یوم آزادی: کشمیر:ـ سراج الحق سے ایک درخواست 

مزمل سہروردی  بدھ 14 اگست 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

عید پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آزاد کشمیر میں کوئی خاص گفتگو نہیں کی ہے۔ ان کی گفتگو سے امید کم نظر آرہی ہے تاہم پھر بھی آج یوم آزادی ہے اور حکومت پاکستان نے یوم آزادی کشمیر بنے گا پاکستان کے عنوان سے منانے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔

حکومت نے بھارتی اقدمات کا موثر جواب دینے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنائی ہے۔ ایک حکومتی اعلان کے مطابق جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو اس کمیٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس سے پہلے اس کمیٹی میں وزیر خارجہ کے علاوہ صرف عسکری قیادت تھی۔ تا ہم اب اس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی نمایندگی دی گئی ہے۔

سراج الحق واحد سیاستدان ہیں جو حکومتی حلیف نہیں ہیں لیکن پھر بھی انھیں اس کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔ حالانکہ میری سراج الحق صاحب سے بات ہوئی ہے انھیں ابھی تک اس کمیٹی میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت نہیں ملی ہے۔ لیکن میڈیا کے ذریعے انھیں بھی معلوم ہو چکا ہے۔حالانکہ بہتر تو یہ تھا کہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور اپوزیشن کے دیگر بڑے رہنمائوں کو بھی اس کمیٹی میں شامل کر لیا جاتا لیکن وہ سب نیب زدہ ہیں اور حکومتی پالیسی کے تحت کسی بھی نیب زدہ کو کشمیر کا مقدمہ لڑنے کا کوئی حق نہیں۔ پھر ایسا بھی ہے کہ حالات جیسے جا رہے ہیں کس کو معلوم کب کون نیب کی تحویل میں چلا جائے۔

کب کون جیل چلا جائے۔ کون اے این ایف  یا اینٹی کرپشن کی تحویل میں چلا جائے۔ پھر آپ سب کہیں گے کہ کشمیر کی اس اہم کمیٹی کے اجلاس میں شرکت  کے لیے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔ اس طرح یہ کمیٹی کشمیر کا مسئلہ کم حل کرے گی اور پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی مشین زیادہ بن جائے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کسی بھی اپوزیشن کے رہنما کو اس کمیٹی میں شامل نہ کرنے کا حکومتی فیصلہ وقت اور حالات کے تناظر میں بہترین فیصلہ ہے ۔

میرے نزدیک اپوزیشن کے اس موقف میں بھی کوئی و زن نہیں ہے کہ اس وقت حالات نازک ہیں۔ ایسے ماحول میں حکومت کی جانب سے سراج الحق کو اس کمیٹی میں شامل کرنا کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ لیکن شاید سراج الحق اپوزیشن کے واحد رہنما ہیں جن پر اس وقت نیب کی کوئی انکوائری نہیں ہے۔ ان پر کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے۔ وہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود کلین ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ورنہ جس لہجہ میں سراج الحق حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔

ایسے میں ان پر نیب کا کوئی پرانا کیس نکل آنا معمولی بات تھا۔ ویسے تو سراج الحق ایک طرف ابھی تک جماعت اسلامی کے کسی رہنما پر نہ تو کرپشن کا کوئی الزام ہے اور نہ نیب کی کوئی انکوائری ہے۔ اس لیے شاید سراج الحق اس کمیٹی کے ممبر بننے کی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ وزیر دفاع کو اس کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا۔ جہاں تک مجھے سمجھ آتی ہے، وزیر دفاع پرویز خٹک بے شک باہر ہیں، ان کو نیب بلا بھی نہیں رہا لیکن وہ نیب زدہ ہیں۔ ان کے خلاف بھی نیب میں انکوائری موجود ہے۔

اب جب حکومت اپوزیشن کے نیب زدگان کو مسئلہ کشمیر کے معاملہ سے دور رکھ رہی ہے تو اپنے نیب زدگان کو اس میں کیسے شامل کر سکتی تھی۔  جہاں تک میری اطلاعات کا تعلق ہے۔ ویسے تو سراج الحق ابھی کمیٹی میں شمولیت کی کسی باقاعدہ دعوت یا باضابطہ اطلاع کا انتظار کر رہے ہیں۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ جب حکومت نے میڈیا میں اعلان کر دیا ہے۔ ٹوئٹر پر اعلان کر دیا ہے تو کسی باقاعدہ اطلاع کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور وہ کمیٹی کے ہر اجلاس میں باقاعدہ شریک ہوں گے۔

جماعت اسلامی نے کشمیر کی آزادی کے لیے بے پناہ جدو جہد کی ہے۔ منصورہ میں شاید ہی ایسا کوئی گھر ہو جہاں کشمیر کا شہید موجود نہ ہو جس کو مسئلہ کشمیر کی حقیقی وکیل کہا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے بچوں نے کشمیر کے لیے جان دی ہے۔ کس کو علم نہیں کہ صرف حزب المجاہدین ہی نہیں بلکہ حا فظ سعید سمیت تمام کشمیری مجاہد جماعت اسلامی کے پاس ہی سیاسی پناہ لیتے ہیں۔ جب نواز شریف نے واجپائی کو لاہور بلایا تھا تب بھی صرف جماعت اسلامی نے ہی احتجاج کیا تھا۔ حالانکہ اس احتجاج کی جماعت اسلامی کو ایک بڑی قیمت بھی ادا کرنی پڑی تھی۔

میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کی مسئلہ کشمیر کے ساتھ وابستگی مثالی ہے۔اس وقت جب کہ حافظ سعید پابند سلاسل ہیں۔ کشمیر کے دیگر رہنما بھی قید ہیں۔ بھارت نے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت سب کو دہشت گرد قرار دلو ادیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اب پاکستان کے اندر بھی کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ ہماری ناکامی ہے کہ ہم کشمیر کے مجاہدین کا عالمی سطح پر دفاع نہیں کر سکے ہیں۔

ایسے میں اس وقت جب بھارت کشمیر پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں سراج الحق کی اس کمیٹی میںشمولیت ناگزیر ہے۔ کوئی تو اس کمیٹی میں کشمیر کے شہدا کا مقدمہ لڑے۔ اب تک حکومت پاکستان نے جتنے بھی اقدمات اٹھائے ہیں ان پرعوامی تحفظات ہیں ۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ یہ کیسے اقدامات ہیں جن میں ایئر اسپیس بند نہیں ہے۔ راہداری کی تجارت بند نہیں ہے۔ فوجی کارروائی کا آپشن نہیں ہے۔

یہ تو ایک ڈرپوک حکمت عملی ہے۔ اس لیے کوئی تو ہو جو اس کمیٹی میں بیٹھ کر کشمیریوں کا موقف پیش کر سکے۔ کوئی تو ہو جو عوام کی بات کر سکے۔ یہ درست ہے کہ حکومت کو سب علم ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی حکومت تک عوامی جذبات پہنچانا ایک بڑا کام ہے۔ اگر سراج الحق اس کمیٹی میں بیٹھیں گے تو وہ عوامی جذبات کی روشنی میں بھی بات کریں گے۔

ایک دوست کا موقف ہے کہ حکومت ملکی مفاد کو دیکھے یا عوامی جذبات کو دیکھے۔ میری رائے میں عوامی جذبات ہی قومی و ملکی مفاد کے بہترین ترجمان ہوتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کبھی عوامی جذبات ملکی مفاد کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ملکی مفاد اسی میں ہے کہ سراج الحق اس کمیٹی میں بیٹھیں۔ کلمہ حق بلند کریں۔یہ ایک مشکل کام ہوگا۔ لیکن یہ وقت کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔