پی ٹی آئی کارکنوں کے باہمی اختلافات

محمد ساجدالرحمٰن  جمعرات 15 اگست 2019
پی ٹی آئی کارکنان کے باہمی اختلافات اکثر میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پی ٹی آئی کارکنان کے باہمی اختلافات اکثر میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے اور اسی طرح سیاسی جماعتوں میں بھی یہ عنصر واضح طور پر پایا جاتا ہے۔ پارٹی قیادت کی جانب سے اس معاملے کو متوازن رکھنے کی بہت ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اگر معاملات پارٹی صدر کے اختیارات سے تجاوز کرجائیں تو بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں میں ہم خیال گروپ ضرور ہوتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختلاف رائے سے بننے والی دھڑے بندیاں سنگین صورتحال اختیار کرلیتی ہیں۔

عام انتخابات 2018 کے دوران رہنماؤں میں بڑھتی کشیدگی کے باعث مسلم لیگ (ن) کو نہ صرف الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ فارورڈ بلاکس بننے کے باعث پوری پارٹی بکھر کر رہ گئی۔ پی ٹی آئی بھی عدم براشت کی بڑھتی صورتحال کے باعث رفتہ رفتہ اِسی نہج پر پہنچنےوالی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو اتحادیوں کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن پی ٹی آئی رہنماؤں کے غیرسنجیدہ رویوں کے باعث عمران خان کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی ایک دوسرے پر لفظی گولہ بازی معمول بن چکی ہے۔

انتخابات 2018 کے دوران شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان شروع ہونے والی سرد جنگ تو وزیراعظم عمران خان کی مداخلت کے باعث ظاہری طور پر ختم ہوگئی، لیکن نوک جھوک ابھی بھی جاری ہے۔ کچھ روز قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے گئے جہانگیر ترین کا کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرنا پارٹی کےلیے اچھا نہیں ہے۔ وزیر خارجہ کے اس بیان پر چینی کے بادشاہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جب تک انہیں عمران خان کی حمایت حاصل ہے، انہیں کسی کی پروا نہیں۔

ان غیرضروری بیانات کے باعث تحریک انصاف کے اندر تقسیم کافی گہری ہوتی نظر آرہی ہے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور وزیر سیاحت عاطف خان میں نوک جھوک الیکشن 2018 میں شروع ہوئی۔ خیبر پختونخوا کے موجودہ وزیراعلیٰ کا پرویز خٹک کے گروپ سے تعلق ہے، جبکہ عاطف خان اور شہرام ترکئی کا علیحدہ گروپ ہے۔ دونوں گروپوں کے درمیان اختلافات انتخابات 2018 سے قبل بھی جاری تھے۔ جب پرویز خٹک وزیراعلیٰ تھے تو بہت عرصے تک عاطف خان اور شہرام ترکئی سمیت ان کے گروپ کے ممبران اسمبلی اور کابینہ کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ پرویز خٹک نے جب الیکشن 2018 میں وزیراعلیٰ کےلیے محمود خان اور شاہ فرمان کا نام تجویز کیا تو عاطف خان اور ان کے گروپ نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ بنی گالہ میں عمران خان کی زیر قیادت ہونے والی میٹنگ میں دونوں گروپوں کے ممبران کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عاطف خان بطور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کپتان کے پسندیدہ امیدوار تھے لیکن پرویز خٹک کی جانب سے دباؤ کے باعث عمران خان نے محمود خان کو خیبرپختونخوا کا قلمدان سونپا۔

علیم خان وزیراعلیٰ پنجاب کے مضبوط ترین امیداوار تھے، لیکن عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بننے پر پنجاب میں صورتحال کافی حد تک تبدیل ہوچکی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں چھوڑ کر آنے والے نئے سیاستدان ہم خیال گروپ بناتے ہیں۔ اسی طرح جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کی بڑی تعداد کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد نیا گروپ منظر عام پر آیا اور عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بننے کے ساتھ دیگر کئی اہم وزارتیں بھی ان رہنماؤں کے حصے میں آئیں، جس سے پارٹی کے نظریاتی رہنماؤں میں شدید تحفظات پائے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے کئی رہنما فصلی بٹیرے ہیں، جو محض اقتدار کےلیے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں دیر نہیں کرتے۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ میں کئی ایسے سیاستدان ہیں، جو اس سے قبل مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔

گورنر چوہدری سرور اور علیم خان کے اختلافات بھی وقتاً فوقتاً اخباروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ پی ٹی وی کے نئے ایم ڈی ارشد خان کی تعیناتی کے بعد فواد چوہدری کی جانب سے اس فیصلے کی نہ صرف مخالفت کی گئی بلکہ احتجاج کے ساتھ ساتھ ایم ڈی کے خلاف منظم تحریک بھی چلائی۔ لیکن نعیم الحق کے اثرانداز ہونے پر وزیر اطلاعات و نشریات (موجودہ وزیر سائنس) کو خاص کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ایم ڈی کی تعیناتی وزیراطلاعات کی مرضی پر ہوتی ہے۔ سیاسی نجومیوں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ نعیم الحق سے لفظی جنگ فواد چوہدری کی وزارت سے برطرفی کی وجہ بنی۔

کچھ سیاسی اکابرین کا نقظہ نظر ہے کہ پی ٹی آئی میں پیسہ خرچ کرنے والوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور وہی لوگ عمران خان کے اردگرد نظر آتے ہیں۔

یکم جون 2019 کو فواد چوہدری نے شکوہ کیا تھا کہ پارٹی قیادت کی جانب سے اہم فیصلے کیے جاتے ہیں، لیکن کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی سابقہ وزارت میں غیر منتخب افراد نے مداخلت کی۔ فیصلے منتخب افراد کو ہی کرنے چاہئیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزارتوں میں ردوبدل بھی غیر منتخب افراد کے باعث ہوئی۔ انہوں نے واضح الفاظ میں پی ٹی آئی میں منتخب اور غیر منتخب افراد کے درمیان ہونے والی سرد جنگ کی جانب اشارہ کیا۔

وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اس بیان پر فردوس عاشق اعوان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی عقل کُل نہیں ہوتا، اگر پارٹی میں کوئی مشورہ دے تو وہ مداخلت نہیں ہوتی۔ فواد چوہدری کو چھوٹی سوچ سے تشبیہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ اگر انہیں کوئی تحفظات ہیں تو پارٹی قیادت سے بات کریں۔

گزشتہ چند ماہ سے فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان کے درمیان لفظی جنگ میں شدت آئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا کے بعد فواد چوہدری نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن میں پاکستانیوں سے خطاب کے دوران وزیراعظم کو امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر بھی بات کرنی چاہیے تھی۔ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ فواد چوہدری صاحب پارٹی پالیسی اور وزیراعظم کے وژن سے ہٹ کر گفتگو کررہے ہیں۔ فواد چوہدری کے درد کا بھی سب کو علم ہے۔

پی ٹی آئی میں معاملہ صرف یہیں ختم نہیں ہوا، بلکہ وزیراعظم کے انتہائی قریبی ساتھی اسد عمر بھی پارٹی قیادت کے فیصلوں کے خلاف کھل کر بولتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پر واضح کردیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ایک راستہ ہے، مجبوری نہیں ہے۔ انہوں نے عمران خان کو آئی ایم ایف سے بچنے کےلیے متبادل راستہ بھی پیش کیا تھا، لیکن وزیراعظم نے یہ تجویز قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی سبکدوشی سے ایک ماہ قبل وزیراعظم عمران خان کو آئی ایم ایف کا متبادل پلان پیش کردیا تھا۔ متبادل تجاویز میں سرمایے کی عالمی مارکیٹ میں عمران خان کی نیک نامی اور خلیجی ملکوں سے پاک فوج کے تعلقات کا فائدہ اٹھانا شامل تھا۔ عہدے سے سبکدوشی کے بعد اسد عمر انتہائی مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔

شیریں مزاری، شفقت محمود اور نعیم الحق کے گروپ کو پوری پارٹی پر سبقت حاصل ہے، جبکہ جہانگیر ترین، فواد چوہدری، پرویز خٹک اور عمر ایوب بھی ہر ممکن ہر حد تک پارٹی کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما اپنے فیصلوں کو منوانے کی خاطر اکثر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی میں اختلافات کی صورتحال اسی طرح برقرار رہی تو عمران خان کےلیے اتحادیوں کے ساتھ پارٹی ورکرز کو بھی سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔