آزادی کے تقاضے اورطرز حکمرانی

ایڈیٹوریل  بدھ 14 اگست 2019
آج ہم آزادی کے ثمرات سے فیض اٹھا رہے ہیں۔لیکن آزادی کے بعد کیا قوم کی جدوجہد اختتام کو پہنچ گئی۔ فوٹو: فائل

آج ہم آزادی کے ثمرات سے فیض اٹھا رہے ہیں۔لیکن آزادی کے بعد کیا قوم کی جدوجہد اختتام کو پہنچ گئی۔ فوٹو: فائل

14 اگست ہماری آزادی کا پر مسرت دن ہے۔ یہ وہ آزادی ہے، جس کے حصول کے لیے ہمارے اسلامیان ہند ، سیاسی قائدین ، مشاہیر نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں ،کسی حکومت نے ہمیں یہ آزادی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی ، اس لیے کہ آزادی کسی حکومت کی دست عطا نہیں ہوتی ، آزادی کی دولت عوام کے جدوجہد ، مزاحمت، جذبہ و جوش کی رہین منت ہوتی ہے، یہ صلہ عوام کی کوششوں ، قائدین کی  صائب اور دانشمندانہ رہبری اور قوم کی غلامی سے نجات کے یقین محکم سے ملتا ہے۔

پاکستان کا دنیا کے نقشہ پر ایک جمہوری اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پر ابھرنا بیسویں صدی کی سیاست و نوآبادیاتی حکمرانی میں ایک بڑا تغیر تھا، خوئے غلامی سے بیزاری اور فرنگی راج کو مسترد کرنے اور ہندؤوں کے سماجی ، سیاسی اور مذہبی تسلط کے خلاف ایک مرد قلندر نے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا جس کی حمایت میں کروڑوں برصغیر کے مسلمانوں نے ایثار و قربانیوں کے غیر معمولی نظائر پیش کیے ، تاریخ نے ایک علیحدہ وطن کی تعمیر و تشکیل میں خطے کی عظیم ہجرت کا باب رقم کیا، آزادی کی خاطر اسلامیان ہند نے ظلم و ستم کے ہر چیلنج کو قبول کیا اورایک عظیم ، بے مثل و بے داغ رہنما بابائے قوم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک پیج پر جمع ہوئے، نئے دن کا نیا سورج برصغیر کے سیاسی افق پر نمودار ہوا ، قوم کو اس کی منزل مل گئی۔

آج ہم آزادی کے ثمرات سے فیض اٹھا رہے ہیں۔لیکن آزادی کے بعد کیا قوم کی جدوجہد اختتام کو پہنچ گئی۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ ملک سے بے روزگاری، غربت ،  پسماندگی اور میرٹ کی بے حرمتی کب تک جاری رہے گی، انصاف کب سستا ہوگا اور غریبوں اور بے نواؤں کوکس طرح ریاست انصاف مہیا کرنے کو یقینی بنائے گی۔

آئیے، اپنے سیاسی اور اقتصادی مسائل اور خطے کی صورتحال کے حوالے سے زمینی حقائق کا معروضی جائزہ لیتے ہیں۔

پہلا سوال ملک کی سیاسی واقتصادی مشکلات اور چیلینجزکا ہے۔ سیاسی مبصرین ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائے کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آگئی ہے، پرانا سیٹ اپ پیچھے دھکیل دیا گیا ہے، عمران خان کا ایجنڈا کرپشن سے پاک سیاسی نظام کے قیام کا ہے تو وہ نظام کیوں اپنی بنیاد مستحکم نہیں کر پا رہا ، جمہوری اور سیاسی قوتوں کے مابین ایک چیخم دھاڑ کیوں ہے،اپوزیشن اسلام آباد پر یلغارکا کیوں سوچ رہی ہے،کرپشن سے پاک معاشرہ ایک صائب اقدام ہے مگر احتساب کا عمل عدلیہ ، نیب اور دیگر تفتیشی اداروں کا کام ہے حکومت اور وزیر اعظم کو اپنے اصل ایجنڈے اور ریاست مدینہ کے قیام کی اصولی تکمیل کے لیے اہداف کی طرف رجوع کرنا چاہیے، مگر ایک افراط وتفریظ نے حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا ہے۔

حکومت کی اساس، انصاف ، شفافیت ،کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس پر ہے، یہ احسن اہداف ہیں مگرکیا وجہ ہے کہ ایک سال مکمل ہونے پر حکومت کی سمت کا کوئی تعین نہیں ہو پایا ، سیاسی محاذ آرائی، الزام تراشی، بہتان طرازی،کشیدگی اور ایک دوسرے کو نیچے گرانے کی کشمکش نے سیاست میں دھمال ڈال دی ہے، سیاست دانوں کی گرفتاریوں کا موسم آگیا ہے، وہ انداز تخاطب استعمال ہوتا گیا کہ اب اسے ریختہ کے طرز میں جدید بیانیہ شمارکیا جانے لگا ہے، وہ زمانہ رخصت ہوا جب غالب کہا کرتے تھے کہ تم ہی کہوکہ یہ انداز گفتگوکیا ہے، آج اسی طرز بیاں کا پارلیمان اور میڈیا میں طوطی بول رہا ہے، جس پر ماضی میں بد تہذیبی، بدگوئی و بدکلامی کا الزام لگتا تھا۔

ادھر نظر ڈالیں تو سینیٹ الیکشن میں پھر سے ہارس ٹریڈنگ کی رسم نے سوالیہ نشان اٹھا دیا، اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں ، ٹی وی ٹاک کیا ہے کہ دشمن اپنے ترکشوں سے ایسے زہریلے تیروں کی بارش کرتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔

آج آزادی کے دن کی یاد مناتے ہوئے ارباب حکومت اور اپوزیشن ارکان اسمبلی کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ وہ اس ملک کی خدمت ایک نئے عزم کے ساتھ کریں گے اور اسے ریاست مدینہ کے معیارکا سماج عطا کرنے کی تھوڑی سے کوشش کریں گے جس کا نمونہ خلافت راشدہ میں اسلامی تاریخ کے صفحات پر پھیلا ہوا ہے، ریاست مدینہ ایک مشکل ٹیسٹ کیس ہے، وہ معاشرہ جس عظیم ترین ہستی نے تعمیرکیا اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے حکمران اپنے اندرکردارکی سچائی ، راست بازی، اخلاص اور دیانت داری  پیدا کریں تاکہ عوام کمزور ہوتی ہوئی جمہوریت پر اعتبارکرنا سیکھیں۔اس کی اقدارکو پروان چڑھائیں۔

ریاست اپنے ماں کا کردار مستحکم کرے، فرد اور معاشرہ کا رشتہ کا تعلق مضبوط تر ہو، عام آدمی کو وقار حاصل ہو، شراکت اقتدارکا جمہوری موقع سلطانی جمہورکو ملے، قانون کی حکمرانی قائم ہو، قانون کی نگاہ میں سب برابر ہوں ، مساوات اور ترقی کے مواقعے ہر شہری کو ملیں، کوئی بھوکا نہ سوئے۔ لیکن اپنے دل پر ہاتھ کر بتائے کہ معاشی انصاف اور استحصال سے پاک جمہوری معاشرہ کی تکمیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا یا ہم اقتصادی استحکام کے سفر میں راستہ گم کر چکے ہیں، ہمیں کہیں اور پہنچنا چاہیے تھا مگر آئی ایم ایف کے راؤنڈ اباؤٹ پرکسی نے گاڑی سے اتاردیا۔

قتیل شفائی کا شعر ہے ۔

ہم کو تو انتظارِ سحر بھی قبول ہے

لیکن شبِ فراق ترا کیا اصول ہے

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔