جناح کی 11 اگست 1947کی تقریر

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 14 اگست 2019

’’آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے۔آپ کو اپنی مسجدوں میں جانے کی آزادی ہے۔ پاکستان کی اس ریاست میں اب کسی بھی دوسری عبادت گاہ میں جا سکتے ہیں۔آپ کا تعلق کسی مذہب ، ذات یا عقیدے سے ہو امور مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم ایسے دورکا آغاز کر رہے ہیں جس میں کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔مختلف قوموں اور برادریوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔ ہم سب ایک ہی ریاست کے شہری ہیں۔ برابرکے شہری ہیں اور اب میرا خیال ہے کہ آپ کو یہ بات آدرش کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے اور آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصہ بعد ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں اس ریاست کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘

11 اگست 1947 کو کراچی میں آئین ساز اسمبلی کے اجلاس کے دوسرے دن پاکستان کے بانی اور مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح نے اپنی پالیسی تقریر میں ایک مکمل جمہوری ریاست کے آئین کے خدوخال واضح کردیے۔ محمد علی جناح کی یہ تقریر جمہوری نظام کے دنیا میں ارتقاء کے تناظر میں تھی۔ جناح جمہوریت پر یقین رکھتے تھے۔انھوں نے ساری زندگی جمہوری جدوجہد میں وقف کی اور نئے ملک کے آئین کے لیے ایک سیکیولر اور جمہوری آئین کا نظریہ پیش کیا۔

اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ پہلی آئین ساز اسمبلی ملک کا آئین بنانے میں ناکام رہی۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ملک کے بانی محمدعلی جناح کے وژن سے انحراف کرتے ہوئے قرارداد مقاصد اسمبلی سے منظورکرائی، یوں ریاست کا تشخص خراب ہوا۔ پھر 1956 میں پہلا آئین بنا۔ پاکستان برطانوی نوآبادی سے آئینی طور پر علیحدہ ہوا مگر 1958 میں فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے ماشل لاء نافذ کیا اور 1956کے آئین کو منسوخ کیا۔ ایک ایسا آئین نافذکیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ لائل پور کے گھنٹہ گھر کی طرح تمام راستے صدر ریاست کے گرد گھومتے ہیں۔

جنرل ایوب خان کے دور میں صرف کراچی اور لاہور میں ترقی ہوئی، مشرقی پاکستان پسماندہ رہا۔ مشرقی پاکستان کے رہنماؤں نے کہنا شروع کیا کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ 1968 میں عوامی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان رخصت ہوئے اور جنرل یحییٰ خان اقتدار میں آگئے، عام انتخابات ہوئے۔ جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اور مخالف رہنماؤں غوث بخش بزنجو، خان ولی خان، مفتی محمود، پروفیسر غفور، مولانا شاہ احمد نورانی اور شیر باز خان مزاری کی کوششوں سے 1973کا آئین تیار ہوا۔ اس آئین نے وفاق کو مضبوط کیا مگر جنرل ضیاء الحق نے 10 سال اور جنرل پرویز مشرف نے 4 سال تک مکمل طور پر آئین کو معطل رکھا جس سے کئی آئینی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ سندھ اور پھر بلوچستان میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں 6 مرتبہ فوجی آپریشن ہوا۔

ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے سربراہوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ اس میثاق کے تحت 2010 میں آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی۔ صوبوں کو وہ حقوق حاصل ہوگئے جس کا ذکر 23 مارچ 1940 کی قرارداد میں کیا گیا تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کی بناء پر مذہبی انتہاپسندی نے شدت اختیار کی اور یہ دہشت گردی میں تبدیل ہوگئی۔  کابل میں لڑی جانے والی لڑائی پشاور اور کوئٹہ سے ہوتی ہوئی کراچی تک پہنچ گئی۔ دہشت گردی کی اس لڑائی میں اقلیتی فرقوں کے ماننے والوں کا قتل  ہوا۔ دہشت گردوں نے خودکش حملوں کا ہتھیار استعمال کیا ۔قبائلی علاقوں میں خودکش حملہ آور بنانے کی فیکٹریاں قائم ہوئیں۔

سوات تباہ ہوا،کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری کی نسل کشی ہوئی۔ مسلح افواج اور پولیس کے ہزاروں جوان اور افسران دہشت گردوں کے خاتمے کے آپریشن کو کامیاب بناتے ہوئے شہید ہوئے۔ 18ویں ترمیم کے نتیجے میں صوبوں کو جو حقوق ملے تھے، مقتدر حلقوں کو یہ صورتحال قبول نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبوں کے حقوق کے خلاف ایک منظم جدوجہد شروع ہوئی۔ چھوٹے صوبوں کے نمایندوں کی مزاحمت کی بناء پر مقتدر قوتیں اپنے مقاصد کو پورا نہیں کرسکیں مگر 18 ویں ترمیم کا خاتمہ ایک چیلنج کی صورت میں موجود ہے۔

کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں نیشنل کانگریس کے رہنما شیخ عبداﷲ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے ڈوگر راج کے خاتمے کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ شیخ عبداﷲ کشمیر کی مکمل آزادی کے خواہاں تھے مگر مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں بھارت نے وادئ کشمیر ، جموں اور لداخ پر قبضہ کرلیا۔

جدید بھارت کے بانی پنڈت جواہر لعل نہرو اور شیخ عبداﷲ کے درمیان معاہدہ ہوا، جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے شق 370 کی منظوری دی۔ اس شق کو بھارت کے آئین کا حصہ بنایا گیا، اس شق کے تحت کشمیرکو خصوصی حیثیت دی گئی۔کشمیر سے باہر سے آنے والے افراد کے ووٹ ڈالنے اور جائیداد خریدنے کے حق پر پابندی لگادی گئی۔کشمیر میں ملازمتوں کو صرف کشمیریوں کے لیے وقف کیا گیا۔اس طرح پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں میں کشمیری طالب علموں کے لیے نشستیں مختص کردی گئیں۔

نئی دہلی کی حکومت ضروری اشیاء کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے زر تلافی ادا کرنے کی پابند قرار پائی ۔ اس شق کے تحت اگر کشمیری فرد کسی غیر کشمیری لڑکی سے شادی کرلے تو یہ لڑکی پھر بھی کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتی۔ اس شق سے کشمیریوں کو اس کے معاشی اور سیاسی معاملات میں مکمل تحفظ حاصل ہوا۔ نئی دہلی میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ غیر کشمیریوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کا حق مل جائے مگر کشمیری عوام کے احتجاج پر یہ کوشش ناکام ہوگئی۔

اس صدی کے آغاز سے وادئ کشمیر میں شدید بے چینی ہے۔ نوجوان کشمیر کی آزادی کے لیے جانیں دے رہے ہیں۔ بھارت کے ہزاروں فوجی کشمیر میں تعینات ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندو توا کے نعرے پر برسر اقتدار آئی ہے۔ ہندو توا کا مطلب ہندو مت کا راج قائم کرنا ہے۔ یہ صورتحال مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو دوسرے درجے کا شہری بناتی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس مذہبی انتہا پسندی کی پالیسی کے خلاف کانگریس، کمیونسٹ پارٹیاں اور سول سوسائٹی زبردست مزاحمت کررہی ہیں۔ وزیر اعظم مودی حکومت نے بھارت کے آئین کی شق 370 کو منسوخ کرکے بھارتی ریاست کے سیکیولرکردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی دانشور اور سوشل ایکٹوسٹ ارون دتی رائے نے ہمیشہ کشمیر میں بھارتی فوجی آپریشن کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ ارون دتی رائے کے خیالات کی بناء پر وہ ہمیشہ معتوب قرار پائے۔ اس کے خلاف ایک عدالت نے ایف آئی آر درج کرانے کا حکم دیا ہے۔

ارون دتی رائے کا کہنا ہے کہ یہ ایف آئی آر ان کے علاوہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کے خلاف درج کی جائے جن کے وژن کی بناء پر کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت حاصل ہوئی۔کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی سے مذہبی انتہاپسندی کو تقویت ملے گی اور بھارت کے وفاق کو نقصان پہنچے گا۔

14 اور 15 اگست 1947 کو آزاد ہونے والے دونوں ممالک آج مذہبی انتہاپسندی اور وفاقی کے بحران کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے جدوجہد کریں تو یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اس بحران کا حل محمد علی جناح کی 11 اگست 1947کی تقریر پر عملدرآمد میں ہی مضمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔