جنسی تشدد کا نشانہ بننے والوں کو اپنانا نیکی ہے، مولانا ابتسام

مانیٹرنگ ڈیسک  ہفتہ 21 ستمبر 2013
متاثرہ شخص کو تنقید کا نشانہ بنادیا جاتا ہے، سدرہ ہمایوں، پروگرام’ بات سے بات ‘ میں گفتگو۔   فوٹو: فائل

متاثرہ شخص کو تنقید کا نشانہ بنادیا جاتا ہے، سدرہ ہمایوں، پروگرام’ بات سے بات ‘ میں گفتگو۔ فوٹو: فائل

لاہور: مذہبی اسکالر مولانا ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا ہے کہ جس کسی پر کوئی جنسی تشدد ہوتا ہے اس کو اپنانا بہت بڑی نیکی ہے، جرم سے نفرت کرنی چاہیے مظلوم سے نہیں۔

ایکسپریس نیو ز کے پروگرام ’’بات سے بات‘‘ تک میں میزبان ڈاکٹر ماریہ ذوالفقار خان سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ جنسی تشدد کو قرآن میں بہت تفصیل سے ڈسکس کیا گیا ہے اگر میں قانون بنانے کا اختیار رکھتا تو حجاب اورپردے کولازم قرار دیتا۔ (ن) لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا ہمارے معاشرے میں والدین اساتذہ میڈیا سب نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں جنسی تشدد اور زیادتیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں، جعلی پیروں اور مزاروں پر بھی جنسی تشدد کے بہت سے واقعات ہوتے ہیں خواتین کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دینی چاہیے۔

مقامی این جی او کی سربراہ سدرہ ہمایوں نے کہا بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی، یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ جنسی تشدد کہاں ہورہا ہے؟ کہاں نہیں ہورہا؟ یہ ایک مسئلہ ہے جس سے چھٹکارہ ہونا چاہیے، جو جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہے اس کے لیے کوئی عمر کوئی رنگ کوئی نسل کوئی معنی نہیں رکھتا اس کے لیے وہ ایک شکار ہے، ریپسٹ تو قبروں سے بھی نکال لیتے ہیں، ہمارے معاشرے میں فیملی کے لوگ ہی کسی متاثرہ کو تنقید کا نشانہ بناناشروع کردیتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے ہماری بدنامی ہوئی یا ہمیں پولیس میں جانا پڑ رہا ہے ۔ ہماری سوسائٹی میں نفسیاتی مسئلے کو اہم قرار نہیں دیا جاتا اکثر ذہنی اور نفسیاتی مسائل کو مکس کردیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔