کمراٹ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بن سکتا ہے

محمد فاتح ملک  اتوار 11 اگست 2019
وادی کمراٹ کے مقبول سیاحتی مقام سراج آبشار، کالا چشمہ ہیں۔ (تصاویر: بلاگر)

وادی کمراٹ کے مقبول سیاحتی مقام سراج آبشار، کالا چشمہ ہیں۔ (تصاویر: بلاگر)

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے انتہا قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات ساری دنیا سے مختلف ہیں۔ اس کی ایک وجہ دنیا کے تین بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کا پاکستان میں ہونا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ اس ملک خداداد کی حسین وادیوں سے ہم وہ فائدہ نہ اُٹھا سکے جو اُٹھانا چاہیے تھا۔ یورپ کے کئی ممالک مل کر بھی سیر و سیاحت کے وہ مقامات پیدا نہیں کرسکتے، جن سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو نوازا ہے۔

کوہستان کا علاقہ قدرتی حسن، صاف شفاف چشموں، بہتے دریاؤں، آبشاروں، جھرنوں، سبزہ زاروں اور جنگلات کا مرکب ہے۔ کوہستان کے علاقے میں پاکستان کے سب سے بڑے قدرتی سیاحتی مقام وادی کاغان اور وادی سوات بھی واقع ہیں۔ پاکستان کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور سوشل میڈیا نے جس طرح سے ان علاقوں کا تعارف کروایا ہے، یہ جگہیں اس تیزی سے آباد بھی ہوئی ہیں اور برباد بھی ہوگئی ہیں۔

وادی کمراٹ بھی کوہستان کے علاقے میں واقع ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے خیبرپختونخوا میں سیاحت کے فروغ کےلیے کافی اقدامات کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں سیاحوں کی آمدورفت پچھلے چند سال سے دگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔

وادی کمراٹ ایک گمنام وادی کی سی حیثیت رکھتی تھی، لیکن 2016 میں عمران خان کے ہیلی کاپٹر میں یہاں آنے کے بعد اس وادی کو ایک نئی زندگی حاصل ہوچکی ہے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال عیدالفطر کی تعطیلات کے دوران تقریباً دو لاکھ سیاحوں نے وادی کمراٹ کا رخ کیا۔ جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

وادی کمراٹ پاکستان کے دیگر شمالی علاقہ جات کے برعکس ایک نیا سیاحتی مقام ہے۔ قدرتی حسن سے مالا مال یہ وادی سوات اور چترال کے درمیان واقع ہے۔ ضلع دیر بالا کی حدود میں موجود یہ وادی دریائے پنجکورہ کے کنارے آباد ہے۔ اس وادی تک پہنچنے کے تین راستے ہیں۔

پہلا راستہ دیر بالا سے جاتا ہے۔ پشاور سے دیر بالا جاتے ہوئے دیر بالا سے چند کلومیٹر قبل ایک راستہ سڑک کے دائیں جانب وادی کمراٹ کو مڑتا ہے۔ دریائے پنجکورہ کے کنارے ایک نئی سڑک موجود ہے، جو شرینگل سے ہوتی ہوئی وادی کمراٹ تک جاتی ہے۔ پاتراک مقام تک سڑک بہت اچھی ہے۔ اس کے بعد تھل تک بھی سڑک ہے، جو کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ تھل یا ٹل کا قصبہ وادی کمراٹ کا بیس کیمپ قرار دیا جاسکتا ہے۔

دوسرا راستہ سوات، کالام، اتروڑ سے ہوتا ہوا بڈگوئی ٹاپ سے تھل تک جاتا ہے اور وادی کمراٹ میں داخل ہوتا ہے۔ یہ راستہ فور بائی فور جیپ کا راستہ ہے۔ اس راستے سے آپ وادی کمراٹ سے سوات بھی جاسکتے ہیں اور ایک ٹرپ میں دو مزے بھی لے سکتے ہیں۔

تیسرا راستہ وادی چترال سے پیدل ٹریکنگ اور ہائیکنگ کا ہے۔ جو کہ دشوار تو ہے لیکن اپنی خوبصورتی میں ایک مثال ہے۔ ٹریکنگ اور ہائیکنگ کے شوقین افراد صرف اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔

وادی کمراٹ ایک پُرفضا مقام ہے۔ دریا کے کنارے قائم ہوٹل اور کیمپ آپ کو دنیا کے جھمیلوں سے دور لے جانے اور ریفریش کرنے کےلئے بہترین علاج ہیں۔

وادی کمراٹ کے مقبول سیاحتی مقام سراج آبشار، کالا چشمہ ہیں۔ اسی طرح بڈگوئی ٹاپ پر بھی جیپ سے جایا جاسکتا ہے۔ وادی کمراٹ میں مشہور ’’کٹورہ جھیل‘‘ بھی واقع ہے۔ جہاں ٹریکنگ اور ہائیکنگ کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے۔ پچھلے چند سال سے یہ جھیل سیاحوں میں بہت مقبول ہوچکی ہے۔ یہاں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ادھیڑ عمر کے مرد و خواتین بھی جاتے ہیں۔ یہاں تھل سے بذریعہ جیپ ٹکی بانڈہ جایا جاسکتا ہے۔ ٹکی بانڈہ سے تقریباً 3 سے 4 گھنٹے کی ہائیکنگ کے بعد جہاز بانڈہ پہنچا جاتا ہے۔ (بانڈہ سے مراد وہ سرسبز چراگاہ ہوتی ہے جہاں کچھ لوگ آباد ہوں) جہاز بانڈہ میں متعدد ہوٹل، ریسٹ ہاؤس اور کیمپ موجود ہیں، جہاں آپ رات گزار سکتے ہیں۔ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا یہ مقام ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہے۔ جہاز بانڈہ کے دامن میں ایک خوبصورت آبشار بھی واقع ہے۔ جہاز بانڈا میں عموماً لوگ رات گزارتے ہیں۔ جہاز بانڈہ سے تقریباً 3 گھنٹے کی ٹریکنگ اور ہائیکنگ کے بعد خوبصورت کٹورہ جھیل واقع ہے۔

وادی کمراٹ میں تھل کے مقام پر ایک پرانی مسجد بھی واقع ہے، جو بعض مقامی روایات کے مطابق 300 اور بعض کے مطابق 500 سال پرانی ہے۔ وادی کمراٹ میں بہتے دریائے پنجکورہ میں ٹراؤٹ فش بھی وافر تعداد میں موجود ہے۔

وادی کمراٹ ایک نسبتاً نیا سیاحتی مقام ہے جس کی طرف پہلے لوگوں کی توجہ کم تھی لیکن دن بہ دن اس وادی میں سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ چونکہ آج سے چند سال پہلے تک لوگوں کی اس مقام کی طرف توجہ نہیں تھی، اس وجہ سے یہاں پر ابھی وہ سہولیات موجود نہیں ہیں جو ناران، کالام، گلگت، ہنزہ، مری وغیرہ میں سیاحوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس علاقے میں باقی سیاحتی مقامات کے مقابلے میں گندگی بھی کم ہے۔

سوشل میڈیا کے اس زمانے میں کسی جگہ کا راتوں رات مشہور ہوجانا کوئی عجوبہ نہیں۔ جو لوگ سیاحت کے شوقین ہوتے ہیں وہ نئی سے نئی جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔ چونکہ چند برس پہلے تک اس وادی کی طرف توجہ نہیں تھی، اس وجہ سے یہاں بہت کم لوگ آتے تھے۔ لیکن اب چونکہ یہ وادی مشہور ہوگئی ہے اس لیے ہر آنے والے سال یہاں سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

چند روز قبل جب سیر کی غرض سے چند دن گزارنے وادی کمراٹ کا رخ کیا اور یہاں کی خوشگوار آب و ہوا اور مقامی لوگوں کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، تو ساتھ ہی یہ خیال دل میں بار بار دستک دیتا رہا کہ کاش! حکومت ابھی اس طرف توجہ کرلے اور اس جگہ کو مری، ناران، سوات، کالام وغیرہ کی طرح کچرا دان بننے سے بچالے۔ وادی کمراٹ کو نیشنل پارک قرار دینے اور یہاں ترقیاتی منصوبہ جات کا آغاز تو ہوچکا ہے، لیکن اس کے ساتھ Tourist Awareness کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ یہاں سرمایہ کاری کرنے والوں اور سیر و سیاحت کےلیے آنے والوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اس کے قدرتی حسن کو برباد نہ کریں۔

ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں جس کے پاس جتنی بڑی ڈگری ہے اور جتنا زیادہ پیسہ ہے، وہ اسی قدر غیر مہذب ہے۔ شمالی علاقہ جات جانے کا اتفاق بے شمار مرتبہ ہوچکا ہے اور ہر بار اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان قدرتی مقامات کو سب سے زیادہ نقصان ان ’’بڑے‘‘ سمجھے جانے والے لوگوں نے پہنچایا ہے۔ وادی کمراٹ سمیت پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سب سے زیادہ کمی کچرے کو ٹھکانے لگائے جانے کی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جہاں ٹورازم کو پروموٹ کیا جارہا ہے، وہاں کسی کچرا ٹھکانے لگانے والی کمپنی کو سب سے پہلے ٹھیکہ دیا جائے، تاکہ شروع سے ہی اس پر قابو پایا جاسکے۔

کمراٹ کی طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو متعارف کروانے کی حکومتی پالیسی قابل ستائش ہے۔ لیکن خدارا ان مقامات کو یورپ کے سیاحتی مقامات کی طرح آلودگی اور گندگی سے بچائیں۔ سوئٹزرلینڈ سے زیادہ خوبصورت علاقے ہمارے ملک پاکستان میں ہیں، لیکن افسوس یہ ہے کہ جب بھی کوئی علاقہ عوام کی توجہ حاصل کرلیتا ہے تو وہ اپنی بربادی کا آپ سامان کرلیتا ہے۔ میری حکومتی اداروں سے درخواست ہے کہ کمراٹ ابھی تک نسبتاً سب سے زیادہ صاف اور حسین ہے۔ اس کی سیاحت کو فروغ دیں تاکہ مقامی لوگوں کے دن بھی بدلیں اور ملک کا مثبت تعارف بھی ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کو مری، ناران، کالام اور گلگت بننے سے بچالیجئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔