پاکستان کے لیے رشتہ دار اورمذہب چھوڑنے والا خاندان

آصف محمود  بدھ 14 اگست 2019
1947 میں پڈانہ میں زیادہ آبادی سکھوں کی تھی فوٹو: ایکسپریس

1947 میں پڈانہ میں زیادہ آبادی سکھوں کی تھی فوٹو: ایکسپریس

 لاہور: 1947 میں جہاں لاکھوں لوگوں نے پاکستان کے لئے ہجرت کی اوراپنا سب کچھ بھارت میں چھوڑآئے تھے وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے خاندان دونوں ملکوں میں تقسیم ہوگئے، لاہور کے سرحدی گاؤں پڈانہ میں ایسا ہی ایک سکھ خاندان آباد تھا جس کے زیادہ ترلوگ بھارت چلے گئے مگر چند لوگ مسلمان ہوگئے اوراس پاک سرزمین کو چھوڑنا گوارہ نہ کیا۔اس خاندان کی تیسری نسل آج بھی پڈانہ گاؤں میں آباد ہے۔

لاہورکے سرحدی علاقہ پڈانہ میں ایک عظیم الشان حویلی کے آثارموجودہیں، یہ حویلی 200 سال قدیم ہے اور لوگ اسے سردار جوالہ سنگھ سدھو کی حویلی کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کھنڈر بنی حویلی کے کچھ حصے میں اب سردار جوالہ سنگھ کی تیسری نسل آباد ہے لیکن یہ خاندان قیام پاکستان کے وقت مسلمان ہوگیا تھا، نوجوان سردارسیف اللہ اسی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پردادا جی، جن کا نام سردار ہرچرن سنگھ تھا مگرمسلمان ہونے کے بعد انہوں نے اپنا نام سردار نصر اللہ رکھ لیا۔ انہوں نے دو شادیاں کی تھیں۔ان کی ایک بیوی اوربیٹا بھی مسلمان ہوگئے تھے۔ بیوی کا نام فاطمہ جبکہ بیٹے کا نام سردار خزان سنگھ سے بدل کرسردارامان اللہ رکھا گیا جبکہ سردار ہرچرن سنگھ کی دوسری بیوی اوربیٹے اپنے سکھ مذہب پرقائم رہے اور خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ بھارت چلے گئے تھے۔

سردار سیف اللہ نے بتایا کہ ان کا اب بھی اپنے خاندان کے لوگوں سے رابطہ رہتا ہے ، تاہم وہ آج تک ان سے ملنے بھارت نہیں جاسکے ہیں البتہ بھارت سے ان کے خاندان کے لوگ ملنے ضرورآتے رہے ہیں، ان کے خاندان کے جو لوگ سکھ ہیں انہیں ان کا مذہب مبارک ہو لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ان کے داداجی مسلمان ہوگئے اور آج انہیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے تاہم مذہب اپنی جگہ خون کے رشتے توپھرصدیوں چلتے ہیں

اسی گاؤں کے ہائی اسکول سے ریٹائرڈ سینیئر استاد محمد حنیف نے بتایا کہ 1947 میں اس گاؤں میں زیادہ آبادی سکھوں کی تھی تاہم چند ایک گھر مسلمانوں کے بھی تھے۔ گاؤں کے مسلمان اور دیگر لوگ سردار جوالہ سنگھ کی زمینوں پرکھیتی باڑی کرتے تھے۔ یہ اتنی بڑی حویلی تھی کہ یہاں پرندہ پر نہیں مارسکتا تھا مگر آج یہ ویران پڑی ہے۔ پڈانہ گاؤں کو اس علاقے میں مرکزی حیثیت حاصل تھی ، اس وقت بھی یہاں ہائی اسکول تھا۔ قریبی دیہات سے لوگ خریداری کے لئے یہاں آتے تھے۔ برطانوی دور میں یہاں مجسٹریٹ بیٹھتا اور عدالت لگتی تھے۔ گاؤں میں سیوریج اورصفائی کا بہترین انتظام تھا۔

ایک اور بزرگ محمد یوسف نے تقسیم کے واقعات بتاتے ہوئے کہا 1947 سے قبل گاؤں میں مسلمان ، سکھ اور باقی مذاہب کے لوگ امن اور سکون سے زندگی گزاررہے تھے۔ یہاں سکھوں کی اکثریت تھی۔ جب 1947 میں قیام پاکستان کا اعلان ہوا ہنگامے شروع ہوگئے تھے۔ اس گاؤں کے سکھ سرپنچ نے تمام سکھوں کو یہاں موجود گوردوارہ میں جمع کیا اور انہیں بھارت جانے کا مشورہ دیا، مگر سکھوں کی اکثریت اس کے لئے تیار نہیں تھی لیکن جب سرپنچ خود اپنا سامان اور خاندان والوں کو لے کر گاؤں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر بنی سرحد پار کی تو باقی سکھ خاندانوں نے بھی گاؤں چھوڑ دیا۔ اس وقت سردارہرچرن سنگھ جوکہ مسلمان ہوگئے تھے سکھ خاندانوں نے اس حویلی میں پناہ لے تھی۔

بابا معراج دین نے بتایا کہ 1947 میں جب ہنگامے شروع ہوئے تو اس گاؤں میں امن وسکون تھا لیکن جب بھارت سے مسلمانوں کے لٹے پٹے اورلہومیں لت پت قافلے پاکستان پہنچنا شروع ہوئےتو مسلمانوں میں بھی اشتعال پیدا ہوا۔ سکھو ں کے پاس کرپان اور تلواریں تھیں جب کہ مسلمانوں کے پاس صرف ڈنڈا ہوتا تھا۔ اس وجہ سے ان ہنگاموں میں زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہواتھا۔ مشکل کی اس گھڑی میں سردار جوالہ سنگھ کے خاندان نے مسلمانوں کی بہت مدد کی تھی، ان کی سیکڑوں ایکڑ اراضی تھی جو غریب مسلمانوں کو الاٹ کردی گئی۔ لوگ ان کی حویلی میں پناہ لیتے تھے، اپنے مویشیوں کے لئے چارہ یہاں سے لیتے تھے اور آج بھی یہ سردار خاندان گاؤں میں سب سے زیادہ بااثر اور امیر ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔