’’جنت‘‘ کے مکین خطرے میں

مناظر علی  منگل 13 اگست 2019
جنت نظیر مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارتی مظالم کا شکار ہیں۔ (فوٹو: فائل)

جنت نظیر مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارتی مظالم کا شکار ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ایک منٹ کےلیے آپ تصور کرلیں کہ آپ کے گھر کا آٹا ختم ہوجائے، آپ کے بچوں کو پلانے کےلیے دودھ دستیاب نہ ہو، پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، سپلائی بند ہو یا بجلی بند ہونے سے آپ کی موٹر نہ چل رہی ہو، ایک بند گھر میں جہاں کھڑکی نہ ہو، آپ کا پنکھا اور روشنی بند ہوجائے، انٹرنیٹ کے اس دور میں اگر آپ کے پاس رابطے کے سارے ذرائع جواب دے جائیں اور اگر آپ کی گلی میں آگ لگی ہو، آپ گھر سے باہر نہ نکل سکیں، تو سوچیں کیا ہوگا؟ اگر چشم تصور سے آپ نے اس خوفناک منظر کو دیکھ لیا ہے تو پھر ذرا سوچیں مقبوضہ کشمیر میں اس وقت کیا ہورہا ہے؟

دنیا کو کچھ معلوم ہے؟ بھارتی میڈیا تو جشن مناتے ہندوؤں کو دکھا رہا ہے، کیا کہیں کوئی کشمیری باشندہ نظر آرہا ہے جو یہ بتاسکے کہ وہاں انسانیت کے ساتھ کیا بیت رہی ہے؟ یقیناً یہی جواب ہوگا کہ نہیں معلوم وادی کشمیر میں اس وقت کیا صورتحال ہے۔

میں نے عالمی میڈیا پر چلنے والے ایک ٹی وی پروگرام میں ایک ویران سڑک کی فٹ پاتھ پر سہمے، ڈرے اور بے یقینی کی صورتحال میں لرزتے ہونٹوں سے ایک کشمیری کی کچھ گفتگو سنی، جو یہ کہہ رہا تھا کہ مودی سرکار کو کشمیری باشندوں سے کوئی سروکار نہیں، کوئی مر جائے یا جیتا رہے، ان کی بلا سے۔ بھارت سرکار کو صرف کشمیر کی زمین چاہیے۔ اس کےلیے چاہے انہیں تمام کشمیریوں کو ذبح ہی کیوں نہ کرنا پڑجائے۔

اب تک ذرائع سے موصول ہونے والی خبروں اور آخری رابطے تک بنائی گئی تصویروں اور ویڈیوز میں کشمیر کی خوفناک صورتحال کو سمجھنا مشکل نہیں۔ یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ اس وقت کشمیری باشندے کس کرب میں مبتلا ہوں گے۔ عام دنوں میں جب انڈین فوج نے کشمیریوں کا جینا حرام کر رکھا تھا، اب کی بار جب وہاں کرفیو نافذ ہے اور بھارت سرکار اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے میں آخری حد تک جاچکی ہے، کشمیری باشندوں کا غم وغصہ فطری عمل ہے۔

جب پوری دنیا کے انسان بھارت کے اس اقدام پر انہیں لعن طعن کررہے ہیں اور تو اور بھارت کے اندر ہی سمجھ بوجھ رکھنے والے اس ظلم کی انتہا پر آواز بلند کررہے ہیں، تو یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ مودی سرکار وادی سے اٹھنے والی آزادی کی تحریک میں تیزی سے بوکھلا چکی ہے اور اس کی گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے کشمیریوں کو گھروں میں محصور کر رکھا ہے۔ انہیں ذرا بھی شرم نہیں آرہی کہ وہاں محصور خواتین کس حال میں ہوں گی، بچے بھوک سے بلک رہے ہوں گے، بیمار دوا نہ ملنے سے مر رہے ہوں گے اور نوجوان اپنے مستقبل تو کیا اپنی زندگی کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہوں گے۔ جہاں کشمیری قائدین کو پل بھر میں پابند سلاسل کردیا گیا ہے، وہاں عام آدمی کی انہیں کیا فکر ہے۔

بھارت کا مکروہ چہرہ اور عزائم تو پہلے ہی سب کو معلوم تھے، مگر اب کشمیریوں کو بھوک اور پیاس سے مارنے کے منصوبے پر نجانے عالمی ادارے اور این جی اوز ابھی تک خاموش کیوں ہیں؟ انسانی حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیمیں کیا بھارت سرکار کو یہ شرم دلانے کی جرأت نہیں رکھتیں کہ ہمیں وہاں جاکر کم ازکم انسانی زندگیوں کو تو بچانے دیا جائے۔ وہاں بیماروں کا علاج شروع ہوسکے اور بچوں کو مرنے سے بچایا جاسکے۔ جو تنظیمیں جانوروں کی زندگی بچانے کےلیے کروڑوں ڈالرز خرچ کردیتی ہیں، کیا کشمیری انسان انہیں نظر نہیں آرہے؟

کشمیر کی آزادی کے ساتھ ساتھ اس وقت سب سے پہلے دنیا کو کشمیری عوام کی زندگیاں بچانے کی فکر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اگر دنیا نے دیر کردی تو شاید بھارت کا متعصب ہندو خود کےلیے خطرہ سمجھنے والے مسلمان کو پہلے ہی ختم نہ کردے۔ جس ملک کے لوگ گائے کا گوشت کھانے پر مسلمان کا خون بہانے سے گریز نہیں کرتے، جہاں برداشت نام کی کوئی چیز ہی نہیں، وہاں کشمیری عوام کو کیسے محفوظ تصور کیا جاسکتا ہے۔

عالمی برادری کے زبانی بیانات سے کچھ فائدہ نہیں ہونا، یہاں عملی طور پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، تاکہ پیاسے کشمیریوں کو پانی مل سکے، بھوکے بچوں کو کھانا دیا جاسکے اور بیماروں کا علاج شروع ہوسکے۔ اگر اب بھی عالمی برادری خاموش رہی تو پھر کشمیری جانیں ہمیشہ کےلیے خاموش ہوجائیں گی۔ کشمیر کے نظاروں کو آگ کے شعلوں میں بدلنے سے بچانے کے ساتھ زندگیاں بچانے کی بھی ضرورت ہے، کیوں کہ یہی وہ زندگیاں ہیں جن سے مل کر یہ وادی جنت نظیر کہلاتی ہے۔ جنت میں اگر اس کے اصل حقدار ہی نہیں ہوں گے تو پھر یہ جنت بے رونق ہوجائے گی۔ اس وقت اس ’’جنت‘‘ کے مکینوں کی زندگی خطرے میں ہے۔ اگر کسی کو اس ’’جنت‘‘ سے پیار ہے تو پھر ان لوگوں کو بچانا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔