روشنی نہیں ہوتی اپنا گھر جلانے سے

شاہد سردار  اتوار 11 اگست 2019

وطن عزیز میں لاکھوں اسکول، ہزاروں کالج اور سیکڑوں یونیورسٹیاں ہیں جہاں ہر سال بڑی محنت ، لگن اور محبت سے علم وہنرکی فصلیں کاشت کی جا رہی ہیں۔والدین اپنا قیمتی سرمایہ خرچ کر رہے ہیں۔ اساتذہ اپنی بہترین صلاحیت۔ لیکن یہ فصلیں کھیت سے منڈی پہنچنے تک بے اثرکیوں ہو جاتی ہیں۔ معاشرہ ان کی تاثیر سے محروم کیوں رہتا ہے؟

ہر سال درسگاہوں سے فارغ التحصیل طلبا وطالبات کے تازہ دم دستے نکل رہے ہیں مگر ان دریاؤں کا میٹھا پانی بھی ہمارے قدرتی دریاؤں کی طرح ایک کھارے سمندر میں گرکر ضایع ہو رہا ہے۔ ہم کوئی ڈیم نہ ان دریاؤں پر باندھ سکے، نہ ان دریاؤں سے شادابی وسیرابی کے حصول کے لیے کچھ کرسکے۔ ہم اپنے مضبوط مرکزکے زعم میں ہی مبتلا ہیں۔ہم اپنے وطنوں کے دلوں اور ذہنوں میں نہیں جھانکتے ہیں۔ نسلیں آرہی ہیں جا رہی ہیں۔ زندگی کی آسانیاں برسہا برس سے صرف چند گھرانوں تک محدود ہیں۔اقتدار بھی ہمارے ملک میں مخصوص خاندانوں کے لوگوں کی میراث بن کر باریاں لیتا چلا آرہا ہے۔

ماہ رواں میں پاکستان بھر میں 50 فیصد تک کاروبار بند ہونے کے قریب ہے۔ FBR کے 50 ہزار خریداری پر NIC والے فارمولے نے ہول سیلرزکو فیکٹریوں سے مال اٹھانے سے قاصرکر دیا ہے اور اگر یہ صورتحال یوں ہی برقرار رہی اور اس طریقہ کار کا کوئی نعم البدل سامنے نہ لایا گیا تو ایک جانب تمام مارکیٹیں بند ہوجائیں گی یوں حکومت کو کوئی ٹیکس بھی وصول نہیں ہوسکے گا۔ 90 فیصد بے شک ڈائریکٹ ٹیکس میں نہیں ہیں مگر درحقیقت وہ ہر چیز پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں، اسی وجہ سے مہنگائی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں گھی کی ملیں بند ہونا شروع ہوگئی ہیں، جس سے 20 ہزار افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔کراچی کی دو تین بڑی انڈسٹریز سے بھی اتنی ہی تعداد میں لوگ فارغ کیے جا چکے ہیں، ایک مشہورکاریں بنانے والی فیکٹری بھی بند ہوچکی ہے، دوسری نے اپنی ضروریات کے مطابق 50 فیصد پروڈکشن کم کردی ہے۔ الغرض ہر طرف معاشی قتل عام شروع ہوچکا ہے۔ عوام کے لیے غربت کے دروازے کھولے جا رہے ہیں اور ان کے نام نہاد نمائندوں کو اسمبلیوں میں بھاری مراعات دے کر خاموش کرایا جا رہا ہے۔ لوٹوں کی خریداری زوروں پر ہے ،کل تک جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ’’میں ان کو چھوڑوں گا نہیں‘‘ آج ان کو خریدنے یا نوازنے کی پوری کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تمام وعدوں اور دعوؤں کا اعتبار ختم ہوچکا ہے۔

ویسے بھی اکثر بڑے بڑے دعوے کرنے والے چھوٹی چھوٹی باتوں پر راستہ بدل لیتے ہیں اور پھر ہمارے خان صاحب کے ’’ یوٹرن ‘‘ تو ویسے بھی انھی کی طرح مشہور ہیں۔ ایک سال میں 70 سال کا ازالہ ہمارے ارباب اختیارکو منہ کے بل گرانے کا سبب بن سکتا ہے ،کاش وہ یہ جان پاتے اور یہ بھی کہ حکومت کھربوں روپے Indirect ٹیکس وصول کر رہی ہے لیکن بدلے میں وہ قوم کوکیا دے رہی ہے۔اس کا اسے اندازہ ہے کہ نہیں؟ نہ پینے کا پانی، نہ صحت اور نہ تعلیم کی سہولت نہ روزگار اور سر چھپانے کی آسانی، سرکاری اسکولوں، اسپتالوں کا معیار سبھی کچھ سب کے سامنے ہے، ڈالرکی اڑان اپنی جگہ حکومت کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ واقعی ایسی زبردست تبدیلی آئی ہے کہ ہر شخص سر پکڑے اور دل تھامے بیٹھا ہے۔

اگر حکومت نے اپنی ہٹ دھرمی اور بے وقوفیاں نہ چھوڑیں تو اگلے ماہ سے فیکٹریاں اور کاروبار مکمل بند ہونا شروع ہوئے تو مالکان تنخواہیں بھی ادا نہیں کرسکیں گے اور FBR کا حجم اورکم ہوجائے گا۔ 72 سالہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک اتنا برا وقت قوم پر نہیں آیا جو آنے والے مہینے میں دیکھنے کو ملے گا۔ دنیا کے کسی چھوٹے سے چھوٹے ملک میں بھی NIC لینے کا رواج نہیں ہے۔ اس وقت وطن عزیزکے صنعت کار ترکی، یونان، شمالی امریکا اور دیگر یورپی ممالک کی شہریت لے کر پاکستان سے نقل مکانی کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں کیونکہ ان ممالک میں ان صنعت کاروں کو صرف 6 ماہ میں پاسپورٹ ملنے کا طریقہ کار رائج کردیا گیا ہے۔

زرداری اور نواز شریف کو جیل میں ڈالنے سے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ تو ملا نہیں پوری دنیا میں ہمارے ملک کی بدنامی ضرور ہوگئی۔ ہم کس سمت جا رہے ہیں، لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جا رہا ہے کیا اسی لیے نئے پاکستان کو بنایا گیا ہے اور کیا اسی کا نام تبدیلی ہے؟ ہمارے وزیر اعظم جتنے مرضی غیر ملکی دورے کرلیں کچھ ہونے والا نہیں کیونکہ وہ ایک ایسے تالے کوکھولنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی کوئی چابی نہیں۔ کاش ہمارے وزیر اعظم جان پاتے کے زندگی دوسرا موقع نہیں دیتی، دوسرا موقع قصور والوں کو زندگی دیتی ہے، بے قصور کو نہیں۔ اب ہمارے وزیر اعظم اتنی تو فہم رکھتے ہوں گے کہ وہ قصوروار ہیں یا بے قصور۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مضبوط سے مضبوط لوگوں کے نظریات بھی سماجی اور معاشی مسائل کے طوفان میں خس وخاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے عمل کی توضیحات اور تاویلات تلاش کرنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ سماجی اور معاشی مسائل کے مقابلے میں نظریات کی کیا اہمیت ہے؟ اس سوال کا جواب آپ پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہوار کے اس ملازم سے پوچھیں جو اپنے صرف دو بچوں کے ساتھ ایک کمرے میں رہتا ہے۔

ہمارے ارباب اختیارکو یہ جان لینے میں زیادہ دیر نہیں کرنی چاہیے کہ سماجی اور معاشی مسائل اور عوام کا حد درجہ استحصال قوم کے سبھی طبقوں کو ان نظریاتی بنیادوں سے بہت دور لے جا رہے ہیں۔ رہبر ، رہنما، راہزنوں کی شکل لے کر ملک کے وسائل پر قابض ہوجائیں تو اطراف میں بغاوت کی بو صاف محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہمارے اصول پرست سیاست دانوں، دانشوروں، صحافیوں اور شاعروں وغیرہ کو نہ جانے کس کی نظرکھا گئی ہے؟ عمل کے بغیر لفظوں کی تکرار سے ہمارے کان پک گئے ہیں۔

ایک محفل میں لوگوں نے ایک گلوکار سے ایک ہی گانا پورے اصرارکے ساتھ جب چار بار مسلسل سنا تو گلوکار نے کہا ’’ میں اب آپ کوکوئی دوسرا گانا سناتا ہوں‘‘ اس پر لوگوں نے بیک آواز کہا ’’آپ جب تک یہ گانا ٹھیک طرح نہیں گائیں گے اگلا گانا نہیں سنیں گے۔‘‘

ہماری دانست میں ہمارے ہاں ابھی تک کوئی نظریاتی راگ سُر میں گایا نہیں گیا، اگر ہم اپنی آیندہ نسلوں کو اپنے کلچر اور اپنی روایات سے وابستہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہم نظریاتی راگ سُر میں گانا پڑیں گے۔ وگرنہ گا، گی، گے کا حکمران طبقے کا دیرینہ قومی راگ پاٹ اسی طرح ہمارے کانوں میں تیزاب بن کر ٹپکتا رہے گا۔

ویسے بھی ہم اور اس مملکت خداداد کے کروڑوں بے وسیلہ بے آسرا لوگ ہرکسی کو اسی وقت تک سچا سمجھتے ہیں جب تک وہ خود کو جھوٹا ثابت نہ کردے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔