گھر پر بچوں کی تذلیل و توہین انہیں جھگڑالو بناتی ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  اتوار 11 اگست 2019

مونٹریال: ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے تمیز دار اور باادب بنیں تو ان کے ساتھ شفقت سے پیش آئیے، اور محبت سے بات کیجیے۔‘‘ صدیوں پرانی یہ نصیحت ایک بار پھر سے ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے آئی ہے۔

امریکا اور کینیڈا کے نفسیاتی ماہرین نے ایک مشترکہ تحقیق میں 13 سے 15 سال عمر کے 1,400 سے زائد بچوں کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جن بچوں کے والدین اور بڑے ان کے ساتھ اکثر توہین آمیز رویہ رکھتے ہیں، انہیں طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی تذلیل کرتے رہتے ہیں، وہ بچے گھر سے باہر کی دنیا میں انتہائی جھگڑالو بن جاتے ہیں اور بدتمیزی، بدکلامی، گالم گلوچ اور مار پیٹ تک ان کے روزمرہ معمولات کا حصہ بن جاتی ہیں۔

اس وجہ سے ایک طرف تو وہ دوسروں کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہیں تو خود بھی دوسروں سے مار کھاتے ہیں۔ یہی چیز آگے چل کر ان کی شخصیت میں عدم اعتدال کو جنم دیتی ہے اور بڑے ہونے پر وہ تشدد پسند اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل بھی بن سکتے ہیں۔

13 سے 19 سال کی عمر کو ’’نو بلوغت‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دوران ایک بچہ اپنے بچپن کو خیرباد کہہ کر جوانی میں قدم رکھ رہا ہوتا ہے۔ ذہنی و جسمانی نشوونما کے اعتبار سے یہ عمر کسی بچے کےلیے خاص طور پر اہم ترین ہوتی ہے کیونکہ اس عمر میں جو اثرات بھی شخصیت پر مرتب ہوتے ہیں، وہ بالعموم مرتے دم تک کسی نہ کسی صورت برقرار رہتے ہیں۔

یہ مطالعہ فلوریڈا اٹلانٹک یونیورسٹی کے ڈاکٹر بریٹ لارسن اور کونکورڈیا یونیورسٹی مونٹریال کے ڈاکٹر ڈینیئل ڈکسن کی سربراہی میں انجام دیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ بچوں پر سختی کرکے انہیں نظم و ضبط کا پابند بنانے اور سختی کے نام پر بچوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرنے کے اثرات میں بہت فرق ہے۔

اگر بچوں کو ڈسپلن سکھانے کےلیے ان پر اس طرح سے سختی کی جائے کہ انہیں اپنے بڑوں سے کوئی خوف نہ ہو اور نہ ہی وہ اپنی توہین محسوس کریں، تو اس عمل کے اثرات مثبت نکلتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر بچوں کو گالیاں دے کر، ان پر طنز کرکے، ان کی توہین کرکے یا انہیں طعنے دے کر ’’تمیز‘‘ سکھائی جائے تو اس کے اثرات الٹ نکلتے ہیں جو بچے کے اندر غصہ پیدا کرتے ہیں جس کا اظہار وہ اپنے گھر کے بڑوں کے سامنے نہیں کرسکتا۔ اسی لیے گھر میں تذلیل و توہین کا نشانہ بننے والے بچے اپنی ساری بھڑاس باہر نکالتے ہیں جو اکثر اوقات اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ گالم گلوچ اور مار پیٹ کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہی چیز آگے چل کر انہیں جرائم پیشہ اور تشدد پسند مزاج کا حامل بنا دیتی ہیں۔

اس تحقیق کی روشنی میں ماہرین کا مشورہ بھی بہت آسان اور قابلِ فہم ہے: بچے کی تربیت کیجیے لیکن اس کی عزتِ نفس مجروح نہ کیجیے، ورنہ آپ بچے کی شخصیت بنانے کے بجائے اسے تباہ کردیں گے۔

مذکورہ بالا تحقیق کے نتائج تحقیقی مجلے ’’جرنل آف یوتھ اینڈ ایڈولیسینس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔