ایسے قیدی چھوڑ دے جنھیں کافی برس پہلے گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر ابھی تک انھیں عدالتوں کے سامنے مجرم ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اس ضمن میں پراچہ صاحب خاص طور پر ان مسلم خان کا ذکر بھی فرماتے ہیں جو کسی زمانے میں سوات کے مولانا فضل اللہ کے ترجمان ہوا کرتے تھے۔

حکومت ان کے سلسلے میں کیا فیصلہ کرے گی، مجھے خبر نہیں۔ نہ ہی مجھے اس بارے میں کوئی علم ہے کہ نواز شریف صاحب کے دورئہ امریکا پر روانہ ہونے سے پہلے وہ کون لوگ ہو سکتے ہیں جنھیں ان کی حکومت اپنی جانب سے طالبان کے ساتھ ’’باقاعدہ مذاکرات‘‘ کے لیے نامزد کرے گی۔ جاوید ابراہیم پراچہ صاحب کے بارے میں کچھ لکھنے کی جرأت بھی مجھ میں نہیں۔ چوہدری نثار علی خان مجھے ذاتی طور پر بڑے اچھے لگتے ہیں۔ میں انھیں بھی ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وہ میڈیا کو بار ہا بتا چکے ہیں کہ چند صحافی اپنے ’’غیر ذمے دارانہ رویے‘‘ سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ یہ مذاکرات نہ ہوئے تو پاکستان میں امن قائم نہ ہو پائے گا۔ مزاجاََ میں اکثر اپنی پھکڑ پن کی عادت کے سبب ’’غیر ذمے دارانہ صحافت‘‘ کا ارتکاب کر جاتا ہوں۔

اسی باعث ہماری نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں نے مجھے ’’سینئر صحافیوں‘‘ کی اس فہرست سے نکال دیا تھا جنھیں وزیر اعظم وغیرہ اہم امور پر بریفنگ کے لیے بلایا کرتے ہیں۔ میرے جیسے کاہل کے ساتھ اس سے بڑی کرم فرمائی کی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ گوشے میں قفس کے (بلکہ) مجھے آرام بہت ہے۔ چترال سے ژوب تک متحرک افراد کے بارے میں اپنی فطری بزدلی کی بناء پر خاموش رہنا ویسے بھی اشد ضروری ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر چوہدری نثار علی خان کو مذاکرات کے ذریعے پاکستان میں امن قائم کرنے کی امید ہے تو مجھے اس کے امکانات کو شعوری یا غیر شعوری طور پر سبوتاژ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ میں نے اسی ملک میں رہنا ہے۔ اپنے بچوں کو اپنے مرنے کے بعد بھی اسی ملک میں رہتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اسی لیے بڑے خلوص سے دُعا گو ہوں کہ خدا چوہدری نثار علی خان کو جاوید ابراہیم پراچہ صاحب جیسے نیک طنیت لوگوں کی معاونت سے پاکستان سے دہشت گردی ختم کرنے کے مشن میں کامیاب کرے۔

میرے اس کالم کا مقصد ویسے بھی پاکستان کے بجائے افغانستان کے مستقبل سے متعلق ان سوالوں کے بارے میں ہے جو میرے ’’تخریبی‘‘ ذہن میں نہیں آئے۔ کوئی غیر ملکی سفارت کار اگر مجھے ’’گمراہ‘‘ کرنے کے لیے یہ سوالات اٹھاتا تو شاید میں انھیں اپنے بچے کھچے ایمان کی طاقت سے نظرانداز کر دیتا۔ مشکل مگر یہ پڑ گئی کہ محض اتفاق سے میری کچھ لوگوں سے چند سماجی تقریبات میں ملاقاتیں ہو گئیں۔ جو لوگ مجھے ملے وہ پاکستانی ریاست کے ایسے اداروں کے لیے بنیادی طور پر لکھنے اور پڑھنے کا کام کرتے ہیں جو دفاعی اور خارجہ امور پر نظر رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کو پتہ نہیں کیوں یہ گمان تھا کہ وزیر اعظم شاید مجھے اپنے دل کی بات بتا دیتے ہیں۔ وہ مجھ سے کرید کرید کر پوچھتے رہتے کہ نواز شریف صاحب کی ’’افغان پالیسی‘‘ کیا ہے۔

میں شرم کے مارے انھیں یہ بھی نہ بتا سکا کہ میری وزیر اعظم صاحب سے آخری ملاقات لاہور میں جنوری 2013ء کے پہلے ہفتے میں منعقد ہونے والی SAFMA کی ایک تقریب میں ہوئی تھی جہاں جنوبی ایشیاء کے سارے ممالک سے بہت سارے صحافی آئے ہوئے تھے۔ میں ایک حوالے سے اس تقریب کا میزبان تھا۔ وہاں ایک سیشن سے نواز شریف صاحب نے خطاب کرنا تھا۔ وہ پرویز رشید اور سعید مہدی کے ہمراہ ہوٹل کے خیر مقدمی لائونج میں آئے تو میں نے ان کا استقبال کیا۔ وہ بڑی گرم جوشی سے میرے گلے ملے اور اپنی واسکٹ کی دائیں جیب میں ہاتھ ڈال کر مجھے چاندی کے ورق والی ایک الائچی عنایت فرمائی۔ میں ان کے ساتھ محض حال احوال کرتا اس ہال تک پہنچا جہاں وہ تقریب ہو رہی تھی۔ اس دن کے بعد سے میری ان کے ساتھ کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ہاں قومی اسمبلی میں جب کبھی وہ تشریف لاتے ہیں تو وہاں کی پریس گیلری میں بیٹھا میں انھیں دیکھتا رہتا ہوں۔ مجھے بالکل خبر نہیں کہ افغانستان جیسے اہم معاملات کے بارے میں ان کے دل میں کیا ہے۔

میرے لیے مناسب یہی ہے کہ جو سوالات مجھ سے پوچھے گئے ہیں وہ آپ کو بتا دوں۔ ان کے جوابات مل جائیں تو مجھے بھی بتا دیجیے گا۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم پاکستانی امریکا کی افغانستان سے جلد از جلد واپسی چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش اور افغان طالبان کی مزاحمت کی وجہ سے اب امریکا 2014 کو وہاں سے چلے جانے کا وعدہ کر رہا ہے۔ پھر کیا ہو گا؟ میرا خیال ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ امریکا چلا گیا تو طالبان دوبارہ کابل میں بیٹھ کر افغانستان پر حکمرانی کرنا شروع کردیں گے۔ بات مگر اتنی سادہ نہیں ہے۔ طالبان ایک سیاسی جماعت نہیں ہے۔ یہ ایک ’’دینی قوت‘‘ ہے جو ملا عمر کو ’’امیر المومنین‘‘ مانتی ہے۔ ’’امیر المومنین‘‘ بننے کے لیے ملا عمر نے کسی انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا۔ طالبان نے ان پر بعیت کر لی تھی۔

طالبان کا امریکا کی افغانستان سے واپسی کے بعد کابل لوٹ جانا دراصل ’’امیر المومنین ملا عمر‘‘ کی ’’امارت‘‘ کا احیاء ہو گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس وقت افغانستان کے موجودہ آئین کے تحت اس ملک کا جو صدر اور قومی اسمبلی وغیرہ ہیں وہ سارے عہدے اور ادارے کالعدم ہو جائیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف جو انتخابات میں حصہ لے کر پاکستان کے آئین کے تحت اس ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں وہ اپنے ایک مسلم برادر ہمسایہ ملک کے آئین اور اس کے تحت بنے ہوئے سچے جھوٹے ’’منتخب‘‘ عہدوں اور اداروں کے ’’کالعدم‘‘ ہو جانے کے بعد اپنی سیاسی اور آئینی حیثیت کے بارے میں کیا محسوس کریں گے؟ سطحی طور پر آپ کو اس وقت یہ سوال یاوہ گوئی جیسا لایعنی محسوس ہو گا۔ مگر یقین مانیے ہماری ریاست کے لیے پالیسیاں بنانے والے اس پر کافی فکر مندی سے غور فرما رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔