سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 11 اگست 2019

خانہ پُری
بے وقت کے ’پراٹھے‘ پرائے کر جائیں گے۔۔۔!

ر۔ ط۔ م
شہرقائد میں ایک دن کی بارش سے ہی صورت حال نہایت گمبھیر ہو گئی۔۔۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ’ایم کیو ایم‘ بالترتیب مرکز، صوبے اور شہر پر حکم راں ہیں۔۔۔ مرکز اور صوبے نے دل بڑا نہ ہونے کے سبب اور ’بلدیہ عظمیٰ‘ نے فقط اختیار نہ ہونے کا رونا رو رو کر شہر کو ہلکان کیے رکھا۔۔۔ اور شہر واسی ’کسے وکیل کریں۔۔۔!‘ کی عملی تفسیر بنے رہے۔۔۔ کسی دل جلے نے ’’کراچی کو پانی دو۔۔۔!‘‘ کے نعرے میں ’پ‘ کو ’ب‘ کرنے کی شرارت بھی کر ڈالی۔۔۔! ایک طرف گندگی کے ڈھیر ہیں تو دوسری طرف ذرا سی بارش کی ٹِپ ٹِپ ہوئی اور اُدھر ’کے الیکٹرک‘ کے ’فیڈر‘ ’ٹِرپ، ٹِرپ‘ ہونے لگے۔۔۔

اب آپ چارجنگ ختم ہوتے موبائل سے 118 پر ’شکایت‘ کریں۔۔۔ نصیب اچھا ہوا اور لائن مل گئی، تو اب انتظار کے نام پر دیر تلک ’کے الیکٹرک‘ کی ’’کارکردگی‘‘ کے اشتہارات سنیے۔۔۔ وہ بھی اپنے خرچے پر۔۔۔ اور اس کے بعد بھی شکایت سنے جانے کی کوئی ضمانت نہیں۔ آپ اتنی دیر انتظار کرتے رہے، پتا چلا کسی تیکنیکی خرابی کے سبب لائن ہی منقطع ہوگئی اور اب آپ 100، پچاس روپے کا بیلنس اور موبائل کی بیٹری پھونکنے کے بعد صبر شکر کر کے ایک کونے میں پڑ جائیں۔۔۔ کیوں کہ آپ ’شہر نا پرساں‘ کے باسی ہیں!

گھروں میں اندھیرے، گلیوں میں گندگی اور کیچڑ، شاہ راہوں پر پانی، ندی نالوں میں طغیانی اور پھر کرنٹ لگنے کے حادثات میں شہریوں کی جانوں کا ضیاع۔۔۔ ایسے میں اہل اقتدار کی بے حسی ایسی ہو کہ وہ چائے سُڑکتے اور پراٹھے ٹھُستے دکھائی دیں۔۔۔ تو اس سے زیادہ شرم ناک بات بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔۔۔ یہی منظر کراچی والوں کو غم وغصے میں مبتلا کر گیا، جب گورنر سندھ عمران اسمعٰیل اور کراچی کا ’اپنا میئر‘ وسیم اختر کو بے وقت چائے اور پراٹھے پر بانچھیں کھِلاتے دیکھا۔۔۔ شہر میں باران رحمت ’زحمت‘ بن چکا ہے اور آپ کو اپنی ذمہ داری کا احساس تو درکنار آپ تو موسم کا لطف لینے بیٹھ گئے۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ جَنتا کے دُکھڑے میں ہی باہر نکلے ہوں، مگر صاحب! یہ چائے پراٹھے پر کہیں فکر بھی تو دکھائی دے جاتی، لوگ مر رہے ہیں اور آپ ہیں کہ انہیں ’پانی‘ میں چھوڑ کر ’چائے‘ پر کھلکھلائے چلے جا رہے ہیں۔۔۔

کیا ’تبدیلی سرکار‘ کا گورنر بھی بس زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ہے اور شہر کی ’مسلسل نمائندگی‘ کا دَم بھرنے والے ’اپنوں‘ کو برسات میں ایک پراٹھے پر پرائے کر گئے۔۔۔ یا اب کوئی ’جواب دہی‘ نہ ہونے کا احساس انہیں کچھ زیادہ ہی بے پروا کر گیا۔۔۔؟ سچی بات تو یہ ہے کہ 2001ء کے بلدیاتی نظام میں کراچی بہتر ہونے لگا تھا۔۔۔ پہلے جماعت اسلامی اور پھر متحدہ قومی موومنٹ کے ناظمین نے اس نظام میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن پھر نہیں معلوم اس شہر کو کس کی نظر لگی کہ ایک ’آمر‘ کے بعد تین مختلف جماعتوں نے مرکزی اقتدار پایا، مگر ملک کی معاشی شہ رگ کے لیے یہ جمہوری جماعتیں ایک ’آمر‘ جیسا دل ذرا بھی نہ دکھا سکیں۔۔۔! نتیجتاً شہر بد سے بدترین کی طرف گام زن ہے۔۔۔ اور اب تو انتہا یہ ہے کہ اب یہاں کے حاکم خلق خدا کو مرتا چھوڑ کر ’بے وقت کی چائے‘ پر ہنستے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ !

۔۔۔

روشنی کا سراب۔۔۔
مریم مجید ڈار، آزادکشمیر

برسات کی بھیگی، بے اعتبار راتوں میں جب ہوا نمی سے اتنی بوجھل ہوتی ہے کہ پھیپھڑوں سے نکلا ہوا سانس بھی نیلگوں سفید غبار کی صورت فضا میں ٹھیرا ہوا نظر آتا ہے اور سیلن کی مہک سبزے کی خوشبو میں گھل مل کر گھنی سی اکتاہٹ بن جاتی ہے۔۔۔ جیسے جوہڑ کی سطح پر ہلکے ہلکے سانس لیتی کائی ہو، تو ایسی دم سادھ کیفیت میں جو شے طبعیت کی بیزاری کو قدرے راحت میں بدل دیتی ہے وہ سیاہ اندھیری رات میں پھلجھڑیوں کی مانند چمکتے اور جھلملاتے ہوئے جگنو ہیں۔ جیسے ستارے زمین پر آ کر شرارت سے اٹکھلیاں کرتے ہوں یا کسی ماہ رو کی سیاہ زلفوں میں کتری ہوئی افشاں کے ذرے جھلملاتے ہوں۔ ابھی جھاڑی پر ہیں تو ابھی پیڑوں کی شاخوں میں جا چمکے۔ کبھی کسی ڈال پر تو کبھی اس پات پر روشن ہو رہے ہیں۔

شہروں سے تو روشنی کے یہ ننھے استعارے ایک عرصہ ہوا معدوم ہو چکے ہیں کہ کیڑے مار ادویات نے شاید ان کی نسل ہی ختم کر دی، مگر پہاڑوں کے دامن میں اب بھی ان کے لیے پناہ گاہیں اور سازگار ماحول میسر ہے اس لیے برساتیں اب بھی ان کے وجود سے منور ہو جاتی ہیں۔ بچپن میں شدت سے جی چاہتا تھا کہ اس ٹھنڈی آگ کو مٹھی میں لے کر دیکھیں تو آخر یہ جلتی بجھتی کیسے ہے، مگر بدقسمتی سے کوئی جگنو قید کرنا نہ آیا۔۔۔ ہر بار مٹھی خالی ہی ملتی اور جگمگ کرتے ننھے ستارے دست رَس سے ہمیشہ پرے ہی رہے۔ اور ایک جگنو پر ہی کیا منحصر، تتلیاں، بھنورے اور گھاس کے ٹڈے بھی کسی جادو کے زیراثر میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر غائب ہو جاتے تھے۔ ایک بس لیڈی بگ بیٹل کا دم غنمیت تھا، جو میری انگلی کے پورے سے چلتی ہوئی ہتھیلی کا سفر کرتی اور پھر یک دم دو ننھے کالے پر سرخ خول کے نیچے سے برآمد ہوتے اور وہ اڑ جاتی۔ دیر تک اس کی تنکوں سی ٹانگوں کے لمس سے میرے ہاتھ پر گدگدی ہوتی رہتی تھی۔

کل رات ایک جگنو از خود میری برسوں پرانی خواہش کو پورا کرنے میرے ہاتھ پر آ بیٹھا اور میں سانس روکے اس کرمک شب کور کو دیکھنے لگی۔ چھوٹا سا بھورے پروں والا پتنگا جس کے پیٹ کے پچھلے حصے سے سبزی مائل روشنی پھوٹ رہی تھی۔ میں سِحر زدہ سی اسے دیکھا کی۔ جگنو کی لو کبھی مدھم پڑ جاتی اور کبھی تیز ہو جاتی۔

روشنی۔۔۔! جسے سمیٹنے کی چاہ میں مجھ سے اندھیرے بھی کھو گئے ہیں۔ کچھ پل ننھا جگنو میرے ہاتھ پر چمکتا رہا اور پھر اڑ گیا۔ میں نے اس جگہ کو انگلی سے چھوا۔ کچھ بھی تو نہ تھا، مگر جگنو کی روشنی سے جیسے ہتھیلی کا وہ حصہ دہک رہا تھا۔ میں نے بے ساختہ مٹھی بند کر لی اور ایک انگلی سے ذرا سی درز بنا کر اندر جھانکا۔ وہاں بالکل بھی روشنی نہ تھی۔ محض واہمہ تھا۔ اور ہم تو ساری زندگی واہموں میں، روشنی کے سراب میں بھٹکتے یوئے اندھیروں کو تن پر اوڑھ لیتے ییں۔۔۔ روشنی۔۔۔! روشنی۔۔۔!

۔۔۔

Miss Management یاMismanagement
امجدمحمودچشتی، میاں چنوں

کہتے ہیں کہ ہر خاندان کسی نہ کسی ’مِس مینجمنٹ‘ کے بَل بوتے پر چل رہا ہوتا ہے۔ یہ ’مِس مینجمنٹ‘ زیادہ تر ماں، بہن یا بیوی وغیرہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ ہمارے سماج میں عورت اپنی، اپنے گھر، اپنے گھر والے، اپنے بچوں اور باقی اہل خانہ کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے۔ ہر کام یاب اور ہر ناکام شخص کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا کردار ضرور شامل ہوتا ہے۔ خاندان اور معاشرہ کے استحکام اور بگاڑ میں عورت کے روّیوں کو اوّلیت حاصل ہے۔ اس لیے کہیں پر یہ iss Management M ہے تو کہیں پر Mismangement بھی ہے۔ تاہم ایک بات مسلم ہے کہ زیادہ ’مِسوں‘ پر مشتمل مینجمنٹ، اکثر ’مس مینجمنٹ‘ کا شکار ہی رہتی ہے۔

متوسط طبقوں میں بیویاں زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے بڑھنے کا جنون رکھتی ہیں۔ جس کے سبب اُن کے شوہر اکثر مقروض رہتے ہیں۔ وہ اپنے میاں کے کپڑوں کی (مع جیب) دھلائی کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک ہائی کلاس یا برگر کلاس بھی موجود ہے۔ جن میں شوہروں کو سماجی و معاشرتی ضرورت کے تحت ’رکھا‘ جاتا ہے۔ ان کی مصروفیات میں سیاسی و سماجی خدمات، تقریبات اور پارلر نمایاں ہوتے ہیں۔ اُن کے شوہر زن مریدی کی معراج پہ متمکن ہوتے ہیں۔ خواتین پہ ذوقِ جمالیات کے ساتھ ساتھ باتونیت کی تہمت بھی لگائی جاتی ہے۔ اس کے لیے دلیل دی جاتی ہے کہ اردو صرَف میں الف سے پہلے آنے والا وائو ساکن ٹھیرتا ہے، مگر خواتین میں آیا ہوا ’’و‘‘ بول اُٹھتا ہے۔ کچھ حضرات اس بات پہ نہال ہیں کہ عورتوں کی اکثریت جنت کے لیے کوالیفائیڈ نہ ہوگی۔ جہاں تک سسرال کا تعلق ہے، تو سسرال میں صرف دو روایتی آلات پائے جاتے ہیں۔ دلہن کی خوبیوں کو ٹیلی سکوپ اور خامیوں کو مائیکرو سکوپ سے دیکھا جاتا ہے۔

سسرالی نظریں دلہن کے آداب اور سُگھڑ پن کی متلاشی رہتی ہیں، مگر اپنی ادائوں پہ غور کا رواج نہیں۔ چند برس بعد دلہن ساس بن کر تاریخ دُہراتی ہے۔ کچھ لوگ ہر روپ میں عورت کے کردار کو سراہتے ہیں کہ جب انسان بچہ ہوتا ہے تو علی الصبح ماں جگاتی ہے، اُٹھو بیٹا اسکول جانا ہے۔ ایسے ہی بہن بھائی کو جگاتی ہے۔ شادی ہوئی تو بیوی نے کہا، اُٹھیں جی! دفتر کا وقت ہونے والا ہے۔ جب باپ بنا تو ننھی بیٹی نے جگایا، اُٹھو بابا مجھے اسکول نہیں چھوڑنا کیا، اور جب بیٹا بیاہ دیا تو سویرے بہو کی آواز کانوں میں گونجتی ہے پاپا اُٹھیے، ناشتے کا وقت ہوا ہے اور دوا بھی لینا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ پیٹے جائیداد اور بیٹیاں دکھ بانٹتی ہیں۔

۔۔۔

مبارک ہو۔۔۔!
مرسلہ:سارہ شاداب،لانڈھی،کراچی
میرا دیا ہوا ’فرینڈز فور ایور‘ کا کارڈ دیکھتے ہوئے تم نے کہا تھا کہ کچھ بھی فور ایور نہیں ہوتا۔ ’فور ایور کی ساری خواہشیں فضول اور فارغ ہوتی ہیں۔۔۔

اور یہ تم نے اس دن کیا کہا تھا کہ ’ہم زیادہ دور اور دیر نہیں چل سکتے۔۔۔‘‘

یہ جوتشیوں کا جوگ۔۔۔ تم میں جوانی میں جگا تھا یا تم۔۔۔ پیدایشی ایسی تھیں، اتنا ’’سیانا پن‘‘ کہاں سے سیکھا تم نے۔

جب کچھ پیش گوئی ہی کرنا ہو تو لوگ اچھا کیوں نہیں کرتے؟ برے کا بھار کیوں اٹھاتے ہیں؟

سن لو پھر۔۔۔!
تمہاری ’پیش گوئی‘ ۔۔۔ سیان پن۔۔۔ مبارک ہو!
(ابنارمل کی ڈائری، از صابر چوہدری سے اقتباس)

۔۔۔

محبت میں ’’جلاوطنی‘‘
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
’’ٹھیرو! میں تمہیں اتنی آسانی سے نہیں جانے دوں گی۔۔۔!‘‘

سُمیتہ نے اُس کا ہاتھ زور سے کھینچ کر دوبارہ کرسی پر بٹھا دیا۔

وہ سُمیتہ کے اس رویے پر دم بخود رہ گیا، لوگ ان کی طرف دیکھ رہے تھے اور وہ اس کی بے وقوفانہ حرکت پر سٹپٹا گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور حماقت کرتی، وہ بولا ’’کیا حرکت ہے یہ۔۔۔؟‘‘
سُمیتہ حقارت آمیز لہجے میں بولنے لگی ’’تم میری بات کا جواب دو گے یا نہیں؟‘‘
اس وقت اس کی آنکھوں میں عجیب سی سراسیمگی تھی، شاید اس ذہنی کیفیت خراب ہو چکی تھی، اس کے حواس بھی قابو میں نہیں رہے۔ اُسے لگا اگر وہ چلا گیا، تو وہ بعد میں خود اپنے ساتھ کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا لے۔ اس نے دبی آواز میں کہا ’’پوچھو تم کیا پوچھنا چاہتی ہو؟‘‘
وہ بولی ’’بتائو! تم نے میری نفرت کے باوجود مجھ سے محبت کیوں کی؟ جب کہ تمہیں اس بات کا علم تھا ہمارا ایک ہونا بالکل ناممکن ہے؟‘‘
وہ بولا ’’اگر تمہیں سچ جاننے کا اتنا اصرار ہے تو پھر سنو۔۔۔
تمہیں اپنی سال گرہ یاد ہے؟ 31 دسمبر، سرد ترین شام۔۔۔
یخ بستہ ہوائوں میں جب میں دو دریا کے ایک ریستوراں میں تمہاری ہی فرمائش پر بنائے ہوئے خصوصی کیک کے ساتھ تمہارا پورے دو گھنٹے تک انتظار کرتا رہا تھا۔۔۔ تم نے آنے کا وعدہ بھی کیا تھا اور آئی نہیں تھیں۔

سُمیتہ بولی ’’ہاں! میں بھول گئی تھی اور۔۔۔‘‘
’’سُمیتہ! ہم روزانہ درجنوں لوگوں کو دیکھتے اور ملتے ہیں۔۔۔‘‘اُس نے سُمیتہ کی بات کاٹ دی، پھر بولا:
’’بہت سے لوگ ہمیں اچھے لگتے ہیں، ہمارے دل کو چھونے بھی لگتے ہیں، لیکن سُمیتہ ہم ان سے محبت تو نہیں کر سکتے۔۔۔ شاید دنیا میں ہر جذبے، ہر رشتے کا متبادل موجود ہے، لیکن محبت کا نہیں، کچھ لوگوں نے محبت کو وقتی غم بھی قرار دیا، لیکن وہ جو ہجر میں عالم بے خودی میں چلے جاتے ہیں اور کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں۔۔۔
رہا تمہاری نفرت کے جواب میں میری محبت کا سوال، تو اس کا جواب تم اپنے اندر تلاش کرو۔۔۔‘‘ وہ چُپ ہوگیا۔
’’اور وہ کیک جس پر تم نے اپنے ساتھ میرا نام لکھوایا تھا۔۔۔؟ ‘‘ سُمیتہ نے نظریں چراتے ہوئے پوچھا۔
اُس نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا ’’وہ میں نے ریستوراں سے کچھ دور بیٹھے ہوئے جُھگی نشینوں میں بانٹ دیا تھا، تمہارے لیے یہ دعا کرتے ہوئے کہ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے اور مجھ جیسا ناکام شخص تمہیں دوبارہ کبھی نہ ملے۔

سُمیتہ اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ملتجی لہجے میں بولی’’ایک بار مان جائو!‘‘
وہ بولا ’’محبت سے ٹھکرایا ہوا انسان جلاوطن شہری ہوتا ہے، جس کی اپنے وطن کی ’شہریت‘ منسوخ ہو چکی ہوتی ہے، اور پھر وہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے… جس کی زندگی اپنی ہوتی ہیں نہ مرضی اور شاید محبت بھی نہیں۔ اب میں وہ نہیں رہا، جس سے تم نے نفرت کی تھی۔۔۔
بہت دیر ہو چکی، اب میں کسی اور کے رحم و کرم پر ہوں۔۔۔ اس لیے مجھے اب تم میرے حال پر چھوڑ دو!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔