تحریک آزادی کشمیر

اعزاز احمد کیانی  بدھ 14 اگست 2019
کشمیر میں تحریک آزادی کی داغ بیل 1930 کی دہائی کے اوائل میں رکھی جاچکی تھی۔ (فوٹو: فائل)

کشمیر میں تحریک آزادی کی داغ بیل 1930 کی دہائی کے اوائل میں رکھی جاچکی تھی۔ (فوٹو: فائل)

کشمیر کے متعلق اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر میں تحریک آزادی نوے کی دہائی میں شروع ہوئی۔ جبکہ کچھ دیگر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک آزادی قیام پاکستان اور تقسیم برصغیر کے بعد شروع ہوئی۔ یہ دونوں آرا بنیادی طور پر اور تاریخی تناظر میں درست نہیں۔

کشمیر میں تحریک آزادی کی داغ بیل 1930 کی دہائی کے بالکل اوائل میں رکھی جاچکی تھی۔ کشمیر میں جماعت سازی کی بنیاد ریڈنگ روم سے رکھی گئی تھی۔ نام ہی سے ہویدا ہے کہ یہ کس قسم کی تنظیم ہوگی اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہوئے ہوں گے۔

ریڈنگ روم کا قیام اس وقت کے انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے عمل میں لایا تھا، جس کا مرکزی دفتر مقبوضہ کشمیر میں تھا۔ ان نوجوانوں میں ایک نام شیخ محمد عبداللہ کا تھا، جو بعد ازاں شہرت کی بلندیوں کو پہنچا۔ شیخ محمد عبداللہ اس وقت پورے کشمیر میں پہلا نوجوان تھا جس کے پاس کیمیات میں ماسٹرز کی سند تھی۔ ان کے دیگر رفیق بھی اس سطح کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس وغیرہ جیسی مشہور و بڑی سیاسی جماعتیں اس کے بعد وجود میں آئیں۔

کشمیر کی تاریخ کے تمام تاریخی اور الم ناک واقعات مقبوضہ کشمیر میں ہی رونما ہوئے۔ عیدین پر مسلمانوں کےلیے پانی کی بندش، توہین قرآن کے واقعات اسی دور میں رونما ہوئے۔

جولائی کا واقعہ جو ہر سال کشمیر کے دونوں حصوں میں یوم شہدا کے نام سے منایا جاتا ہے، بھی اسی عہد میں اور اسی قطعے میں وقوع پذیر ہوا، جس میں ہزاروں کے مجمعے پر سرعام گولیاں برسائی گئیں۔ پریس کی بندش، رہنماؤں کی نظربندی اور گرفتاریاں بھی اسی عہد اور اسی خطے میں ہوئیں۔ کشمیر اور کشمیریوں کے حقوق کے تعین کی صدائیں بھی انہی زبانوں سے بلند ہوئیں۔ کشمیریوں کے حقوق کی خاطر علامہ اقبال کے تعاون سے کمیشن اسی خطے میں بنایا گیا۔ الغرض قیام پاکستان سے پہلے ہی تحریک آزادی کشمیر پوری آب و تاب سے جاری تھی۔ اور یہ تمام جدوجہد کشمیر کے پُرامن لوگوں کی تحریک تھی۔

کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کی تمام عہد ساز اور مشہور شخصیات اسی وادی میں پیدا ہوئیں اور تمام جماعتیں اصلاً وہیں قیام میں آئیں۔

تقسیم کے وقت برصغیر کی سیکڑوں ریاستوں کا فیصلہ ہونا تھا، جن میں ریاست کشمیر بھی شامل تھی۔ کشمیر ایک کثیرالمسلم ریاست تھی، جس نے خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا۔ مگر بعد ازاں پنڈت جواہر لعل نہرو، جو بعد ازاں کشمیر کے وزیراعظم بھی رہے، کے کہنے پر مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کیا اور ہندوستان کی فوجیں کشمیر میں اتار دی گئیں۔ جواباً پاکستانی فوجیں بھی مقابل اتریں اور 1949 تک جنگ جاری رہی۔ مسئلہ اقوام متحدہ میں گیا اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی قراردادتیں منظور ہوئیں۔ اس عہد تک کسی طور اور کسی ادنیٰ درجے میں بھی کسی مسلح جدوجہد کا آغاز نہیں ہوا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد بھی تحریک آزادی جاری رہی، یہاں تک کہ قریباً نوے کی دہائی میں مسلح جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔ تحریک کے آغاز کے تقریباً ساٹھ سال یعنی نصف صدی گزرنے کے بھی ایک دہائی بعد یہ جدوجہد شروع کی گئی۔ یہ جدوجہد دراصل ہندو افواج کے مقابل تھی۔ یہاں کچھ دوسرے عناصر پر البتہ بحث کی جاسکتی ہے۔ اس دوران ہندوستان کی جانب سے کشمیریوں پر ہر وہ ظلم کیا گیا، جو کیا جاسکتا تھا۔ یہاں تک نہتے مظاہرین پر پیلٹ و پاوا تک کا استعمال کیا گیا۔

نصف صدی کے طویل انتظار و جدوجہد کے بعد افواج سے براہِ راست تصادم کو کسی طور ناقابل قبول نہیں کہا جاسکتا۔ یہ انسانی صبر کی آخری حد ہے، جس کے بعد شاید مزید صبر فطرت انسانی میں ہی نہیں ہے۔ یہ تحریکوں کا عام مزاج ہے کہ طویل جدوجہد کے بعد وہ کچھ عملی اقدام ضرور اٹھاتی ہیں، جو ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ ہندوستانی افواج کے خلاف یہ مسلح جدوجہد تحریک آزادی کے فطری ارتقا کا نتیجہ تھا۔

ہندوستان کا حالیہ اقدام سراسر ظلم ہے۔ آخر کوئی کس طرح ہندوستان کے اس اقدام کی حمایت کرسکتا ہے کہ لاکھوں کی آبادی کو یک جنبش قلم، تمام ملکی و بین الاقوامی قوانین، و جمہوری اصول، عالمی قراردادوں اور لاکھوں زندہ انسانوں کی آرا کو بالکل بالائے طاق رکھتے ہوئے، ابدی طور پر اپنے ساتھ ملا لیا جائے۔ یہ اقدام نہ صرف اہل کشمیر کےلیے یوم سیاہ ہے، بلکہ خود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔