لیاری بھی منی کشمیر بنا تھا  (دوسرا اور آخری حصہ)

نادر شاہ عادل  اتوار 11 اگست 2019

پچھلی گفتگو جبار عرف جینگو گینگسٹر پر ختم ہوئی تھی، جینگو گینگ وار کے کرداروں میں کسی انفرادیت کا حامل نہ تھا، شاہ بیک لین کا ایک عام بیروزگار نوجوان تھا جسے تعلیم، روزگار اور اچھی زندگی کی طلب تھی جو اس کا حق بھی تھا مگر اسے معاشرہ نے دھتکار دیا، ہزاروں نوجوان جینگو کی طرح بیروزگار تھے اور منشیات کے دھندے کے عمومی جال میں پھنسے ہوئے تھے، جال کے سارے شکاری سرکاری اور قانون کے مضبوط حوالے رکھتے تھے۔

لیاری کے کسی منشیات فروش نے لیاری میں چرس کی کاشت نہیں کی تھی، بھنگ کی کسی کے پاس دس ایکڑ اراضی نہ تھی، مارفیا کے انجکشن دادل شیرو اور کالا ناگ کے خاندان نے مینیوفیکچر نہیں کیے تھے ، ہیروئن بھی فلمی صنعت کی کسی دلربا کی طرح پاکستان سمیت لیاری کے سماجی منظرنامہ پر افغان وار کے dealiest نشے کے نتیجہ میں نمودار ہوئی، سارے گینگسٹرز نے دہشتگردی، جرائم ، منشیات ، بھتہ خوری ، اغوا برائے تاوان، سٹریٹ کرائم کے ایک جیسے نصاب کی روشنی میں تربیت لی تھی۔ کوئی ماں کے پیٹ سے جرائم پیشہ بن کر دنیا میں نہیں آتا۔

جینگو شاندار انسان بن سکتا تھا ، بابا لاڈلا کبھی کرمنل نہ بنتا، عذیر بلوچ کو کبھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ جانا پڑتا کیونکہ اس کا خاندان ٹرانسپورٹ شعبہ میں مستحکم معاشی حوالے رکھتا تھا ، اسی طرح کسی بھی گینگسٹر کو اگر کراچی کی بیوروکریسی ، قانون نافذ کرنے والے ادارے، صوبائی و ضلعی حکومت صحت مند ماحول، تعلیم و تربیت کی فطری شائستہ اور تہذیبی فضا مہیا کرتی ، علاقے میں غربت نہ ہوتی، اور خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے کی بدنصیبی کا ازالہ ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔

لہذا اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ گینگ گوار کی مستند اور مربوط ابتدا2001 ء میں ہوئی تھی تو کیا اس سے پہلے لیاری Dark Ghetto یعنی سماجی ، پسماندگی، تعلیم و صحت کی سہولتوں کے فقدان یا لائف اسٹائل، معاشی استحکام اور تفریحی لحاظ سے اپنا کوئی سیاسی و سماجی وجود نہیں رکھتا تھا، ظاہر ہے ایسی کوئی بات نہ تھی ۔ لیاری نے تقسیم ہند سے اپنا سماجی تہذیبی اور سیاسی تشخص برقرار رکھا تھا۔ غربت ضرور تھی لیکن بے غیرتی نہ تھی، کسی بیروزگار نے لیاری کے ابتدائی کلچر میں کسی خاتون پر ہاتھ نہیں اٹھایا، وہ زیورات میں لدی پھندی شادی بیاہ کی تقریبات سے رات گئے اٹھ کر گھر جانے کے لیے گلی سے گزرتی تو کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لے، بھتہ خوری، ٹارچر، بوری بند لاشوں کے یہ تحفے کراچی کی بدامنی کے ماحولیاتی وائرس نے دیے۔

یاد کیجیے ابھی آزادی ملے کچھ ہی سال گزرے تھے ، لیاری میں زندگی سادگی، محبت و باہمی احترام ، سماجی قربتوں اور انسان دوستی کے فطری رویوں سے مامور تھی ، لوگ  قناعت پسند تھے، لیاری کا عام آدمی  فطرتاً عیار و مکار نہیں تھا، اس کی انسان دوستی ضرب المثل تھی، وہ قبضہ گیری کی ذہنیت سے بلند تر لوگ ہیں، انھیں منظم طور پر منشیات اور گینگ وار کا ٹیگ لگا کر بدنام کیا گیا ۔ لیاری پہلے دن سے کثرت پسندی کا نمایندہ علاقہ تھا، ملک بھر سے محنت کش خاندان لوگ کراچی آتے تو ان کی پہلی پسند لیاری کی گلیاں ہوتی تھیں ، لوگوں خندہ پیشانی سے ملتے تھے، آپ لیاری ندی کے اس پار شیرشاہ صالح شاہ کی سابق ریاست کا حال دیکھیں، امید علی شاہ کے فرزند سید صالح شاہ نے شیرشاہ بسانے کے لیے لوگوں کی منتیں کی کہ وہ آکر اس علاقے کو آباد کریں، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے شیرشاہ کباڑیمارکیٹ، بنی، شیرشاہ کالونی آباد ہوئی، سائٹ کے ملحقہ علاقوں میں صنعتی یوٹنوں کا قیام عمل میں آیا۔

اسی طرح لیاری میں رفتہ رفتہ زندگی کی معاشرتی، معاشی گہما گہمی بڑھتی گئی، آبادی کا بوم آیا، کراچی بلڈرز کے ہاتھوں کنکریٹ کا جنگل بنتا چلا گیا، چند لاکھ انسانوں  کا شہر آج ڈھائی کروڑ کا شہر بن چکا ہے کل اسے ایشیا کا خوبصورت شہر ہونے کا اعزاز حاصل تھا آج جس کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے وفاقی وزیر علی زیدی نے بڑی مہم کا آغاز کیا ۔ اس گنجان شہر کو ایک سینئر صحافی نے اپنے ناول ’’شہر بے مہر‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔

لیاری کو اس شہری مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کی طرح بے منزل و بے نشان ہی رکھا گیا۔ لوگ اکثر سوال کرتے ہیں کہ کیا لیاری گینگ وار، سماجی بد نظمی، بھوک، بیروزگاری، منشیات اور غربت کا نتیجہ تھی ، کیا محنت کش طبقات نے جس لیاری کی سیاسی و سماجی شناخت کے لیے نسلوں کی آبیاری کی ، فن و ثقاوت اور سیاست و صحافت کے  کے شعبوں میں اپنی انفرادیت کے تحفظ کے بجائے گینگ وار کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس سوال کے اندر کئی درد انگیز سوالات ہیں جن کا جواب وفاقی اور صوبائی حکومتون کے ارباب اختیار کو دینا ہے۔ لیاری گینگ وار کسی  اچانک حادثہ کا نتیجہ نہ تھی۔ کشمیر کی طرح اس سانحہ کی یہاں کے مقامی ’’مودیوں‘‘ نے برسوں پرورش کی۔

لیمارکیٹ کے ایک بلوچ بینکار نے 2000 میں راقم کو خبردار کیا کہ لیاری  میں گن کلچر سر اٹھانے لگی ہے، اسی دوران حسین ہارون نے لیاری کے رہنما ایس کے شمشاد کے گھر منگنی کی تقریب میں سیاسی کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ روزگار نہ ملا اور سیا سی رہنمائوں نے لیاری کی سماجی حالت پر غور نہ کیا تو غیر قانونی اسلحہ گھر گھر نظر آئیگا، پھر چند ہی مہینوں میں لیاری وار لارڈز کے چھوٹے چھوٹے گینگز مختلف علاقوں میں پھیلنے لگے۔ میں نے استفسار کیا کہ ان گینگز کو کیوں روکا نہیں گیا، دوست نے جواب دیا  لیاری کے چار تھانے علاقے کی پچھلی سیاسی جارحیت اور قانون نافذ کرنے والوں کی توہین پر اپنا رد عمل ظاہر کریں گے۔

لیاری کی شناخت گم کر دی جائے گی اس کا سیاسی وقار خاک میں ملا دیا جائے گا، پوچھا گیا کس لیے، جواب یہی تھا کہ لیاری میں سیاسی شعور کی لہر کو روکنا کراچی کی شہری سیاست کے فروغ کے لیے ضروری ہے، چنانچہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جنم لینے والے گینگ وار کی زد میں پیپلز پارٹی کے پانچ سال آئے، پوری لیاری کی کایا پلٹ ہوئی، فٹبالر خاک بسر کیے گئے، باکسنگ ٹیموں کا شاندار ماضی قصہ پارینہ بنا، فٹ بال اسٹیڈیمز میں ویرانی چھا گئی، جنھیں روزگار چاہیے تھا ان کے ہاتھوں میں 50  ہزار کی گنیں تھما دی  گئیں، کلاشنکوف اور ڈرگ کلچر مافیا کے راستے کھول دیے گئے، مقامی صحافیوں نے اس ضمن میں تحقیقاتی رپورٹیں چھاپی ہیں، دستانے پہنے ہوئے ہاتھوں نے جستہ جستہ گینگ وار لارڈز پید اکرکے ان کے ہاتھوں میں لیاری کو دے دیا۔

جن بے چہرہ لوگوں  نے لیاری گینگ وار کی کہانی لکھی،وہ کمال کے کوریوگرافرز تھے، ان کی کمک ان ٹچ ایبلز کے ذمہ تھی جن کے سیاسی حکمرانوں سے قریبی تعلقات تھے۔ اس لیے حکومتوں کے کرتا دھرتا اپنے موقف کی ریت کی بوری کے پیچھے چھپ نہیں سکیں گے کہ گینگ وار سرے سے ہوئی نہیں بس چند کارندوں کی آپس کی لڑائی تھی۔

ایک بار ایک عسکری شخصیت نے کراچی کے چند سرکردہ صحافیوں کو آف دی ریکارڈ ٹاک کے لیے جمع کیا،اس گفتگو میں لیاری کی صورتحال کابھی جائزہ لیا گیا۔ایک سوال راقم نے جہالت،ناخواندگی، پسماندگی اور جرائم کے سیاق وسباق میں کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ جہاں غربت وافلاس نے ڈیرے دال دیئے ہوں وہاں عموماً جرائم بھی زیادہ ہوتے ہیں۔لیکن عسکری شخصیت سے پوچھا گیا کہ غربت، بے چارگی ،سماجی، اقتصادی اور  سیاسی محرومیوںکے باجود لیاری کی پرانی نسل نے غیرقانونی اسلحہ لے کر بستی کو یرغمال نہیں بنایا جب کہ شہر کی اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل اور مہذب گھرانوں کے نئے سیاسی قافلے نے دوسروں کے خلاف ہتھیار اٹھائے، کتابیں جلانے ،زیور اور ٹی وی بیچنے اور مسلح جدوجہد کا نعرہ لگایا۔ کیوں؟ اس پر کافی بحث ہوتی رہی۔

میلکم ایکس نے کہا تھا آپ پسماندہ بستی کے عادی  اور طرز زندگی کو نارمل سمجھیں تو پھر کسی بات پر شرمندگی کا احساس نہ ہوگا، آپ کی کوئی پرائیویسی نہیں رہے گی۔  مشہور سیاہ فام خاتون اینکر پرسن اوپرا ونفرے نے کہا تھا کہ میں نے کبھی اپنے آپ کو گندی گلیوں کی غریب سیاہ فام لڑکی نہیں سمجھا جسے بعد میں شہرت ،دولت اور عروج حاصل ہوا ، میں نے اپنی ذات کا محاسبہ کیا، یہ سوچا کہ میں وہی ہوں جس نے اپنی عمر کے اولین سالوں میں یہ جان لیا کہ میں اپنی زندگی اور حالات کی خود ہی ذمے دار ہوں۔

نامور ہیوی ویٹ باکسر ایوانڈر ہولی کا کہنا تھا کہ میں اپنے مزاج اور شخصیت کے حوالہ سے بس ایک عورت کا حوالہ رکھتا ہوں اور یہ میری ماں تھی جیسی مائیک ٹائی سن کی ماں تھی، لیکن میں کبھی اس طرح بدمعاشی اور پھڈؑے بازی نہ کرتا  اگر میری ماں مجھ پر کنٹرول نہ رکھتیں اور سختی نہ کرتیں، ان کی تربیت نے مجھے نکھارا۔ اس عورت نے  مجھے بتایا کہ کس طرح زندگی گزارنا ہے ، آدمی کی نظروں میں نظریں ڈالو مگر اس کی عزت بھی کرو۔ کتنی بڑی بات کہی کسی نے کہ جمیکا پسماندگی کا شہکار ہے لیکن اس کی اس خصوصیت یا بدنامی پر میری نظر کبھی نہیں گئی ۔ دیکھ لیجیے اس سست رفتار اور فاقہ کش افریقی ملک جمیکا نے کتنے حیران کن تیزرفتار ایتھلیٹ دنیا کو دیے۔

اور ہم نے بندہ نواز لیاری کو گینگ وار کی ذلت دی جب کہ اس کے بطن سے بیک وقت دو ٹاپ کی برازیلین فٹ بال ٹیمیں جنم لے سکتی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔