معصومیت کا قتل…

شیریں حیدر  ہفتہ 21 ستمبر 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

مر تو تم اسی وقت گئی تھیں پیاری سنبل، جب کسی نے تمہاری معصومیت کا قتل کر دیا تھا، تم زندہ کہاں ہو، بس سانس لے رہی ہو، دیکھ رہی ہو، سن رہی ہو اور بول رہی ہو، یہ سب ایک معجزہ ہے، مگر تم زندہ کب کہلائی جا سکتی ہو؟ کس ظالم نے تم پر ظلم کیا، اتنے دن گزر جانے پر بھی مجرم دندناتا اور ہماری بے بسی پر کھلکھلاتا پھر رہا ہے۔ بنت حوا کے ساتھ کیا ہو رہا ہے… ایک تمہارے حادثے پر ہی موقوف نہیں، اس کے بعد بھی اخبارات اس طرح کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں، چار سالہ بچی، پانچ سالہ بچہ، نو سالہ بچی، چھ سالہ بچہ…جانے کیا کیا ہو گا!

سلسلہ سا چل پڑا ہے، اس سلسلے کو روکا جا سکتا تھا اگر تمہارے واقعے کواس طرح واضح طور پر میڈیا نہ اچھالتا، نہ ہی اس بات کی حوصلہ افزائی ہوتی کہ اس کریہہ جرم کے مجرم یوں آرام سے بچ نکلتے ہیں، دودھ سے مکھی کی طرح۔ سب سے بڑا نقصان تو اس نمایاں کوریج کی وجہ سے تمہیں ہو رہا ہے پیاری بیٹی کہ تم زندہ ہو اور تمہیں ہمیں لوگوں کے بیچ رہ کر زندگی گزارنا ہے… ہم جو ایسے واقعات میں مجرم کی بجائے جرم کا شکار ہونے والے کو معتوب ٹھہراتے ہیں۔ تم نے بڑا ہونا ہے، اسی معاشرے میں رہنا ہے، تعلیمی اداروں میں پڑھنا ہے، کل کو تمہاری شادی کا وقت بھی آئے گا، کیا تم سامنا کر سکو گی اپنی طرف اٹھنے والی انگلیوں کا کہ یہ ہے وہ بچی جو پانچ برس کی عمر میں زیادتی کا نشانہ بنی تھی، کیا ہمارا ظالم معاشرہ تمہیں اس ’’عیب‘‘ کے ساتھ قبول کر لے گا؟

ہم میں سے کون بھول سکتا ہے مختاراں مائی کو اور ڈاکٹر شازیہ کو کہ جو مبینہ زیادتی کا شکار ہوئیں اور ’’عالمی شہرت‘‘ پائی…ان میں لاکھ خوبیاں ہوں گی، وہ مظلومات اچھی انسان ہوں گی، اچھی بہنیں، مائیں اور بیویاں بھی ہوں گی مگر ہم میں سے کون اس بات کو جانتا یا مانتا ہے، ہم تو فقط یہ جانتے ہیں کہ وہ زیادتی کا شکار ہونے والی وہ  عورتیں ہیں جنھیں دنیا بھر میں اسی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہی کل کو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے پیاری۔ تم جیو گی مگر تمہاری وجہ شہرت یہ المیہ بن جائے گی جس کے ذمے داروں تک ہم کبھی نہ پہنچ سکیں گے… کیونکہ ہم صرف ان کو مجرم سمجھ رہے ہیں جنھوں نے تمہاری معصومیت کو پامال کیا اور عمر بھر کے لیے ایک ایسے خوف میں مبتلا کر دیا جو تمہارا ہم زاد بن کر مرتے دم تک تمہارے ساتھ رہے گا۔میں تو سمجھتی ہوں کہ ہم میں سے کئی تمہارے مجرم ہیں… ہم سمجھتے ہی نہیں کہ کس طرح ہم کسی جرم میں شریک بن جاتے ہیں۔

کسی بچی یا لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ہم اندازہ ہی نہیں کر پاتے کہ کون کون سے عناصر محرک بن جاتے ہیں…سب سے پہلا فرض گھر سے گھر والوں کا بنتا ہے، اپنی بچیوں اور بچوں کو بھی ابتدائی تربیت دیں کہ جب ان کے ساتھ کوئی ’’حد‘‘ پھلانگنے کی کوشش کرے تو وہ شور مچائیں، چیخیں اور مدد کے لیے پکاریں۔ چند ماہ قبل میں نے اپنے ادارے میں چار اور پانچ سال کی عمر کے بچوں کی جماعت میں خود انھیں ’’اپنی حفاظت‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا، جس پر مجھے چند لوگوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، بالخصوص ان والدین کی طرف سے، جن کے مطابق میں نے بچوں سے ’’بہت فحش‘‘ موضوع پر گفتگو کی تھی۔ بعد ازاں میں کسی حد تک ان والدین کو قائل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی تھی، یہ موضوع ہمارے لیے بہت ’’فحش‘‘ ہے کیونکہ ہم اس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، بچے تو معصوم ہوتے ہیں اور ان کے ذہن سادہ!ایک ایسے ادارے میں جہاں میں ایسی ذمے داری پر ہوں کہ تین برس سے چھ برس تک کی لڑکیاں اور لڑکے، والدین پورے اعتماد کے ساتھ دن کے چار پانچ گھنٹے کے لیے ہمارے پاس چھوڑتے ہیں۔

والدین کے بعد ہماری ذمے داری ہے کہ ہم بچوں کو ان خطرات سے با خبر رکھیں جو انھیں کہیں بھی لا حق ہو سکتے ہیں، گھروں پر، اسکولوں میں، پارک میں، اسکول وین میں، اسکولوں کے غسل خانوں میں، گھروں کے اندر بھی، ملازموں کے کوارٹروں میں اور یہاں تک کہ رات کو سوتے میں ان کے کمروں میں بھی۔ میں نے بچوں کو بہت سادہ الفاظ میں بتایا… آپ کا جسم آپ کی ملکیت ہے، بچوں میں احساس ملکیت سب سے بڑھ کر ہوتا ہے اور وہ بہت کم اپنی چیز کسی کے ساتھ شیئر کرنے کو تیار ہوتے ہیں… انھیں بتایا کہ جب وہ تنہا ہوتے ہیں تو انھیں ہر چیز سے خطرہ ہوتا ہے، جب وہ خطرہ ان کو چھوتا ہے تو ان کے جسم میں لگے سنسر انھیں بتا دیتے ہیں کہ کوئی انھیں غلط انداز سے چھو رہا ہے۔جب ایسا ہو تو انھیں بھاگنے اور چیخنے کی ضرورت ہے، جب ایک انسان کسی عفریت کی طرح عمل کرنے لگے تو وہ مدد کے لیے پکاریں خواہ وہ کہیں بھی ہوں، خواہ وہ عفریت ان کا کوئی سگا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو… اس پر ایک بچی نے بڑا اہم سوال کیا… ’’میڈم اگر کوئی وہاں نہ ہو، کوئی ہماری آواز، ہماری چیخ نہ سنے تو؟‘‘’’آپ جانتے ہیں بیٹا کہ آپ کبھی تنہا نہیں ہوتے… ہر وقت کوئی ہے جو آپ کے ساتھ ہوتا ہے، اسے آپ سے سب سے بڑھ کر پیار ہے، آپ کے ماںباپ اور اساتذہ سے بڑھ کر!!‘‘ بچے یہ جانتے ہیں کہ وہ کون ہے، اللہ تعالی … جو ہم سب کو ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے۔

بچے تو یہی کر سکتے ہیں جو کہ میں نے انھیں بتایا مگر میں بتاتی ہوں کہ ہماری غلطیاں اور کوتاہیاں کیا ہیں…بچوں کے ملبوسات بنانیوالی کمپنیاںجب بچوں کے ملبوسات بناتی ہیںتو انھیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کے پھولوں جیسے بدن جس حد تک ممکن ہو موسم اور خراب نظروں کی حدت اور شدت سے محفوظ رہیں، مائیں اپنے بچوں کو بتائیں کہ اٹھنے اور بیٹھنے کا کیا طریقہ ہو، کھیل کے دوران وہ اپنے لباس کا خیال رکھیں… نظر پہلی مجرم ہوتی ہے اور وہی کسی انسان کو شیطان بنا دیتی ہے…بچوں کو ملازموں، ڈرائیوروں اور اسکول وین پر اکیلا نہ بھیجیں، انھیں گھر سے باہر اکیلا نہ نکلنے دیں، دکانوں پر نہ بھیجیں، گھر سے باہر ریڑھیوں اور ٹھیلوں والوں سے چیزیں لینے کے لیے نہ جانے دیں، انھیں بتائیں کہ کسی اجنبی سے لے کر کچھ نہ کھائیں خواہ وہ چیز انھیں کتنی ہی مرغوب کیوں نہ ہو۔ بد قسمتی سے گھریلو زیادتی کا شکار کرنے والوں میں زیادہ تر بچے اپنے خونی اور حقیقی رشتوں کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔

ہم جہاں سوچ بھی نہیں سکتے، وہاں ہمارے بچے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ ہم انھیں رشتوں پر اعتبار کرتے ہیں اور شیطان ہمیشہ وہاں سر گرم عمل رہتا ہے جہاں اعتبار کیا جاتا ہے…بسا اوقات ہم چھوٹی بچیوں کو تو ان خطرات سے آگاہ کرتے ہیں مگر لڑکوں کو محفوظ سمجھتے ہیں جب کہ لالچ اور ہوس میں مبتلا شخص اندھا ہوتا ہے۔ لڑکوں کو بھی اپنی حفاظت کی بنیادی تربیت دیں اور انھیں حفاظتی اقدامات ضرور بتائیں…ایک غلطی جو ماں باپ سے سرزد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے اپنے تعلقات میں احتیاط نہیں برتتے جس سے بچے سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے یا ہونے جا رہا ہے وہ کچھ ایسا غلط نہیں ہے…ایک بار زیادتی کا شکار ہونے والی بچی اگر ماں کو کچھ بتانے کی کوشش کرے تو ماں اسے ڈپٹ دیتی ہے اور خاموش ہو جانے اور کسی اور کو نہ بتانے کا کہتی ہے، ماں کی اس غلطی کا خمیازہ بچی ہمیشہ بھگتتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والا بھی اس سے یہی کہتا ہے کہ کسی کو مت بتانا… کسی کو نہ بتانا اہم ہے، باقی جو ہو رہا ہے اسے چلنے دو! اس طرح کی زیادتی ہمارے قریبی اور عزیز کرتے ہیں، عورتیں ان رشتوں کو کھونا چاہتی ہیں نہ جانتی ہیں کہ ان حالات سے کس طرح نمٹا جائے… ہمت کر کے بات کریں، انھیںخاندان میں ذلیل کریں، ان سے قطع تعلقی کریں… کتنا بھی قابل اعتبار ملازم کیوں نہ ہو اس پراپنے بچوں کی عزت کے معاملے میں اعتبار نہ کریں۔

اپنے بچوں کی بات دھیان سے سنیں اور ان پر یقین کرنا شروع کریں، بسا اوقات عورتیں بچوں کی ایسی شکایت پر سمجھتی ہیں کہ فلمیں ڈرامے دیکھ دیکھ کر بچوں پر اثر ہو گیا ہے، ہنس کر ان کی بات ٹال دیتی ہیں… خدارا ایسا نہ کریں!!! اپنے بچوں کی ایسی باتوں کو دھیان سے سنیں، اگر آپ کو شک ہے کہ بچہ جھوٹ نہ بول رہا ہو تو اس سے تفصیل پوچھیں، ہر چیز کی تفصیل!!! گھروں کے ملازمین عموما بچوں سے’’ کھیل‘‘ کہہ کر ’’گھناؤنے کھیل‘‘ کھیلتے ہیں، اگر کوئی ایسا معاملہ ثابت ہو تو پولیس کو رپورٹ کریں، ملازم کو فارغ کردینے کا مطلب ہے کہ وہ کہیں اور جا کر اپنا ’’کھیل‘‘ جاری رکھ سکے…اگر آپ کے گھر میں کوئی ملازمہ بچی ہے تو اس کا خیال رکھنا بھی آپ کی ذمے داری ہوتی ہے، وہ بھی کسی کی بیٹی ہے، اپنے بھائیوں، خاوندوں اور بیٹوں اور گھر میں موجود دوسرے مرد ملازموں، حتی کہ اپنے مہمانوں پر بھی کڑی نظر رکھیں… آپ کے زیر سایہ کسی بچی کی عزت پامال ہو جائے تو قیامت کے دن آپ جوابدہ ہیں…آپ کتنے بھی مصروف کیوں نہ ہوں، آپ کی سوشل مصروفیات کتنی بھی اہم کیوں نہ ہوں۔

دنیا کی کوئی چیز آپ کے بچوں اور ان کی عزت اور زندگی سے بڑھ کر اہم نہیں، اپنے بچوں کو ہر چیز پر ترجیح دیں، اپنے نوجوان بچوں کو بھی چیک کریں، ان کے تعلیمی اداروں پر جا جا کر ان کو چیک کریں، ان کی دوستیاں اور مصروفیات چیک کریں، دوسروں پر شک کریں تو اپنے بچے پر شک کرنا نہ بھولیں، ممکن ہے کہ وہ اپنے خاندان میں یا باہر کوئی ’’کھیل‘‘ کھیل رہا ہو، وہ بھی غلط ہو سکتا ہے، اس کی صحبت بھی غلط ہو سکتی ہے…بچے کانچ کے سے نازک دلوں کے ہوتے ہیں، اس کانچ کو ٹوٹنے نہ دیں، بچوں کو پھولوں کی طرح رکھیں، انھیں کملانے نہ دیں، انھیں مرجھانے نہ دیں، ان کی معصومیت کو قتل نہ ہونے دیں!!!

اللہ تعالی ہمارے معاشرے کی اس بیماری کو دور کرے اور اس اخلاقی پستی کا خاتمہ ہو، ہمارے بچے ایک محفوظ اور ہمیشہ سر سبز گلستان میں تتلیوں کی طرح چہچہائیں… آمین!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔