ہمارا معاشرہ ہمارے بچوں کے لیے محفوظ نہیں رہا

انوار فطرت / غلام محی الدین  ہفتہ 21 ستمبر 2013
 کسی معاشرے کے مجموعی کردار کا اندازہ اس کے افراد کے افعال سے لگا سکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

کسی معاشرے کے مجموعی کردار کا اندازہ اس کے افراد کے افعال سے لگا سکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  یہ کیسے دن آ گئے ہیں کہ ہر جانب جنسی انحراف کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔

لاہور میں گنگا رام اسپتال میں لائی جانے والی معصوم بچی پر جنسی جارحیت کے واقعہ کے بعد ہَوا جس خوف ناک انداز میں بگڑی اور مسلسل بگڑتی چلی جا رہی ہے، اُس نے چھوٹے بچوں، خاص طور پر بیٹیوں کے والدین کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں، اِس عفریت سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے؟ حکومت سے لے کر ایک عام شہری تک کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ سمجھ میں تو تب آئے جب ان وارداتوں میں ملوث اصل افراد قانون کے شکنجے میں آ جائیں۔ ہفتے گزر چکے مگر ابھی تک دیکھنے کو اور سننے کو کوئی خبر ایسی نہیں ملی کہ جس سے سماجی سطح پر قرار آ جائے۔

دن جوں جوں گزر رہے ہیں، مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی دیدہ دلیریاں بڑھ رہی ہیں اور میڈیا میں آئے روز نئے واقعات رپورٹ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ قوم پہلے ہی دہشت گردی کے عذاب سے گزر رہی تھی اب یہ ایک اور عذاب مسلط ہو چکا ہے جس کو مسلم معاشرے کی ایک گھناؤنی تصویر کے طور پر عالمی میڈیا پیش کر رہا ہے۔

معصوم بچوں کے ساتھ جنسی جارحیت کے واقعات کی درست انوسٹی گیشن کیوں نہیں ہو پاتی یا ابھی تک کیوں نہیں ہو پائی؟ اِس پر وفاق سمیت چاروں صوبوں کی حکومتوں نے پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جب کہ پولیس میڈیا پر الزام دھر رہی ہے کہ وہ ہمیں درست سمت میں آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بات کسی حد تک درست بھی ہو لیکن پولیس کی اپنی نااہلی اور بدعنوانی بھی اُسی زمرے میں آتی ہے جس خانے میں میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ کوریج کو رکھا جا رہا ہے۔

ایکسپریس کی آج کی اشاعت خاص میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اس کو پولیس انوسٹی گیشن کی رپورٹوں سے دور رکھا جائے بل کہ عام شہریوں کی تعلیم و تربیت اور اس مرض کے خاتمے کے لیے ہم نے اس مرض کے ان عوامل کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے جن پر معمولی سی توجہ دے کر ہم آنے والی نسل کو اس عفریت سے محفوظ کرنے کے لیے کوئی قابل عمل حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں۔

صورت حال کی سنگینی
War Against Rape ایک غیر سرکاری تنظیم ہے اسے War کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس تنظیم کا کام پاکستان میں جنسی زیادتیوں کے مسائل کو منظر عام پر لانا اور ان کے تدارک کی ترغیب دیناہے۔ اس کی 1992 کی ایک رپورٹ میں آب رو ریزی کے جو کیس سامنے لائے گئے، ان میں 20 فی صد ایسے تھے، جن میں خود پولیس ملوث تھی۔ 2008 میں تنظیم کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب اس نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک خاتون کی مدد کرنا چاہی تو اس کے کارکنوں پر ایک مذہبی گروہ کے ارکان نے حملہ کر دیا۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے میں جنسی جارحیت کا ایک اور ہر 8 گھنٹے میں اجتماعی جنسی جارحیت کا ایک کیس ہو رہا ہے۔ معروف سماجی کارکن اور ماہرِ قانون عاصمہ جہانگیر کی تنظیم ویمن ایکشن فورم کی 1988 کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں قیدی یا حوالاتی خواتین کی 72 فی صد تعداد کو دورانِ حراست جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

راول پنڈی اسلام آباد
جڑواں شہروں میں 3 سو بچوں کا سروے کیا گیا، جن میں سے 17 فی صد بچوں نے جنسی تشدد کا نشانہ بننے کی شکایت کی۔ 1997 کی ایک رپورٹ کے مطابق جڑواں شہروں میں روزانہ ایک بچے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

لاہور
لاہور میں 2013 کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران عصمت دری کے 113 واقعات ہوئے جب کہ 32 واقعات اجتماعی زیادتی کے ہیں۔ درندگی کا نشانہ بننے والی خواتین میں غالب تعداد 10 سے 13 برس کی بچیوں کی ہے جب کہ ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، جو پولیس تک نہیں پہنچ پاتے۔ گذشتہ نومبر میں آواز فاؤنڈیشن سنٹر فار ڈیویلپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق عورتوں پر جنسی تشدد کی 2713 وارداتیں ہوئیں، یہ صرف جنوبی پنجاب کے پندرہ اضلاع کا احوال ہے، اس سے معاملے کی گمبھیرتا کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔

بچوں پر جنسی جارحیت محض مقامی مسئلہ نہیں بل کہ یہ ایک عالم گیر وباء ہے۔ جہاں یہ پاکستان جیسے پس ماندہ ممالک میں موجود ہے اسی طرح یہ انتہائی مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں بھی موجود ہے اور پوری شد و مد کے ساتھ۔

جنوبی افریقہ
دست یاب اعداد و شمار کے مطابق جنوبی افریقہ اس معاملے میں دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔ ایک سروے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ 11 فی صد لڑکوں اور 4 فی صد لڑکیوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے کم سن بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی جارحیت کی ہے۔ اسی نوع کے ایک اور سروے میں اسکولوں کے 1500 بچوں میں سے ایک چوتھائی نے اپنے انٹرویوز میں اعتراف کیا کہ وہ Jackrolling میں ملوث رہے ہیں۔

’’جیک رولنگ‘‘ ایک الم ناک ’’تفریحی‘‘ اصطلاح ہے، جس میں شکار بچے کو ایک اجتماع میں ایک کے بعد دوسرے کے حوالے کیا جاتا ہے، بنیادی طور پر یہ گینگ ریپ ہی کی شکل ہے۔ جنوبی افریقہ میں 2000 میں 67 ہزار بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، یہ وہ تعداد ہے جو رجسٹر ہوئی جب کہ 1998 کی یہ تعداد 37 ہزار 500 تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس رجحان میں اضافہ ہوا۔ چائیلڈ ویلفیئر تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اصل تعداد رجسٹرڈ کیسوں سے 10 گنا زیادہ ہے یعنی لگ بھگ سات لاکھ۔ نشانہ بننے والے بچوں کی عمریں 7 سال سے کم ہیں۔ 2001 میں 9 ماہ کی ایک بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کا کیس بھی رجسٹر ہوا، 2002 میں 8 ماہ کے ایک بچے کو چار افراد نے درندگی کا نشانہ بنایا۔

یو کے
یوکے میں 2010 کے ایک سروے کے مطابق کے 23 ہزار سے زیادہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات ریکارڈ ہوئے۔ ان واقعات میں 86 فی صد واقعات میں بچیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

یو ایس اے
امریکا (USA) جیسی بہتر معیشت اور بہ زعمِ خود ’’مہذب ترین قوم‘‘ کے حامل ملک میں 2005 میں 83 ہزار 6 سو بچوں پر جنسی جارحیت کی گئی اور یہ بھی صرف وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہوئی۔ اس تعداد میں کالے اور گورے بچوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ فن لینڈ میں 1992 کے ایک سروے کے مطابق 15 سال کی 9 ہزار بچیوں نے ایک سوال نامہ پر کیا، جس میں انکشاف ہوا کہ ان میں سے 0.2 فی صد بچیوں کو ان کے اپنے والد نے اور 3.7 فی صد بچیوں کو ان کے سوتیلے والد نے کم سنی میں ہوس کا نشانہ بنایا تاہم وہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو رجسٹر نہیں ہو پائی۔ کچھ کے مطابق یہ تعداد 400 فی صد تک پہنچتی ہے۔ متعدد ممالک ایسے ہیں جہاں ایسے واقعات کی تعداد خاصی ہے تاہم وہ اپنے اعداد و شمار جاری نہیں کرتے۔

بھارت
بھارت دنیا بھر کے 19 فی صد بچوں کا ملک ہے۔ دوسرے الفاظ میں بھارت کی 42 فی صد آبادی بچوں پرمشتمل ہے۔ بھارت میں اس نوع کے واقعات بہت زیادہ ہے تاہم انہیں شاذ ہی رجسٹر کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر 2007 میں رونما ہونے والے واقعات کی تعداد 12 ہزار 447 بتائی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف 13 صوبوں کے ہیں، باقی صوبوں کی شماریات دست یاب نہیں تاہم ملک کی بے طرح آبادی اور انتہائی غربت کو دیکھا جائے تو عین ممکن ہے کہ بھارت اس معاملے میں جنوبی افریقہ کو پیچھے چھوڑ جائے۔

تائیوان
تائیوان میں سو میں سے 25 فی صد نوجوانوں نے کم سنی میں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کا اعتراف کیا۔

جنسی بگاڑ سے جنسی جرائم تک
ا رسطو نے کہا تھا کسی انسان کے مزاج کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے افعال سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہم کسی معاشرے کے مجموعی کردار کا اندازہ اس کے افراد کے افعال سے لگا سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی زندگی کی کئی اہم باتوں کے متعلق غلط، بے بنیاد اور غیرسائنسی مفروضے پائے جاتے ہیں۔ ایسے مفروضے شاید سب سے زیادہ سیاست اور جنس کے بارے میں ملتے ہیں حال آں کہ جس طرح بھوک، پیاس، لباس، آرام اور ہوا کی سب کوضرورت ہوتی ہے اسی طرح کسی بھی ریاست کی لیے سیاست اور جان دار کے لیے جنس لازمی اور فطری ضرورت کادرجہ رکھتی ہے جس طرح ہماری سیاسی بے راہ روی ہمارے اخلاقی عارضوں کے باعث ہے، اسی طرح ہماری جنسی بے راہ روی بھی ہمارے بیمار جنسی رویوں کی وجہ سے سامنے آتی ہے ۔

جنسی برائیوں میں خصوصاً ہم جنس پرستی، بچوں کے ساتھ زیادتی کا عارضہ، اذیت رسانی، جنسی جمود اور مردانگی کا زائل ہونا قابل ذکر ہیں۔ عوام میں سکون آور اور نشیلی ادویات کا رجحان بھی شاید اسی لیے بڑھ رہا ہے۔ ہماری نوجوان نسل بے حد پریشان ہے اور پریشانی ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جو انسان کی شخصیت کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ حقیقت سے نگاہیں چرانا فرار ہے اور آنکھیں بند کر لینا کوئی حل نہیں۔ حقیقت بہ ہرحال حقیقت ہی رہتی ہے اور مسئلے اپنی پوری شد و مد کے ساتھ آپ کے سامنے موجود رہتے ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ تذبذب کی شکار قوموں کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔

پریشانی یا ڈیپریشن کی ذیل میں ایک باب جنسی جرائم کا بھی ہے۔ اس باب کی لرزہ خیزیاں ہر دور میں انسان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا بنتی رہی ہیں اور اس کا تسلسل جاری ہے بل کہ سماجی پیچیدگیوں کے سبب وہ اس دلدل میں اور بھی دھنس رہا ہے۔

جنسی انحراف (Sexual Deviation)
نفسیات کے ماہرین نے جنسی رویوں کے اس بگاڑ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں، اس لیے ہم حمیر ہاشمی، رفیق جعفر، عبدالحمید اور محترمہ ناصرہ فاروق کی مشترکہ تصنیف ’’نفسیات‘‘، جسے اردو سائینس بورڈ لاہور نے شائع کیاہے، کے حصۂ اطلاقی سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں ’’جب کوئی معاشرہ ایک فطری اور بنیادی جسمانی فعل کو گندا، غلیظ اور اس کے تذکرے کو گناہ قرار دینے لگے تو اس امر کا ردعمل وہی ہو گا جو کہ ہمارے معاشرے میں، ہمارے نوجوان بالخصوص اور تقریباً ہر شخص بالعموم جنس کے متعلق رکھتا ہے اور وہ علم یا آگاہی نہایت غلط اور مشتبہ ذرائع سے حاصل کرنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔ جنس کے متعلق منفی معاشرتی رویہ اور اس سے متعلق آگاہی گمراہ کن ذرائع سے حاصل کرنے کے نتیجہ میں ہمارے معاشرے کے بہت سے افراد ذہنی پر یشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ہم یہاں ایسی ذہنی بیماریوں کا ذکر کریں گے، جو درج شدہ وجوہات کی بناء پر پیدا ہو تی ہیں۔ یہ بیماریاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب جنس کے فطری اظہار پر پابندی لگا دی جاتی ہے، اس پابندی کی نوعیت معاشرتی بھی ہو سکتی ہے اور انفرادی بھی، معاشرتی پابندی وہ ہے جو معاشرہ عائد کرتا ہے جب کہ انفرادی پابندی وہ ہے جو ایک شخص مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے اوپر عائد کر لیتا ہے۔ جیسا کہ عیسائی مذہب میں رومن کیتھولک پادری وغیرہ اپنے اوپر پابندی عائد کر لیتے ہیں، انفرادی پابندی رضا کارانہ ہوا کرتی ہے اس کے برعکس معاشرتی پابندی زیادہ تر افراد کے لیے غیر رضاکارانہ عمل ہی ہوتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ انفرادی پابندی میں کم اور معاشرتی پابندی کے تحت زیادہ جنسی خلل ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس کے باعث پاکستان میں 80 کی دہائی میں جنسی جرائم کے ارتکاب میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔ بیماریوں کی بین الاقوامی شماریاتی درجہ بندی اور صحت کے مسائل کی اصلاحات (آئی سی ڈی نمبر9) کے مطابق جنس کے متعلق عارضوں کی کل تعداد گیارہ ہے:

ہم جنس پر ستی (مردانہ و زنانہ)، جانوروں کی طرف (مردانہ و زنانہ) میلان کا عارضہ (Bestiality)، بچوں کی طرف (مردانہ و زنانہ) میلان (Paedophilia)۔ پچھلے چند برسوں سے پیڈفیلیا کے رجحان میں بدقسمتی سے کافی اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافہ کی وجہ معاشرتی گھٹن کے علاوہ یہ بھی ہے کہ اس فعل کے مرتکب افراد یہ سجھتے ہیں کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں اس لیے ان کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا بھی لیا جائے تو وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتے)

مخالف جنس لباس پرستی ( Transvestism) اس کا مریض مخالف جنس کے لبا س پہن کر جنسی تسکین حاصل کرتا ہے،
مخالف جنس کردار پر ستی (Trans Sexualism)۔ اس کے مریض آپریشن کرا کے اپنے مخصوص اعضا ختم کروا سکتے ہیں،
جنسی نمائش پرستی(Exhibitionism)، اس کے مریض اپنے جنسی اعضاء کی نمائش میں مبتلا ہوتے ہیں،
اذیت رسانی (Sadism)، اس کا مریض دوسرے افراد کو عموماً جسمانی یا ذہنی اذیت پہنچا کر جنسی تسکین حاصل کرتا ہے، ایسے افراد جنسی قاتل بن سکتے ہیں، اس کا زیادہ تر شکار مرد ہوتے ہیں۔
اذیت پسندی (Masochism)، اس کا مبتلا خود کو ذہنی یا جسمانی اذیت دیتاہے، یہ لوگ بعض اوقات خود کو معذور کر لیتے ہیں، انتہائی حالتوں میں موت سے بھی ہم کنار ہو سکتے ہیں، یہ بیماری مردوں اور عورتوں دونوں کو لاحق ہو سکتی ہے لیکن زیادہ تر عورتیں اس میں مبتلا ہوتی ہیں

اس کے علاوہ غیر جسمانی لذت (Fetishism)، جنسی جمود (Frigity)، نامردی (Impotence)اور استمنابالید (Masturbation) بھی اسی زمرے میں آتی ہیں‘‘۔

ا سلام کا نظریہ جنس
جنسی انحراف کی اس افراط میں روشنی کی ایک کرن اسلامی تعلیمات میں ہی نظر آتی ہے۔ اسلام نے زندگی کے دوسرے مسائل کی طرح انسا ن کی جنس کے اس حساس اور نازک مسئلے پر بھی راہنمائی کا درس دیا ہے تاکہ انسان اپنی خواہش کی تکمیل وقار ، موذوں اور متوازن طریقے سے انجام دے سکیں۔ اسی لیے اسلام نے جنس کے تمام ظاہری اور پوشیدہ پہلوؤں کا بہ خوبی احاطہ کیا ہے تاکہ زندگی میں شہوت کی زیادتی اورغیر فطری جذبات سے محفوظ رہا جاسکے۔

اسان فطرتاً آزاد رہنا پسند کرتا ہے، اسی لیے عیش و عشرت کے اسباب اور لذتوں سے بھری ہوئی اس دنیا میں جنس سب سے بڑی ترغیب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہ نمائی کے لیے جو سامان مہیا کیا تھا، اس کو آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ کے ذریعے اپنے نقطۂ کمال تک پہنچا دیا تاکہ روز محشر تک انسان کی اس ضروریات کی تکمیل کا سامان ہو سکے۔ اسلام دوسرے مذاہب کی نسبت اس فعل کو کسی گناہ کا عمل یا حیوانی خواہش کا مظہر قرار نہیں دیتا، بالخصوص جب یہ قانونی دائرۂ کا ر کے اندر حکمت الٰہیہ کے تابع ہو۔ جنس کے بارے میں اسلامی تعلیمات میں جو توازن اور اعتدال کا عنصر رکھا گیا ہے۔ اس سے انسان کی صلاحیتں نکھرتی ہیں بل کہ اسے اشرف المخلوقات کے معیار پر پورا اتارتے ہوئے سیرت اور صورت کا اعلیٰ مقام بھی عطا کر تا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام مسئلۂ جنس کو خوب صورتی سے حل کرتا ہے اور اسے خصو صی اہمیت عطا کرتاہے، چوں کہ دین کی اساس قرآن پاک ہے،اس لیے اس میں بدن کے سب سے بڑے اور اہم ترین مسئلے ’’جنس‘‘ کی طرف بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں ’’لوگوں کے لیے دینی محبتیں آراستہ کر دی گئی ہیں اور یہ ہیں عورتیں اور بیٹے۔‘‘ چوں کہ جنس انسان کی ایک بڑی قوت اور صلاحیت ہے، اس لیے قرآن پاک میں اس کو لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ لطیف نقطہ، جو انسا ن پر واضع کیا گیا ہے وہ تولیدِ نسل ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی اس بات کو اس ارشاد کے ذریعے واضح کیا ہے کہ ’’اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تم کو ایک جان (آدم) سے پیدا کیا اور ان دونوں کے ذریعے بہت سارے مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا (النساء)، اس سے یہ بات بہ خوبی عیاں ہوتی ہے کہ ابو البشر حضرت آدم کی نہ صرف تخلیق کی بل کہ اس کی جنسی صحت مندی کے لیے جوڑا یعنی عورت کو بھی پیدا کیا گیا۔

اسلام میں واضع طور پر اس بات پر نا راضی اور ناپسندیدگی پائی جاتی ہے کہ مرد عورت کا اور عورت مرد کا روپ دھارے اور اس طرح اپنی شخصیت کومسخ کرے۔ متعدد احادیث میں سے ذیل کی صرف ایک یہی حدیث لے لیں تو اسلامی نقطۂ نظر کو واضح ہوجاتا ہے ’’وہ عورتیں ہم میں سے نہیں جومردوں کی مشابہت اختیار کریں، نہ وہ مرد ہم میں سے ہیں جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں …(ابو داؤد)

۔۔۔۔

ملکیت کا تصور اور جنسی انحرافات
پروفیسر مسعود ریاض(ماہر نفسیات)

قدیم تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ انسانوں میں جنسی بگاڑ کا مرض خاصا پرانا ہے۔

دست یاب تاریخی شواہد میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا احوال قابل ذکر ہے جن محققین نے جنسی بگاڑ کی تاریخ پر کام کیا، ان سب کی متفقہ رائے یہ ہے کہ یہ مرض اُس وقت عروج پر پہنچا، جب دنیا میں مردوں کے معاشرے کی بنیاد رکھی گئی۔ اِسی عرصے میں جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام معیشت کے ابتدائی خدو خال بھی نمایاں ہوئے۔

اس لیے ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں جب تک مادرسری نظام تھا، اُس عہد میں جنسی بگاڑ یا انحراف کے شواہد نہیں ملتے جب کہ دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام معیشت میں ملکیت کے تصور سے پیدا ہونے والی معاشرتی اورمعاشی نا ہم واریاں اور امتیازی قوانین جب شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رہے تھے تو اُس وقت بہت سے جسمانی اور نفسیاتی عارضے بھی ابھر کر سامنے آئے،جن میں جنسی انحراف کا مرض بھی شامل تھا اور یہ مختلف صورتوں میں سامنے آیا جو بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ہیئت تبدیل کرتا چلا گیا۔

جنسی انحراف کے منفی معاشرتی اور سماجی اثرات کو آج تک کسی بھی مذہب نے درست قرار نہیں دیا۔ آج کل اس بگاڑ کی ایک قسم ’’ہم جنس پرستی‘‘ کے حق میں اور مخالفت میں جو بحث عالمی سطح پر چل رہی ہے اگر ہم اُس کے پس منظر پر غور کریں تو ہمیں ایک نقطہ بہ ہرحال سمجھ میں آتا ہے کہ جنسی انحراف پیدا کرنے والے عوامل میں قدرتی، جسمانی یا وراثتی عوامل سے زیادہ سماجی اور معاشرتی عوامل زیادہ شدت سے کارفرما ہوتے ہیں، جو کسی بھی سماج میں پہلے غیرمحسوس اور پوشیدہ طریقے سے داخل ہو کر پھلتے پھولتے ہیں اور پھر یہ وہاں کے معاشرے میں ’’تفریح‘‘ کی آڑ میں کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔

تفریح کی حد تک معاشرے میں اِن عوامل کو بگاڑ تصور نہیں کیا جاتا لیکن جب یہ عوامل خوف، تشدد اور زور زبردستی کے دائرے میں داخل ہونے لگتے ہیں تو سماج اِس کو انحراف یا بگاڑ تسلیم کر لیتا ہے۔ اِس بگاڑ کی اصلاح کے لیے ماہرین کے دو مکتب فکر سامنے آتے ہیں، پہلے مکتب کے مطابق ’’اِس بگاڑ کی اصلاح اخلاقی بصیرت، سزا اور جزاء اور سماجی اقدار کی پاس داری سے کرنی چاہیے‘‘ جب کہ دوسرے مکتب کی رائے کے مطابق’’ یہ امراض خالصتاً نفسیاتی عارضے ہیں، اس لیے اس کی اصلاح ذہنی اور نفسی بیماریوں کے ماہرین کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘۔ اب تو بگاڑ کی جڑیں انسانی جینز کے اندر بھی تلاش کی جارہی ہیں، عین ممکن ہے کہ وہاں سے کوئی حوصلہ افزاء علاج سامنے آسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔

Cat Copy Effect
ڈاکٹر امجد طفیل (ماہر نفسیات و سماجیات)

ہمارے ملک میں پے در پے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو انسانی نفسیات میں آنے والی تبدیلیوں کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ہمارے بچوں کے لیے محفوظ نہیں رہا۔

اس میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو یہ نوجوانوں میں پائے جانے والے اضطراب اور جنسی ابال واضح کرتا ہے، جس کی وجہ میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے دست یاب ایسا مواد ہے، جو نوجوانوں کو مسلسل اشتعال کی حالت میں رکھتا ہے اور وہ پھر اپنی تسکین اور تنائو کو کم کرنے کے لیے آسان ہدف تلاش کرتے ہیں، دوسری طرف اس میں کچھ دخل ہمارے ا لیکٹرانک میڈیا پر آنے والی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا بھی ہے، جو ایک سطح پر دوسرے لوگوں کو بھی ابھارتی ہے کہ وہ پہلے والی خبر میں ماڈل بننے کی تقلید کرے۔

اس کو جرائم کی نفسیات میں Cat Copy Effect کا نام دیا جاتا ہے جس میں ایک واقعہ بہت سے اسی نوعیت کے واقعات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے اور لوگ جرم میں ایک دوسرے کی تقلید کرتے ہوئے صورت حال کو گمبھیر بنا دیتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ Paedophilia (بچوں کی طرف جنسی رجحان) ایک ذہنی بیماری ہے، اس کے حامل افراد چھوٹے بچوں کو جنسی جارحیت کا نشانہ بناتے تو ہیں لیکن وہ یہ حرکت اکیلے کرتے ہیں، گروہ کی صورت میں نہیں کرسکتے لہٰذا ہمارے ہاں اس مرض کے مریض کم ہیں اور یہ گینگ ریپ کے جتنے کیس سامنے آ رہے ہیں ان کا Paedophilia سے کوئی تعلق نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نفسیاتی علاج سو فی صد کارآمد نہیں
ڈاکٹر مریم مبشر(سائیکاٹرسٹ)
جنسی انحراف کے امراض کی وجوہات معاشرتی اور نفسیاتی دونوں ہی ہو سکتی ہیں، نفسیاتی امراض کی یہ اقسام اس لیے بھی اکثر و بیش تر سامنے نہیں آتیں کہ سماجی سطح پر ان کی درست طریقے سے پہچان نہیں ہو پاتی۔

جنسی انحراف کے شکار لوگ نہ صرف اپنے لیے سماجی زندگی کا حلقہ تنگ کر لیتے ہیں بل کہ وہ اپنے عزیزوں رشتے داروں کے لیے ایک مستقل Stigma بن جاتے ہیں۔ طبی نقطۂ نگاہ سے ان امراض میں مبتلا لوگ نفسیاتی علاج سے خاصی حد تک ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن سو فی صد درست کرنے کا دعویٰ نہیں کیاجا سکا البتہ جنسی ہیجان کم کرنے لیے سائیکاٹرسٹ بعض ادویات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ نفسیاتی علاج سے اِس بگاڑ کی شدت کو خاصی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

نفسیاتی یا ادویاتی علاج کے ذریعے ان امراض کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا لیکن اِس پر احسن طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ چھوٹے اور معصوم بچوں پر جنسی جارحیت کے رجحان کی متعدد وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مریض چھوٹے بچوں کو بآسانی اپنا ہدف بنا لیتے ہیں، اس لیے وہ بچوں کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی اور سماجی سطح پر ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کو اِس نظر سے بھی گاہے بہ گاہے دیکھتے رہیں کہ وہ نفسیاتی سطح پر کس قماش کے لوگ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔