تقسیم برصغیر پاک و ہند اور عظیم ہجرت

وجیہہ تمثیل مرزا  بدھ 14 اگست 2019
یہ ملک بڑی محنت اور قربانیوں سے حاصل ہوا، اس کی قدر کریں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ ملک بڑی محنت اور قربانیوں سے حاصل ہوا، اس کی قدر کریں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’ہم پاکستانی ہیں‘‘ ، ’’ہمیں اپنے وطن سے پیار ہے‘‘ ، ’’ہمارا دل، ہماری جان سب پاکستان پر قربان‘‘۔

یہ وہ جملے ہیں جو اکثر میں اور آپ یوم آزادی قریب آنے سے پہلے ہر پاکستانی سے سنتے ہیں۔ ہر ٹی وی چینل پر عوام کی رائے لی جاتی ہے، جن کا صرف ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہمیں پیار ہے اپنے پاکستان سے۔

لیکن میرے خیال میں یہ صرف خیالی الفاظ ہیں جن کا سہارا لے کر ہم یہ ثابت کرسکیں کہ ہم پاکستان کےلیے کچھ کر سکتے ہیں۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم عوام سچی حب الوطنی کے اُس اعلیٰ مقام تک کبھی بھی نہیں پہنچ پائیں گے جو ہمارے شہید مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس ملک سے نبھائی تھی۔

پاکستان بنے 71 سال ہوگئے ہیں۔ ہمارے ملک نے ایک پہچان پانے کےلیے نہ جانے کتنی مصیبتیں برداشت کیں، اس کا اندازہ آج کی نسل لگا ہی نہیں سکتی۔ عموماً ہمارے بڑے تقسیم کے حوالے سے کچھ ایسے سنگین واقعات بیان کرتے ہیں کہ انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ جب ہم یہ واقعات سن کر ہی کانپ جاتے ہیں تو سوچیں جنھوں نے یہ سب دیکھا اور جھیلا، وہ کیسے جی سکتے ہوں گے۔ تقسیم پاک و ہند میں ہمارے مسلمانوں نے اپنی جانیں، اپنا مال و دولت، اپنا ورثہ، عزتیں سب کچھ گنوا دیا، صرف اس پاک وطن کو حاصل کرنے کےلیے۔

27 رمضان المبارک کی وہ کڑی صبح، جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو ہر طرف ہنگامے پھوٹ پڑے۔ بے یارو مددگار مسلمان کہیں زندہ تو کہیں مردہ پڑے تھے۔ روزے کی حالت میں جب ہمارے بزرگوں نے ہجرت شروع کی تو کیا مشکلات اُٹھائی تھیں؟ یہ تو صرف وہی جانیں۔ ایسے بھی واقعات سننے میں آئے کہ پاکستان آنے والی پہلی ہجرت ٹرین کی 9 بوگیاں تھیں، تقریباً ہزار مسافر سوار تھے۔ جب ریل گاڑی لاہور اسٹیشن پر آکر رکی تو صرف 8 مسافر زندہ تھے، وہ بھی بری طرح زخمی تھے۔

امرتسر اور لاہور کے راستے میں ٹرینوں پر 54 سے زائد حملے ہوئے۔ ان تمام مصیبتوں کو بیان کرنا بہت مشکل اور تکلیف دہ ہے، مگر ان واقعات کی کچھ قیمتی تصاویر ایسی ہیں جن کو دیکھ کر ہم پاکستانی اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

ہمارے بزرگوں نے اپنی آنے والی نسلوں کےلیے ہجرت کی اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ہجرت کرنے والوں نے رمضان کے آخری روزے اور عید کن حالات میں گزاری ہوگی صرف وہ جانیں یا اللہ جانے۔ پاکستان کے راستے میں بے گوروکفن مارے جانے والے مسلمان، ہم ان کی کسی ایک قربانی کا بھی حساب نہیں دے سکتے۔

تقسیم ہند کے ساتھ ہی دونوں ممالک میں ہنگامے ہوئے۔ مہاجرین پر حملے بھی ہوئے اور کروڑوں لوگ مارے گئے۔ یوں حاصل ہوا تھا یہ پاکستان، جہاں آج ہم آزادی کی سانس لے رہے ہیں۔ ہماری ہر سانس اس ملک کی قرض دار ہے۔ 14 اگست 1947 وہ دن ہے جو شہیدوں کے لہو سے رنگین ہے۔ قربانیوں کی داستان، خون کی وہ لکیر ہے جس سے برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی آنے والی نسلوں کےلیے علیحدہ وطن کی تاریخ لکھی تھی۔

یہ ملک بڑی محنت اور قربانیوں سے حاصل ہوا، اس کی قدر کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وجیہہ تمثیل مرزا

وجیہہ تمثیل مرزا

بلاگر جامعہ پنجاب میں صحافت (جرنلزم) کی طالبہ ہیں۔ ٹیم پیغام پاکستان اور ڈیفنس پاکستان کے تحت منعقد ہونے والے مقابلہ نظم و نثر میں تیسری پوزیشن حاصل کرچکی ہیں۔ قبل ازیں آپ گوجرانوالہ آرٹس کونسل کے تحت تحریری مقابلے میں پہلی پوزیشن کے علاوہ اسلام آباد اسکول آف انٹرنیشنل لاء کے تحت منعقدہ مقابلہ مضمون نگاری میں بھی پانچویں پوزیشن حاصل کرچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔